اصولی طور اب پیپلز پارٹی کو یہ بات کبھی نہیں کہنی چاہئیے کہ انصاف کے ایوان میں سندھ سے سوتیلی ماں جیسا سلوک اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر پاکستان کے قانون کو پنجاب سے زیادہ پیار ہوتا صرف نواز شریف اور مریم نواز ہی نہیں بلکہ شاہد خاقان عباسی اور سعد رفیق کے ساتھ رانا ثناء اﷲ بھی رہا کیے جاتے۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی کے صرف آصف زرداری اپنی ہمشیرہ فریال تالپور کے ساتھ آزاد نہیں ہوئے بلکہ سید خورشید شاہ اور آغا سراج درانی کو بھی ضمانت مل چکی ہے۔ جب کہ ملکی میڈیا کو معاشی بحران میں دھکیلنے والا سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن تو پہلے سے آزاد ہے۔ ان سے تو یہ بھی نہیں پوچھا جاتا کہ اس نے شراب کو شہد میں تبدیل کرنے کا کارنامہ کس طرح سرانجام دیا؟ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سیاست میں سندھ کارڈ کو استعمال کیا ہے مگر اس وقت انہیں ایوان انصاف سے جو اتفاقی یا غیر اتفاقی پیکیج حاصل ہوا ہے اس کے بعد تو اس کی بولتی بند ہو گئی ہے۔ پیپلز پارٹی نے تو حکومت اور انصاف کے اداروں پر دھرنوں کی صورت میں کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔ اب وہ کس منہ سے کہیں گے کہ پنجاب کے لیے قانون اور سندھ کے لیے قانون اور ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں۔ پورے پاکستان کو پتہ ہے اور سندھ کو گذشتہ گیارہ برس سے ایک ایک جیالے کو دیکھ چکا ہے کہ کس نے کتنی کرپشن کی ہے۔ مگر جب آصف زرداری؛ فریال تالپور اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما کرپشن کے کیسز میں آزاد ہوئے تو سندھ نے نہ خوشی سے تالیاں بجائیں اور نہ احتجاجی نعرے لگائے۔ وہ خاموشی سے باہر آئے۔ وہ باہر آکر بھی خاموش رہے۔ ان کا استقبال بھی خاموشی نے کیا۔ اس بار تو سندھ میں پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین بھی خاموش رہے۔ انسانیت کے فلسفے اور سیاسی مفادات کے سرے کہاں ملتے ہیں؟ اس سوال کا جواب بہت مشکل ہے مگر یہ بات سب کو شدت سے محسوس ہو رہی ہے کہ جس طرح ڈکٹیٹر سیاسی طور پر کمزور ہونے کے بعد جمہوریت کا سب سے بڑا وکیل بن جاتا ہے۔ اسی طرح شدید سیاسی بحران کے دور میں لوگ انسانیت کے فلسفے میںپناہ لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ اچھی بات مخالف کو معاف کرنا ہے۔ اس وقت کرپشن کے قیدیوں پر اشفاق احمد کے معافی والے فکر نے اپنا فضل قائم کر رکھا ہے۔ یہ ساری باتیں ایک طرف مگر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر کرپشن کے مجرموں کو معافی مل سکتی ہے تو ان عام قیدیوں کو کیوں نہیں جن کا پہلا جرم یہ ہے کہ وہ دولت مند نہیں اور ان کا دوسرا جرم یہ ہے کہ وہ سیاست نہیں کرتے۔ کیا سیاست وہ چھتری بن چکی ہے جو سزاؤں کی برسات کی ایک ایک بوند کو روک لیتی ہے؟اگر معافی اتنی اچھی ہے تو پھر ان قیدیوں پر بھی نظر کرم کی جائے تو غربت اور جہالت کی وجہ سے مجرم بن گئے۔ اگر انصاف کی آنکھ سے دیکھا جائے تو ان قیدیوں کو صرف اپنی ذات اور اپنے مفاد نے نہیں بلکہ اس سسٹم نے مجرم بنا ڈالا جس سسٹم کو تبدیل کرنے کے لیے اب تک صرف نعرے لگتے رہے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے حکمرانوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ انہوں نے گذشتہ گیارہ برسوں کے دوراں سندھ میں کس مسئلے کو حل کیا؟ سندھ میں بڑے مسائل تو ایک طرف؛ سندھ میں چھوٹے مسائل ِبھی حل نہیں ہوتے۔ پیپلز پارٹی اب تک لاڑکانہ کو اپنا قلعہ مانتی ہے۔ جب کہ لاڑکانہ کے سیاسی قلعے کی بنیاد وہ گڑھی خدابخش ہے جہاں بھٹو خاندان کا قبرستان ہے۔ پیپلز پارٹی نے بقول ان کے شہدا ء کا قبرستان تو بہت بلند اور بڑا قیمتی بنا دیا ہے جب کہ پیپلز پارٹی کے پانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی گاؤں میں کچے مکان اور گھاس پھونس کے گھر ہیں۔