ڈیل کارنیگی ایسی کئی کتابوں کے مصنف ہیں جنہیں پڑھ کر مختلف ممالک میں کئی ’حوصلہ افزائی کرنے والے پیدا ہوئے ہیں۔ ’پریشان ہونا چھوڑیئے، جینا شروع کیجئے‘، ’لوگوں کو کیسے جیتیں اور متاثر کریں‘، ’گفت گو کا فن‘، ’متاثر کن گفت کا طریقہ‘، ’کامیابی کی بول چال‘ سمیت دیگر کئی کتابیں ڈیل کی تصانیف میں شامل ہیں، اگرچہ یہ کتابیں میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز کے طلبہ و طالبات کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ کتابیں کسی بھی شخص کو اچھا ’کمیونیکیٹر‘ بنانے کے لئے مفید ہیں۔ ان کتابوں کو پڑھ کر دنیا میں کئی نامور مقرر پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے لاکھوں انسانوں کی مایوس زندگی میں اْمید کی کرن جگائی ہے۔ زندگی جینا کم لوگوں کو آتا ہے، ایڈووکیٹ خالد محمود کہتے ہیں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ یا تو ہم ماضی میں جی رہے ہیں یا مستقبل میں جینے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، کوئی بندہ ’حال‘ میں جینا ہی نہیں چاہتا، ہمارا حال کئی مسائل سے گھِرا ہوا ہے۔ ہم روز مرہ کی زندگی سے تنگ آتے جارہے ہیں، ہمارے پاس اچھی گفت گو کے لئے مواد ہی نہیں۔ پچھلے دِنوں بانی چیئرمین پنجاب ہائرایجوکیشن کمیشن اورسابق وائس چانسلر یونیورسٹی آف گجرات پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین کی جانب سے واٹس ایپ پر مسیج موصول ہوا جسے پڑھ کر دلی خوشی ہوئی،، مسیج میں انہوں نے اقبال احمد کے متعلق ایک تفصیلی مضمون شیئر کیا، مضمون کا لبِ لباب کچھ یوں تھا کہ اقبال احمد بھارت میں پیدا ہوئے، زمین کے جھگڑے میں والدین قتل ہوگئے، تقسیم ہوئی تو 1947میں اپنے بھائی کے ہمراہ اقبال احمد بہار سے لاہور پہنچ گئے، ایف سی کالج میں داخلہ لیا، اکنامکس کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد کیلیفورنیا کے کالج میں داخلہ لیا، سیاست اور مڈل ایسٹ کی تاریخ پڑھنا شروع کردی، اسی دوران وہ ابنِ خلدون کی محبت میں گرفتار ہوئے اور خود کو مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ کی تاریخ کے لئے وقف کردیا، نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید اور ارون دھتی رائے جیسے دانشور اقبال احمد کی سوچ اور تاریخ سے محبت سے متاثر ہوئے اور انہیں اپنا دوست بنا لیا، زندگی کی سختیوں اور عالمی دانشوروں کی صحبت نے انہیں جنگ کا دشمن اور عالمی نظام ِ معیشت کا مخالف بنادیا، اقبال احمد اپنے لیکچرز میں کمیونزم کا پرچار کرنے لگے، کئی ممالک کا دورہ کیا، دور دراز سے لوگ اقبال احمد کا لیکچر سننے کے لئے آتے، یہ وہ دور تھا جب میاں محمد نواز شریف دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے تھے، اقبال احمد کی شہرت اْن تک پہنچ چکی تھی، اس لئے وہ اقبال احمد کو قائل کرکے پاکستان لے آئے اور انہیں ٹیکسٹائل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کا سربراہ تعینات کردیا، اقبال احمد کی خواہش پر میاں محمد نواز شریف نے بطور وزیراعظم انہیں اسلام آباد میں ایک خودمختار جامعہ قائم کرنے کے لئے زمین بھی الاٹ کردی، اقبال احمد ابن ِ خلدون سے محبت کے سبب پاکستان میں ’خلدونیہ یونیورسٹی‘ قائم کرنا چاہتے تھے، انہوں نے جامعہ کے قیام پر کام شروع کردیا مگر اس دوران وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے، دورانِ آپریشن 11مئی 1999کو انتقال کرگئے، اقبال احمد اس قدر توانا شخصیت تھے کہ اْن کے انتقال پر ہیمپشائر کالج سمیت دنیا بھر کے بڑے بڑے اداروں نے تعزیتی تقاریب منعقد کیں، ہیمپشائر کالج کی تقریب میں اْس وقت کے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان، ایڈورڈ سعید، نوم چومسکی، ارون دھتی رائے اور کئی نامور شخصیات شریک ہوئیں اور اقبال احمد کی ابن ِخلدون سمیت دیگر خدمات کا کھل کر اعتراف کیا۔ اقبال احمد چالیس سال امریکہ اور دیگر ممالک میں زندگی گزارنے کے بعد پاکستان آئے اور اسلام آباد کے ہوکر رہ گئے، ایک دن دورانِ گفت گو ایک دوست نے اْن سے پوچھا کہ آپ نے پوری دنیا گھومی خاص طور پر امریکہ، یورپ، مڈل ایسٹ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارنے کے بعد آپ کون سی چیز مس کرتے ہیں؟ اقبال احمد مسکراتے ہوئے بولے۔ ’اچھی گفت گو‘۔ کہنے لگے کہ دنیا میں تعلیم یافتہ لوگوں کے پاس گفت گو کرنے کے لئے بے شمار موضوعات ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں تعلیم یافتہ ہوں یا اَن پڑھ، ریڑھی بان ہوں، دفاتر میں بیٹھے باس ہوں، سب کے پاس سیاست اور سیکنڈلز کے علاوہ گفت گو کے لئے کوئی موضوع نہیں، آپ جس محفل میں بیٹھ جائیں، کوئی موضوع چھیڑ دیں، محفل چند منٹوں کے اندر سیاست اور سیاست دانوں کے سیکنڈلز میں تبدیل ہوجائے گی، لوگ گھنٹوں گفت گو کرتے رہیں گے، اس گفت گو کا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں لوگ آئیڈیاز پر بات کرتے ہیں لیکن پاکستان میں ہرجگہ، ہر محفل میں شخصیات آئیڈیاز کی جگہ لے لیتی ہیں، اس لئے میں پاکستان میں اچھی گفت گو کو مس کرتا ہوں۔ اقبال احمد کا یہ تبصرہ اگرچہ تقریباََ پچیس سال قبل کا ہے مگر آج کے پاکستانی حالات پر صادق آتا ہے، اقبال احمد سوشل میڈیا کی آمد سے قبل اس دنیا سے رخصت ہوگئے وگرنہ سوشل میڈیا کی موجودہ ہاہا کار، جھوٹی معلومات، پراپیگنڈہ اور طوفانِ بدتمیزی میں اْن کی طبعیت میں کڑواہٹ اور بڑھ جاتی۔ہمارا پورا ملک اس وقت غیر مصدقہ معلومات کے سیاسی سمندر کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے، جہاں بیٹھ جائیں، کسی محفل میں شریک ہوجائیں تو آپ کو سیاست اور مذہب پر بات کرتے ہوئے شرکاء ملیں گے اور اکثر اوقات یہ شرکاء اپنی گفت گو میں شخصیت پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں،سیاسی گفت گو میں دلیل کا عنصر ناپید ہوگیا ہے، جذبات غالب آگئے ہیں، ہر کوئی بولنا چاہتا ہے اور اندھا دھند بولنا چاہتا ہے۔ کوئی آئیڈیاز پہ بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ آئیڈیاز اور مصدقہ معلومات کے حصول کے لئے پڑھنا پڑتا ہے، دنیا جہان میں گھومنا پڑتا ہے، مشاہدہ کرنا پڑتا ہے، اچھے، تعلیم یافتہ اور ذی وقار لوگوں کی محفل میں چپ سادھے گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے۔ اچھی گفت گو کے لئے چپ سادھ کر دوسروں کا نقطہ ِ نظر سننا پڑتا ہے۔ اختلاف ِ رائے کو احترام دینا پڑتا ہے دوسروں کو تعظیم دے کر جو عزت کمائی جاتی ہے اْس کا کوئی ثانی نہیں، اپنی گفت گو میں اعتدال رکھیں، دوسروں کو بولنے کا موقع دیں، دوسروں کے کارناموں کو سنیں اور مناسب الفاظ کے چناؤ سے ان کی تعریف کریں، اْنہیں یقین دلائیں کہ جو لمحات آپ نے اْن کی صحبت میں بِتائے ہیں وہ آپ کی زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں، لوگوں کو اچھے ناموں سے پکاریں، یقین جانئے ہماری زندگی بدل جائے گی۔