چوٹی پر بیٹھاہر شخص اکثر تنہا رہ جاتا ہے۔اگلے زمانوں میں حاکم بھیس بدل بدل کر راتوں کو شہر پناہ کی گلیوں اور بازاروں میں گھومتے تھے۔جہاں یہ جاننا مطلوب ہوتا کہ رعایا کس حال میں جیتی ہے، وہیں یہ خبر بھی ملتی کہ رعایا کیا سوچتی ہے ۔ صرف حکمران ہی نہیں، اکثر چوٹی پر بیٹھے سرکاری عہدیدار بھی تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کہنے کو معلومات بہم پہنچانے کا ایک مربوط نظام ہمہ وقت کار فرما رہتا ہے۔ اکثر مگر اس کے باوجود کان وہی سنتے ہیں جو سننا چاہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں ایک ایسے صدر صاحب بھی گزرے ہیں کہ جن کے لئے ان کے وزیرِ اطلاعات اخبار کی خصوصی کاپی چھپوایاکرتے تھے۔ چوٹی پر بیٹھے عہدیداروں کا یہ مخمصہ عام ہے۔ مخمصہ مزید گھمبیر اس وقت ہوتا ہے جب چوٹی پر بیٹھے شخص اور اس کے قریبی مصاحبوں کے درمیان عمر، تجربے اور سنیارٹی کا فرق معمول سے بڑھ جاتا ہے۔مدتِ ملازمت میںہر توسیع کے ساتھ ہی چوٹی پر بیٹھے شخص کی تنہائی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔ از کارِ رفتہ سپاہی جس سوسائٹی میں رہتاہے،اس کے بائی لاز کے مطابق سوسائٹی کے اندر کسی مکان ، دکان یا پبلک مقام پر کسی بھی سیاسی پارٹی کا جھنڈا آویزاں کرنے کی اجازت نہیں۔ ایک گھر ہمارے سامنے بھی زیرِ تعمیر ہے۔ ایک صبح دیکھا تو سامنے زیرِ تعمیر گھر کے مین گیٹ پر ایک سیاسی جماعت کا چھوٹا سا جھنڈا لہرا رہا تھا۔وہاں کام کرنے والے مفلوک الحال مزدوروں میں سے کسی ایک نے اپنی جیب سے خرید کر لگایا ہو گا۔ یہ جھنڈا صرف اس ایک سوسائٹی میں نہیں، اب پاکستان کے طول و عرض میں عام دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں جہاں افلاس کے مارے،میلے کپڑوں میں ملبوس، کٹے پھٹے ہاتھوں والے پردیسی مزدور اور پسینے میںبھیگے کسان کام پر جٹے ہیں، یہ جھنڈا وہاں وہاں اب عام دیکھا جا سکتا ہے۔ مٹی، بجری اور پتھر ڈھوتے ٹرکوں اور ڈمپروںپر آویزاں دیکھا جا سکتاہے۔ اکثر شہر کی سڑکوں پر موٹر سائیکلوں کے ہینڈلوں کے ساتھ بندھے،رکشوں، سوزوکی پک اپس اور کاروں کے پچھلے شیشوں پر چسپاں دیکھا ہے۔ کیا آپ نے بھی دیکھا ہے؟ کیا چوٹی پر بیٹھے ہوئے کسی تنہاشخص کو بھی ایسا منظر کبھی دیکھنے کو ملاہے؟خود نہیںدیکھا تو کیا مصاحبین میں سے ہی کبھی کسی نے کان میں سرگوشی کی ہو؟ ایک بچہ ہے جو عمر کے اس حصے بھی جیتا ہے۔ ایک بگڑا نودولتیوں کے گھر پیدا ہونے والا بچہ، بات بات پر جو بگڑ جاتا ہے۔متکبر،ضدی، گھمنڈی، زبان دراز اورخود اپنی ذات کی محبت میں گرفتار ۔غصے میں وقتی شدت تو ہم عام دیکھتے ہیں۔افراد اور گروہوں کے مابین مخاصمت بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ کیا دائمی نفرت بھی کبھی اس قدر شدید ہوسکتی ہے؟ گھڑی گھڑی مچلتے ہوئے بس ایک ہی مطالبہ ہے کہ گرفتار کیا جائے۔ گرفتار کر کے عقوبت خانے میں ڈالا جائے۔ کیا عقوبت خانے میں مار پیٹ بھی درکار ہے؟ کیا نئی روایت کے مطابق برہنہ بھی کیا جانا مطلوب ہے؟کچھ ہاتھ نہیں آرہا، مگر خون ہے کہ اُبل رہاہے۔’ فتنہ ‘راتوں کو کروٹیں بدلنے پر مجبور کرتا ہے۔ صرف بگڑی اولاد ہی نہیں، مغرب سے مرعوب خود ستائی کے مارے’ دانشور ‘بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہ شخص بہت خطرناک ہو چکا ہے۔ ایک فتنے میں بدل چکا ہے۔