گل خیال کو تو کھلنے کے لیے کوئی بہانہ چاہیے‘ اس کی مہک آپ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہ فطرت سے جڑے رہنے کا انعام بھی ہے۔ فطرت کی بو قلمونی اور رنگارنگی آنکھ کو ہٹنے نہیں دیتی۔ میر نے ایسے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ: آنکھ ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیج یقینا ہم میر تو نہیں‘ اس کارواں میں ضرور ہے اور قدرت کی پھیلائی ہوئی خوبصورتیاں ہمیں بھی کھینچتی ہیں۔ اچھا کلام ہمیں بھی متاثر کرتا ہے۔ پھول ہمارے اندر بھی کھلتے ہیں‘ سوچیں ہماری بھی محو پرواز رہتی ہیں اور شبنم ہماری آنکھوں پر بھی اترتی ہے۔ آمدم برسر مطلب۔ کل ایک شعر شہناز پروین سحر کا نظر نواز ہوا تو ذہن کے آنگن میں چڑیاں اترنے لگیں اور ان کی چہچہاہٹ ہر طرف پھیل گئی۔ شعر تھا: بہت بلند اڑانوں کی آرزو کب ہے ہمارے خواب تو چڑیوں کے پنکھ مانگتے ہیں اب میں نے اس شعر کی تشریح کی تو شعر تباہ و برباد ہو جائے گا۔ شعر کو صرف محسوس کرنا چاہیے۔ ایک بات تو دل کو گدگداتی ہے کہ چڑیا بے چاری کی بساط ہی کیا ہے مگر اس کے بغیر آنگن تو سونا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مجھے بیٹی جیسا عظیم اور پیارا رشتہ بھی یاد آیا۔ اس سے خوبصورت اور بلیغ استعارا اس کے لیے کوئی نہیں۔ تبھی تو فوک میں ہے کہ: اساں چڑیاں دا چنبہ وے بابلا! اساں اڈ جاناں ساڈی لمبی اڈاڑی وے اساں مڑ کے نئیں آناں اس خیال کے ساتھ کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر یہ سب کچھ ہماری خوبصورت ثقافت ہے۔ ویسے چڑیا چیز ایسی ہے کہ اسی سے آنگن کی بہار ہے‘ اسی کے باعث شجر بولتا ہے۔ ایک ننھی منی جان بالکل معصوم سی‘ دانا دنکا چگنے اترتی ہے‘ تھالی میں رکھا پانی یا نل سے ٹپکتا پانی اس کی پیاس بجھاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے پرندوں کی پہلی اور آخری علامت وہی ہے۔ باقی پرندے مستقل نہیں‘ یہ تو گھر کا فرد بن جاتی ہے۔ پروین شاکر کا لازوال شعر یاد آگیا: کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے مگر شجر کاٹنے والے بے ذوق اور بے حس لوگوں کو کون بتائے۔ مجید امجد بھی روتے رہے کہ بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار۔ کسی کو کیا پتہ کہ اشجار پر چڑیوں کے گھونسلے ہوتے ہیں۔ وہ سانپ سے تو اپنے انڈے بچا لیتی ہے مگر انسان سے نہیں۔ چڑیا بے چاری کہتی بھی کیا‘ کھاتی بھی کیا اور ستاتی بھی کیا ہے: ڈھیر غلے کا اگر ہے تو نہیں اس کے لیے چونچ میں آتے ہیں چڑیا کے فقط دانے دو ایک شعر فاطمہ حسن کا ذہن میں آگیا۔ کیا ہی اعلیٰ شعر ہے کہ اس میں چڑیاں خوبصورت علامت بن گئی ہیں: میں نے ان سب چڑیوں کے پر کاٹ دیئے جن کو اپنے اندر اڑتے دیکھا تھا ہائے ہائے کیسی مجبوری اور کیسی بے بسی ہے کہ معصوم خواہشات کا دم گھٹ کر مر جانا یا کم از کم ان کا ناآسودہ رہنا۔ معاشرے کی گھٹن اور اپنے سیٹ اپ کی بند گلیاں۔ کچھ بھی کہہ لیں۔ یہ چڑیا چوں چوں کرتی آپ کو متوجہ ضرور رکھتی ہے‘ آپ اسے نظر انداز نہیں کرسکتے۔ پھر کبھی کبھی شاعر کے لیے وہ نازک لمحہ بھی آتا ہے جہاں وہ بے زاری میں کہہ اٹھتا ہے: مجھ پہ طاری ہے خیال لب جاناں ایسے ایک چڑیا بھی جو بولے تو برا لگتا ہے جو بھی ہے یہ چڑیا ہماری زندگی کا حصہ ہے تبھی تو یہ محاوروں میں بھی ہے کہ بعض لوگ اڑتی چڑیا کے پر گنتے ہیں۔ وہ بعض جگہ تو یہ بے چاری پر بھی نہیں مار سکتی۔ وہ تو چپکے چپکے تنکا تنکا اپنا گھر بناتی رہتی ہے۔ بچے سے پہلا تعارف ہی چڑیا کا ہوتا ہے۔ اسے تو مسلمانی کے وقت بھی کہا جاتا ہے ’’دیکھو وہ چڑیا‘‘۔ بچہ اس جھوٹ کو ساری عمر نہیں بھولتا۔ چڑیا کے مقابلے پر چڑے کا ذکر بہت ہی کم سننے میں آیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس ننھے سے پرندے پر آپ کو احمد ندیم قاسمی کی لازوال نظم پڑھا دوں تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ اس کی عظمت کیا ہے: چوگا باجرے کا اک دانہ اپنی چونج میں رکھے چڑیا اماں چوگا دینے آئی ہے بچے اتنے ننھے منے سے ہیں جب وہ چیختے ہیں سر سے پنجوں تک چونچیں بن جاتے ہیں دانہ ایک اور بجے دس چڑیا اماں کس کو چوگا دے کس کس کی چونچ سے چونچ ملا کر ڈھارس دے ذرہ توڑ کے حشر بپا کرنا تو تم نے سیکھ لیا ذرہ توڑ کے زندگی برپا کرنا اس سے اونچا فن ہے کیا تم دانہ توڑ سکو گے؟ دانہ ایک اور بچے دس کیا خوبصورت بات کی کہ انسان نے ذرہ توڑ کے تباہی پھیلا دی۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایک عبرت کا نشان بنا دیا۔ چڑیا تو زندگی کی علامت ہے۔ بچوں کی ایک نظم بھی دلچسپ ہے: اک چڑیا کی شادی تھی کوا جس کا ماموں تھا کوئل جس کی دادی تھی اک چڑیا کی شادی تھی اور آخر میں وہ لافانی کہانی جو بچپن میں ہم نے سنی اور اب اپنے بچوں کو سناتے ہیں۔ ایک تھی چڑیا‘ ایک تھا چڑا۔ چڑیا لاتی چاول کا دانہ اور چڑا لایا دال کا دانہ۔ دونوں مل کر کیا کھچڑی پکائیں۔ چڑیا نے کہا پانی لے کر آئو‘ چڑیا نے کھچڑی پکائی اور خود ہی کھالی۔ چڑا نے آ کر کہا دروازہ کھولو۔ چڑیا نے کہا چل میری آنکھیں دکھتی ہیں۔ چڑا اڑ گیا تو وہاں ایک سانپ آ گیا اور چڑیا کو کھا گیا۔ سبق یہ ملا کہ مل جل کر رہنا چاہیے۔