اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے 2 عہدوں کیخلاف درخواست خارج کردی ہے ۔درخواست گزار ریاض حنیف راہی نے سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کی تھی جس میں قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے چیئر مین کی حیثیت سے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی کو چیلنج کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ کوئی شخص بیک وقت 2آئینی عہدے نہیں رکھ سکتا۔منگل کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے قرار دیا کہ چیف جسٹس بلحاظ عہدہ قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے چیئر مین ہوتے ہیں، لہذایہ غیر آئینی نہیں ،نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی آرڈیننس عدلیہ کو مزید طاقتور بناتا ہے ، چیف جسٹس کو بطور چیئرمین جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کوئی مراعات بھی نہیں ملتیں۔قبل ازیں کیس کی سماعت ہوئی تو درخواست گزار ریاض راہی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ پالیسی بنانا عدلیہ نہیں ایگزیکٹو کا اختیار ہے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی پالیسی ساز کمیٹی میں اعلی عدلیہ کے ججز شامل ہوتے ہیں جو عدلیہ کی کارکردگی کا جائزہ لیکر فیصلے کر تے ہیں۔فاضل جج نے سوال اٹھایا کہ عدلیہ کی کارکردگی کے حوالے سے فیصلہ ایگزیکٹو کیسے کر سکتا ہے ؟ایسا کرنا عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے ۔درخواست گزار نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بطور آرمی چیف اور صدر مملکت پرویز مشرف کے 2عہدے غیر قانونی قرار دیئے تھے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا پرویز مشرف کیس کا اطلاق آپ کے مقدمہ پر کیسے ہو سکتا ہے ؟چیئر مین نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کا عہدہ چیف جسٹس کو قانون کے تحت ملا ، قانون کے مطابق کوئی عہدہ ملتا ہے تو مسئلہ نہیں۔فاضل جج نے مثال دی کہ صدر مملکت بھی پی سی بی کا پیٹرن ان چیف ہوتا ہے ۔ درخواست گزار نے کیس کسی اور بنچ میں منتقل کرنے کی استدعا کی توجسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سابق چیف جسٹس نے خود مقدمہ سننے سے معذرت کی تھی ۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا سابق چیف جسٹس کے موقف سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ عدالت نے استدعا مسترد کرکے مقدمہ خارج کردیا ۔