’’برطانیہ ‘‘میں اولیورکرامویل نامی ایک فوجی ڈکٹیٹر نے بزور اقتدار قبضہ کرلیا تھااور پارلیمنٹ کے خلاف انتہائی تضحیک آمیز زبان استعمال کی تھی۔کچھ عرصے بعد جب وہ اقتدار میں نہ رہا اور پارلیمنٹ بحال ہوگئی تو پارلیمنٹ نے اس کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔جب مقدمہ شروع ہوا تو پتہ چلا کہ وہ مرچکا ہے۔سوال اٹھا ’’کیا مرے ہوئے شخص کے خلاف ٹرائل ہوسکتا ہے؟ ‘‘ جس پر فیصلہ کیا گیا کہ ملزم کا ڈھانچہ عدالت میں پیش کیا جائے۔سوال پیدا ہوا کہ ایک ڈھانچے سے یہ کیسے پوچھا جائے کہ جرم قبول کرتا ہے یا نہیں۔جس پر کرامویل کی لاش کا ڈھانچہ لا کر اس سے سوال کئے گئے اور طے یہ پایا کہ چونکہ ڈھانچہ سوالوں کا جواب نہیں دے پایا ہے۔اس لئے اس کی خاموشی کو صحت ِ جرم سے انکار سمجھا جائے گا۔اور ٹرائل کے اختتا م پر اس ڈکٹیٹر کے ڈھانچے کو پھانسی پہ لٹکایا گیا۔برطانوی فوجی ڈکٹیٹر اولیور کرامویل کے حوالے سے ہمارے محترم چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب نے یہ ریمارکس 26مارچ کو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کیس میں دئیے۔یقینا یہ آبزرویشن عالمی اورملکی تاریخ پردانشوارانہ رائے رکھنے والا جج ہی دے سکتا ہے۔مگر بصد احترام محترم چیف جسٹس صاحب نے یہ ریمارکس دے کر پاکستانی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا المناک پنڈورا بکس کھولا ہے کہ اول تو اسے پڑھنے کے لئے ہمارے سیاستدانوں ،جنرلوں اور ججوں کے پاس وقت نہیں۔اور اگر ان میں سے چند نے ان کا مطالعہ کیا بھی ہو اور یقینا کیا بھی ہوگا۔۔۔ تو وہ اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور پھر شاید ہی نہیں ،یقینا اس ہی سبب قیام پاکستان کے بعد ہی سے ہمارے فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں جمہوری اور پارلیمانی حکومتوں کو توڑنے اور پھر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی اس پر مہر ثبت کرنے کی تاریخ دہرائی جاتی رہی ہے۔سو بصد احترام محترم چیف جسٹس کھوسہ صاحب اگر واقعی سابق جنرل پرویز مشرف کو ان کے غیر آئینی جرائم پر ملک کی سب سے بڑی عدالت کے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے زندہ یا مردہ سزا دیناچاہتے ہی ہیں تو اس سیاہ باب کو ختم کرنے کے لئے اس کا آغاز … قیام ِ پاکستان کے محض سات سال بعد سن 1954میں پہلی دستور ساز اسمبلی کو توڑنے سے کیوں نہ کیا جائے۔کہ اُس کے تیس برس بعد جا کے کہیں سن1973میں ایک پارلیمنٹ آئین بنانے میں کامیاب ہو سکی تھی۔خود 73ء کے آئین کے خالق اور بعد کے سویلین ملٹری رہنماؤں نے اس آئین کی کس طرح دھجیاں بکھیریں ۔اس کا ذکر ذرا بعد میں آئے گا۔یہ بات بھی یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ایک معذور گورنر غلام محمد کے ہاتھوں جب پہلی دستور ساز اسمبلی کو توڑا گیا اور اس پر چیف جسٹس محمد منیر نے مہر ثبت کی تو عملاً اس وقت تک اقتدار جنرل اسکندر مرزا،جنرل محمد ایوب خان کے ہاتھوں آچکا تھا۔