ان گھروں میں رہنے والے انسانوں کی اچھی خاصی تعداد ایڈز کے مرض میں مبتلا ہے۔لاڑکانہ کے لوگ صرف ایچ آئی وی کی وجہ سے نہیں مرتے بلکہ اب سندھ کے بچے کتوں کے کاٹنے سے بھی تڑپ تڑپ کر مرجاتے ہیں۔ کیوں کہ حکومت سندھ کہتی ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بگڑنے کے باعث ویکسین کی درآمد رک گئی ہے۔ کیا بھارت کے علاوہ اور کوئی ملک نہیں جہاں سے کتے کے کاٹنے کی صورت میں لگائی جانے والی ویکسین حاصل ہو سکے؟ پیپلز پارٹی نے سندھ کے لیے کون سا کردار ادا کیا ہے؟ اس سوال کا سنجیدگی سے جواب دینے کے بجائے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کوئٹہ جاتے ہیں تو وہاں تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں ہم نے سندھ میں بیروزگاری مکمل طور پر ختم کردی ہے۔ اس قسم کی باتیں سن کر بھی سندھ اب خاموش رہتا ہے۔ وہ اب پہلے کی طرح غصے میں نہیں آتا۔ شاید وہ سوچتا ہے کہ اس غصے سے کیا فائدہ جو بارود کی طرح اپنے وجود کو زخمی کردے؟ سندھ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال سے الگ تھلگ نہیں ہے۔ سندھ پر بھی وہی مایوسی کے سائے لہرا رہے ہیں جو پورے ملک کا مقدر ہیں۔ بقول غالب ’’کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘ اداروں کا باہمی تصادم اور وہ بھی اس وقت جب بھارت کے جبڑوں سے کشمیر کا خون ٹپک رہا ہے۔ اس وقت اس قسم کی صورتحال بہت پریشان کن ہے۔ اداروں کے باہمی ٹکراؤ سے مجرم صفت سیاستدان جس طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ بات اپنی جگہ پر پریشانی کا باعث ہے۔ سندھ بھی اس افسوس کی مالا کا موتی ہے۔ سندھ بھی سوچ رہا ہے کہ بہتری کی صورت کب نظر آئے گی۔ تبدیلی ایک بدنام لفظ بن چکا ہے مگر اس لفظ کے بغیر ہم لوگوں کا کوئی اور چارہ بھی تو نہیں ہے۔لوگ کہاں جائیں ؟ کیا کریں؟ سندھ کی سوچ میںبھی یہ سوال سلگ رہے ہیں۔ سندھ اس وقت بہت مایوس ہے۔ اس مایوسی کی کیفیت میں وہ نہ تو پیپلز پارٹی کے اسیر رہنماؤں کی آزادی پر تالیاں بجاتا نظر آیا اور نہ مخالف نعرے لگاتا سنا گیا۔ وہ خاموش رہا۔ مگر اس خاموشی میں بھی ایک قسم کا شور تھا۔ ایسا شور جیسا شور اداس سینے میں ہوتا ہے۔ سندھ کے اس شور کو کون سن سکتا ہے؟ کیوں کہ پورے ملک میں ہر ایک صوبے اور ہر ایک شہر اور ہر ایک فرد کے سینے میں مایوسی کا خاموش مگر ماتمی شور ہے۔ سندھ بھی ملک کے اس خاموش ماتم کا حصہ ہے۔ اس خاموشی کو دیکھ کر کرپٹ سیاستدان بہت خوش ہیں۔ انہیں سرکش اور پرامید لوگوں سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ وہ مایوسی اور اداس انسانوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتے ہیں۔ اس بار جب پیپلز پارٹی کے رہنما آزاد ہوکر باہر آئے تو انہوں نے سندھ میں اپنے خلاف بغاوت کی بو تک محسوس نہیں کی۔ یہ سماجی صورتحال مفاد پرست سیاستدانوں کو بہت پسند آتی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب پورا معاشرہ تبدیلی کی لہر پر سوار نظر آتا تھا۔ مگر اب ایک طرح کا گہرا جمود ہے۔ اس جمود کی وجہ سے اب وہ صورتحال نہیں جو اس وقت ہوا کرتی تھی جس وقت کو ان الفاظ میں بیان کیا جاتا تھا : ’’چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا‘‘ مگر اب وہ صورتحال نہیں۔ اب اسیر آزاد ہوکر آتے ہیں تو سماج کو ایسا ہی پاتے ہیں جیسا وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ جب جمود کی کیفیت اس قدر ہو تو پھر امید کی بات کون کرے؟ مگر امید کے بغیر معاشرے کا اور کوئی چارہ نہیں ۔ موجودہ دور مایوسی کی تاریک سرنگ کی طرح ہے۔ وہ سرنگ جو بہت تنگ اور تاریک ہے۔ مگر اس سرنگ کے اس پار ہمیں امید کی روشنی نظر آتی ہے۔