نیوزی لینڈ میں دہشت گردوں کے ہاتھوں پچاس نمازیوں کی شہادت کا سوگ ساری دنیا میں منایا گیا۔ یہاں تک کہ پاکستان میں بھی اگرچہ یہاں سوگ کم، پی ایس ایل زیادہ منایا گیا۔ سٹیڈیم میں دسیوں ہزار تماشائی تھے اور تحریک انصاف کا رہنما نچ پنجابن نچ مجاجن قسم کے نغمے سنا رہا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ سٹیڈیم میں کسی کو شہدائے نیوزی لینڈ کی یاد نہیں آئی۔ ایک منٹ کا ’’سکوت غم‘‘ بھی کیا گیا۔ مرنے والے شہید تھے، انہیں دعا کی کیا ضرورت ایک منٹ کی خاموشی کافی تھی۔ ویسے بھی شہداء میں پاکستانی تھے ہی کتنے، محض نو۔ ان کے لیے ایک منٹ کافی تھا۔ ہاں، ترکی والوں کو شاید اس مسئلے کا علم نہیں تھا۔ عین اس وقت جب یہاں نچ پنجابن نچ مجاجن ہورہا تھا، وہاں ترکی کا صدر بہت بڑے جنازے کی امامت کرا رہا تھا جس روز سانحہ ہوا اس روز اور اس کے اگلے دو روز ایک بڑا ٹی وی چینل مسلسل ڈسکو دیوانے، کا گیت بجاتا رہا کہ نازیہ حسن کو خراج عقیدت پیش کرنا بہت ضروری تھا۔ ٭٭٭٭٭ ولنگٹن میں شہداء کے لواحقین اور مسلمانوں سے یکجہتی کرنے کے لیے بہت بڑا دعائیہ اجتماع ہوا جس میں دسیوں ہزار بلکہ ایک لاکھ سے کچھ ہی کم لوگوں نے شرکت کی۔ اتنے چھوٹے سے شہر میں اتنا بڑا اجتماع اپنی جگہ حیرت والی بات ہے لیکن اس بات کا ثبوت بھی کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن عوام نہیں، حکمران اور بالادست طبقے ہیں۔ ان میں کچھ نظریہ کے طورپر اسلام دشمن ہیں اور کچھ اپنے مفادات کے لیے۔ ہر جگہ یہ اشرافیہ قابض ہے جو اپنے سیاسی اور معاشی اقتدار اور مفادات کے لیے جنگیں کراتا ہے اور نفرت کا بزنس کرتا ہے۔ یہ اشرافیہ شروع دن سے خونریزی کا شغل کرتا آ رہا ہے، انسانی خون سے غسل سے ہی اس کی صحت اور شباب قائم ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ اور ان کے جنونی حامی بظاہر ’’مذہب پر لعنت‘‘ ہیں لیکن ان کی سب سے بڑی جنگ اپنے ہی ہم مذہب ہسپانوی نژاد لوگوں سے ہے۔ ٹرمپ کے حامی سفید فام ہیں جو ہسپانویوں کو خالص سفید فام نہیں سمجھتے۔ میکسیکو سے ان کی آمد روکنے کے لیے ٹرمپ حکومت ’’دیوار‘‘ کھڑی کر رہی ہے۔ آدھے سے زیادہ امریکہ اس دیوار کا مخالف ہے لیکن اس کی نہیں سنی جا رہی۔ جنونیوں کو خطرہ ہے کہ ہسپانویوں کی آمد نہ رکی تو سرحد کے ساتھ والی ریاستوں میں سفید فام اقلیت اور نیم سفید فام اکثریت بن جائیں گے۔ ہسپانوی نژاد باشندے صرف میکسیکو ہی سے نہیں آ رہے، وہ پورے وسطی امریکہ، ہنڈو راس سے لے کر پانامہ تک سے آ رہے ہیں۔ امریکہ نے جب عراق اور افغانستان پر حملے کئے تھے اور لاکھوں مسلمانوں کو مارنے کا سلسلہ شروع کیا تھا تو اس کے خلاف جتنے مظاہرے مسلمان ملکوں میں ہوئے، ان سے بڑے یورپ اور امریکہ میں ہوئے لیکن امریکہ اور اس کے مددگار برطانیہ نے اُن کی سنی نہ ان کی۔ دسیوں لاکھ کو ٹھنڈا کر کے ہی ٹھنڈے ہوئے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر خزانہ اسد عمر نے پہلے بیان دیا کہ بہت مہنگائی ہوگی، لوگ بہت چیخیں گے۔ چند روز کے بعد تبدیلی والا بیان جاری کیا۔ فرمایا، سخت دن تو ہوں گے لیکن لوگوں کی چیخیں نہیں نکلیں گی۔ چیخیں تو نکل رہی ہیں اور مزید نکلیں گی لیکن سنائی کسی کو نہیں دیں گی۔ اسد عمر کا پہلا بیان محض پالیسی کی یاددہانی تھی۔ پالیسی یعنی ظل الٰہی کا وعدہ، ان کا منشور کہ میں انہیں بہت رلائوں گا۔ میں ان کی چیخیں نکلوائوں گا اور دسرا بیان حکمت عملی کا اعلان تھا۔ یعنی ایسا بندوبست کرلیا ہے کہ چیخوں کی آواز گھٹ کر رہ جائے گی۔ ایوب خان کے دور میں ایک نیشنل پریس ٹرسٹ ہوا کرتا تھا یعنی پابند پریس، سرکاری اخبارات والا۔ اس دور میں الیکٹرانک میڈیا نہیں ہوتا تھا، صرف اخبارات تھے۔ پریس کا ایک حصہ غیر سرکاری تھا، بظاہر آزاد، دراصل سہما اور ڈرا ہوا، بہت محتاط، پھر بھی خبر چھپ جاتی تھی۔ چار کالم نہ سہی، سنگل کالم ہی سہی۔ پہلے صفحے پر نہ ہو، آخری یا اندر کے صفحات پر ہی سہی۔ پی ٹی آئی کے دور میں سارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اور نیشنل پریس ٹرسٹ بن گیا۔ ایک مثال دیکھئے۔ منڈی یزمان میں غریبوں کے اڑھائی سو گھر جلا کر پیوند زمین کردیئے گئے۔ غریبوں کی ہڈی پسلی ایک کردی گئی۔ کوئی ایک سطری خبر کسی اخبار میں؟ کوئی ایک سطری ٹکر کسی ٹی وی پر؟ بس 92 پر ایک پروگرام ہوا۔ تبدیلی سرکار کا یہ ’’ہلاکو خان‘‘ ایک وفاقی وزیر ہے، صادق بھی امین بھی کسی کی جرأت ہے خبر چھاپے، کسی میں ہمت ہے نوٹس لے۔ ٭٭٭٭٭ متحدہ کے رہنما فاروق ستار نے حیرت ظاہر کی ہے کہ عمرانی حکومت کو بنے سات ماہ ہو گئے، ابھی تک ایک پیسہ بھی باہر سے واپس نہ لاسکی۔ ان کا اشارہ ان لوٹی ہوئی رقوم بھاری رقوم کی طرف ہے جو عمرانی حکومت نے اپنے اقتدار کے پہلے ہی ماہ باہر سے واپس لانے تھے۔ 200 ارب ڈالر تو ایسے تھے جو پہلے ہی روز لانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ دبئی سے سینکڑوں ارب روپے الگ لانے تھے اور پھر وہ مشہور زمانہ تین ہزار کروڑ روپے جو نواشریف نے چوری کرلیے تھے۔ نوازشریف ہی کے ارب ہا ارب روپے کی ایک رقم اور تھی جو بھارت لے جائی گئی تھی اور جس کی کھوج کا وعدہ چیئرمین نیب نے کیا تھا۔ فاروق ستار کی حیرت میں دیگر اہل وطن بھی شریک ہیں لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ فی الحال تبدیلی سرکار قرضہ مانگنے کی مہم میں مصروف ہے۔ جسے وہ سفارتی کامیابیوں کی مہم قرار دیتی ہے۔ ایک تازہ سفارتی کامیابی آئی ایم ایف کے قرضے کی صورت میں ملنے والی ہے۔ ان فتوحات سے فراغت ہو جائے، پھر شاید اس دوران کوئی ثبوت وغیرہ بھی مل جائے۔ تب تک انتظار فرمائیے۔ ٭٭٭٭٭ سینٹ نے حکومت سے سعودی ولی عہد کی آمد پر کئے جانے والے اخراجات کی رپورٹ مانگ لی ہے۔ رپورٹ کی جزئیات تک تو چھپ چکی ہیں، پھر سے حاصل کرکے کیا کیجئے گا میاں۔ اور اخراجات تھے ہی کتنے۔ پنج ستارہ ہوٹلوں کے چند سو کمرے کرائے پر، چند سو پجارو، پراڈو، مرسیڈیز وغیرہ کرائے پر، خوان ہائے نعمت پر چند کروڑ، کچھ بگھیاں، شاہی سواریاں۔ اس ذرا سی رقم کے عوض ہمیں کتنے انمول کاغذی پھول ملے، یہ بھی تو سوچئے۔ انمول کاغذی پھولوں کو انگریزی میں ’’ایم او یوز‘‘ کہتے ہیں۔ ان کاغذی پھولوں کی رپورٹ نہیں منگوائیے کا صاحب؟