میجر جنرل شیر علی خان پٹودی نے اپنی کتابPolitics of Soldier and Soldieringمیں لکھا ہے کہ پاکستان کے پہلے انگریزآرمی چیف جنرل گریسی نے جاتے جاتے اُس وقت کے ڈپٹی کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان کو یہ سبق پڑھا دیا تھاکہ موجودہ حالات میں فوج کے کمانڈر ان چیف کو وزیر اعظم سے زیادہ بڑا کردار ادا کرنا ہوگا۔جو اس وقت اُس کے لئے آئین میں متعین ہے۔مرحوم جج جسٹس (ر)محمد منیر کو تو معاف کردیتے ہیں۔کہ ایک تو وہ بڑے پائے کے قانون داں تھے۔اور بہرحال دستور ساز اسمبلی توڑے جانے کے بعد انہوں نے جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے کی بھی اجاز ت نہیں دی۔بد قسمتی سے بانی ِ پاکستان کے ’’کھوٹے لیگی اور غیر مسلم لیگی وزرائے اعظم‘‘ تھے جن کے میوزیکل چیئر کے سبب فوجی جنرلوں کو مارشل لاء لانے میں کوئی بہت زیادہ مشکل پیش نہیں آئی ۔اس سے بھی بڑی بد قسمتی یہ کہ عوام کا سیاسی رہنماؤںپر اعتماد اس حد تک اٹھ چکا تھا کہ پہلے فوجی مارشل لاء پر عوام نے تالیاں بجا کر استقبال کیا۔حتیٰ کہ بانی ِ پاکستان قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے بھی ملک میں نافذ اس پہلے مارشل لاء کا خیر مقدم کیا۔قانون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اندھا ہوتا ہے۔ دونوں پلڑوں میں سے کسی ایک میں وزن ڈالنے کے لئے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ مجرم کو ن اور کتنا بڑا ہے۔آج جب آپ کو ڈیڑھ سو سال پہلے کے برطانوی فوجی ڈکٹیٹر جنرل کرامویل یاد آئے اور جنکا ٹرایل کرکے پھانسی پر چڑھایا گیا اور جن کا مجسمہ برطانوی پارلیمنٹ کے دروازے کے سامنے عبرت کا نشان بنانے کے لئے لگا ہے تو مناسب نہ ہوگا کہ آپ اعلیٰ عدالت کی سب سے بڑی کرسی پہ بیٹھ کر اس کا آغاز اپنے وطن میں آئین کی بساط لپیٹ کر پہلے فوجی مارشل لاء لگانے والے جنرل محمد ایوب خان سے کریں۔اپنی کم علمی تسلیم کرلیتا ہوں۔کہ جس وقت جنرل کرامویل کی لاش کو نکالا گیا،اور ان کے ڈھانچے کو پھانسی دی گئی ،تو اُن کا کوئی وارث زندہ بھی تھا یا نہیںمگر ہمارے مرحوم جنرل ایوب خان کے بیٹے اور پوتے بھی ماشاء اللہ زندہ،سلامت ہیں۔بلکہ اِن میں سے ایک محترم گوہر ایوب خان تو پارلیمنٹ کا اسپیکر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کرچکے ہیں۔اُن کے پوتے عمر ایوب خان اس وقت ہمارے صاف و شفاف وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ میں ایک اہم وزارت کے منصب پر قائم ہیں۔ ذرا تصور میں لانا چاہتا ہوں کہ جس زمانے میں محترم گوہر ایوب خان اسپیکر کے عہدے پہ فائز تھے۔ اگر اس وقت آپ جیسے پائے کا چیف جسٹس فوج کے غیر آئینی اور غیر قانونی جرائم پر مبنی کیس کو سنتے ہوئے وہ فیصلہ صادر فرما دیتا جس کا ذکر آپ نے مشرف کیس کی سماعت کے دوران 26مارچ کو دیا ہے۔ (جاری)