چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان دیرینہ دو طرفہ تعلقات میں بڑھتی ہوئی رکاوٹوں کی موجودگی میں 7 سے 9 دسمبر تک سعودی عرب کا تین روزہ دورہ کیا ہے۔ اِس دورہ نے چین،سعودی دوطرفہ تعلقات کی مسلسل بڑھتی ہوئی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ سعودی عرب اَمریکہ سے ڈِکٹیٹشن لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 5 اکتوبر کو اوپیک ، گروپ کے فیصلے کے تناظر میں صدر بائیڈن نے سعودی عرب کو متنبہ کیا تھا لیکن امریکہ کے دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے تیل کی پیداوار کے اہداف کو یومیہ 20 لاکھ بیرل کم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اگرچہ سعودی عرب نے اصرار کیا کہ تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ "خالص طور پر اقتصادی" تھا اور اس کا مقصد توانائی کی منڈیوں میں اِستحکام لانا تھا لیکن امریکی اس پر قائل نہیں ہوئے۔ یہ دونوں پرانے حلیفوں کے درمیان کشیدگی کا تازہ ترین مظاہرہ تھا، جنہوں نے حالیہ برسوں میں بہت سی رکاوٹیں برداشت کی ہیں۔یاد رہے کہ اَمریکی صدر بائیڈن نے جولائی میں سعودی عرب کا دورہ کیا اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی، باوجود اِس کے کہ 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد اَمریکہ کی جانب سے سعودی مملکت کو ایک بین الاقوامی "اچھوت" بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ تاہم، شی جن پنگ کا سعودی عرب کا حالیہ دورہ سعودی ولی عہد کو بین الاقوامی سطح پر اِیک اہم شخصیت کے طور پر اپنا اَثر و رسوخ ظاہر کرنے کا ایک بڑا موقع فراہم کرتا ہے۔ کورونا وبا کے پھیلنے کے بعد سے چینی صدر کا یہ صرف تیسرا دورہ ہے جبکہ 2016 کے بعد سے سعودی عرب کا ان کا پہلا دورہ ہے۔ سعودی میڈیا کے مطابق، دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ سربراہی اجلاس کے دوران شراکت داری کے معاہدے سمیت تقریباً 30 بلین ڈالر کے ابتدائی معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں جن میں چینی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے بھی شامل ہے۔ ہواوے ٹیکنالوجیز کے حوالے سے معاہدہ کلاؤڈ کمپیوٹنگ، ڈیٹا سینٹرز اور سعودی شہروں میں ہائی ٹیک کمپلیکس کی تعمیر سے متعلق ہے جبکہ گرین ہائیڈروجن، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹرانسپورٹ اور تعمیرات کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے 34 معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ چینی صدر شی جن پنگ اور سعودی شاہ سلمان نے "جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے" پر دستخط کیے ہیں اور چینی رہنما نے اِسے تعلقات میں "ایک نئے دور" کے طور پر پیش کیا ہے۔ اِن معاہدوں سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت، کاروبار اور سرمایہ کاری کے تعلقات بڑھیں گے جو حالیہ برسوں میں بہت گہرے ہوئے ہیں۔ مزید برآں، اِن معاہدوں سے ہونے والی آمدنی سعودی ویڑن 2030 کے لیے انتہائی اہم ہے جن میں سعودی عرب کے شاندار اقتصادی تنوع کے منصوبے، بشمول مستقبل کا شہر NEOM شامل ہے جو اِس وقت زیرِتعمیر ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں ممالک کے رہنماؤں نے ان ممکنہ سودوں پر تبادلہ خیال کیا ہے جن میں چینی فرموں کو ان میگا پراجیکٹس میں شامل کیا جا سکتا ہے جو سعودی عرب کی معیشت کے تیل پر اِنحصار کم کرنے کے سعودی ولی عہد کے وژن میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان منصوبوں میں NEOM کے نام سے مشہور 500 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والا مستقبل کا میگاسٹی شامل ہے جو چہرے کی شناخت اور نگرانی کی ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار کرے گا۔ اگر یہ سمارٹ سٹی منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے، تو سعودی عرب چین کے ساتھ اپنے تعاون کو کئی طریقوں سے مزید وسعت دینے کی توقع کر سکتا ہے، خاص طور پر بہت سے چینی سیاح بحیرہ احمر پر واقع سعودی ریزورٹس کا دورہ کر سکتے ہیں۔ اِس دورے کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے ریاض میں پہلی چین،عرب ریاستوں کے سربراہی اجلاس اور چین،خلیجی تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس میں بھی شرکت کی ہے۔ سعودی ولی عہد نے چینی صدر کا شاندار استقبال کیا ہے جو اَمریکی صدر بائیڈن کے جولائی میں ہونے والے سعودی عرب کے دورے کے موقع پر ہونے والے اِستقبال کے برعکس ہے۔چین اور سعودی عرب تیل کی منڈی کے دو اہم ترین کردار ہیں، سعودی عرب تیل فروخت کرنے والاایک اہم ملک ہے جبکہ چین ایک بڑا خریدار ہے۔ چین سعودی عرب کی تیل کی برآمدات کا تقریباً ایک چوتھائی خریدتا ہے۔ سعودی عرب اور اَمریکہ کے مابین دوطرفہ تعلقات میں توانائی پالیسی سے لے کر علاقائی سلامتی اور انسانی حقوق تک کے مسائل پر شدید تناؤ اور اِختلاف پایا جاتا ہے۔ چین سعودی عرب کو مشرق وسطیٰ میں اپنے کلیدی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے کیونکہ سعودی عرب نہ صرف تیل فراہم کرنے والا ملک ہے بلکہ مغربی ممالک کے مشترکہ شکوک و شبہات بالخصوص انسانی حقوق جیسے مسائل پر دونوں ملک یکساں مؤقف رکھتے ہیں حتی سعودی عرب نے چین کے علاقے سنکیانگ کی صورتحال پر بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔اَگرچہ واشنگٹن کو چین اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کے دفاعی اور سلامتی کے پہلوؤں کے بارے میں شدید تحفظات ہیں لیکن اَمریکہ کے لیے شدید چیلنج یہ ہے کہ بیجنگ کے لیے ریاض کے نقطہ نظر کے مطابق کام کرنا آسان ہے۔ دوسری طرف،سعودی عرب چین کو سیاسی طور پر مستقل مزاج سمجھتا ہے،ریاض کو انسانی حقوق جیسے مسائل پر لیکچر دینے سے گریز کرتا ہے، اور فوجی سازوسامان اور آلات کے اِستعمال پر عجیب قسم کی پابندیاں بھی نہیں عائد کرتا۔دفاعی ماہرین کے مطابق چین کی مسلح افواج اور جبوتی میں اڈے کے قیام کے باوجود چین سعودی ریاست کی سالمیت کے دفاع کے لیے فیصلہ کن اور بروقت طاقت کا اِظہار نہیں کر سکتا جیسا کہ اَمریکہ پہلے ہی "آپریشن ڈیزرٹ سٹارم" میں کر چکا ہے۔چونکہ سعودی فوج امریکی امداد،تربیت اور اسپیئر پارٹس پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، اِس لیے سعودیوں کے لیے اِس میدان میں اَمریکہ سے منہ موڑ کر چین کی طرف دیکھنا مشکل ہوگا۔ اِس تناظر میں چین کے ساتھ شراکت داری کو بڑھانے کے لیے سعودی عرب کی موجودہ کوشش فی الحال اَمریکی حکام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور اَمریکیوں کو یاد دلانے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے کہ سعودی عرب کے پاس دوسرے طاقتور ملکوں کے ساتھ اِتحاد کرنے کی آپشن موجود ہے، جن سے عالمی سیاست کثیر قطبی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