مڈل کلاس سے وابستہ ڈاکٹرز، انجنیئرز ، اساتذہ ، وکلا ء سمیت غازیوں اور شہیدوں کے ہزاروں خاندانوں کو اس نے ورغلایا ہے۔ ’پوسٹ ٹروتھ‘ کے زمانے میں رومان پرست پاکستانیوں کو جھوٹے خواب بیچے ہیں۔ تارکینِ وطن کوتو اپنے آسیب کے اثر میں برسوں سے لے رکھا ہے۔ا ب یونیورسٹیوں میں ہمارے بچوں کو ورغلا رہا ہے۔اسے روکو بھائیو، روکو۔پورا سسٹم خطرے میں ہے۔ اب کی بار بڑی اکثریت کے ساتھ واپس لوٹ آیا تو؟یہی سوچ کر پورے کا پورا سسٹم لرز رہا ہے۔ اب روکنا ہے تو اس ایک شخص کو کسی نہ کسی طرح راستے سے ہٹانا ہوگا۔کچھ اور نہیں تو انتخابات میں جانے سے پہلے اسے نا اہل کرنا ہوگا۔جو ہو سکے تو اسے جیل میں ڈالنا ہو گا۔ مایوسی کے سپاٹ چٹیل میدان میں کھڑے سر سبز درختوں کو گرادینا چاہیئے ۔امید کا پھل جن کی شاخوں پر پک چکا ہے۔ امیدوں کو ان کی جڑ وںسے کاٹنا لازم ہے۔ صرف جون کے ایک مہینے کے اندر مہنگائی میں بیس فیصد اضافہ ہوا تھا۔ غریب ہی نہیں، مڈل کلاس طبقے سے وابستہ پاکستانی بھی اب کمر ڈھانپنے میں کوشاں ہیں۔وہ کمر جو بجلی اور پٹرول کی ہوش ربا قیمتوں نے دہری کر رکھی ہے۔ سردیوں میں گیس دستیاب نہیں ہو گی۔ یہ اس حکومت نے اعلان کیا ہے جو گذشتہ حکومت کی توانائی پالیسی اور کارکردگی کی سب سے بڑی ناقد تھی۔گندم کا بحران سر اٹھا رہا ہے۔وزیرِاعظم کے جہاز پر لائے گئے وزیرخزانہ کی آمد کے ساتھ ہی روپیہ سنبھلے لگا تھا۔ اب ایک بار پھر اس کی قدرمٹھی میں بھری خشک ریت کی طرح انگلیوں میں سے سرک رہی ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائرخطرناک ہی نہیں،شرمناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔معیشت اپنے گھٹنوں پر ہے۔اکنامک ڈیفالٹ سر پر ننگی تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔دنیا دم سادھے ہمیں دیکھ رہی ہے۔ ایک نیوکلیئر ریاست اور اس کی’ مالی استطاعت ‘ میں تال میل (Cohesion)کا فقدان ہو تو لوگ باتیں تو بنائیں گے۔بد خواہوں کی زبانیں کون روک سکتا ہے؟ سرِ شام ،از کارِ رفتہ سپاہی جس موضوع پرلکھنے کا ارادہ باندھے بیٹھا تھا، رات گئے تک قلم گھسیٹتا رہا،کچھ ہاتھ نہ آیا۔اب جب کہ رات پوری طرح بھیگ چکی ہے، تو میںیہ بے ربط مگر المیہ گیت لکھ رہا ہوں۔سہ پہر الیکشن کمیشن نے ایک بھونڈا بے ترتیب اور بانجھ فیصلہ عجلت کے ساتھ لکھا ہے۔ اس سے بڑھ کرعجلت کے ساتھ سنا یا گیا۔ پولیس کی بھاری نفری کی تعیناتی کے لئے درخواست رات ہی کو بجھوا دی تھی۔ رات گئے شہروں میں غم و غصہ مگر عروج پر تھا۔ ایک شخص کو راستے سے ہٹا کر انتقام سے بھرے کچھ دلوں کو ضرور قرار آئے گا۔ لیکن وہ فتنہ گر خیال جو ایک مٹھی بھر الیٹ اور ان کے راتب پر پلنے والوں کو چھوڑ کرکروڑوں پاکستانیوں کے د لوں میں اُتر چکا ہے، اب اُس کا کیا کرنا ہے؟ کیا دلوں میں بھری آگ بھپ سے کسی روز فضاء میں تحلیل ہو جائے گی؟مٹھی بھر اقلیت کب تک مسلط رکھی جا سکتی ہے؟یہ بندوبست کب تک چلے گا؟اندھیرا کب تک رہے گا؟خدا سے ہم مگر نا امید نہیں۔یہ درست ہے کہ میڈیا ’ہمیں‘ وہی بتا رہا ہے جودیواروں کے ساتھ لگے کان سننا چاہتے ہیں۔ چوٹی پر بیٹھے افراد کیا زمینی حقائق سے اس قدر بے خبر بھی ہو سکتے ہیں؟چوٹی پر تنہائی کا اندھیرا کیا ہمیشہ اتناہی گہرا ہوتاہے کہ کچھ سجائی نہ دے؟خدا سے ہمیں امید یہی ہے کہ اب جو بھی آئے گامرہم ایک ہاتھ میں تو جلتا ہوا ایک چراغ دوسرے ہاتھ میں لئے ہو گا۔اس قدر تنہا تو وہ ہر گزنہیں ہوگا۔