جناب چیف جسٹس کا فرمان سر آنکھوں پر ‘مگر آبادی پر حقیقی کنٹرول تب ہو گا جب ہر شہری تعلیم یافتہ ہو گا اور ملک میں ہر طرف خوش حالی کا دور دورہ ہو گا۔ بہرحال جناب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی شدت احساس انتہائی قابل قدر ہے‘ وہ ہمارے بنیادی مسائل کو نہ صرف اجاگر کر رہے ہیں بلکہ ان کے حل کے لئے عملی اقدامات بھی کر رہے ہیں۔ اول تو ہمیں ان سے کوئی بنیادی اختلاف بھی نہیں اور اگر ہو بھی تو معاملہ عدالت عظمیٰ کا ہے جس کے بارے میں ہی شاید میر تقی میر نے کہا تھا کہ ؎ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا جناب چیف جسٹس نوجوانوں کو وہی نصیحت فرما رہے ہیں جو دو تین برس قبل یونیورسٹی آف سرگودھا میں ہزاروں نوجوان طلبہ و طالبات کے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کی تھی کہ؎ بچے دو ہی اچھے 1951ء میں متحدہ پاکستان میں جو مردم شماری ہوئی تھی اس کے مطابق مشرقی پاکستان کی آبادی تقریباً 4کروڑ اور مغربی پاکستان کی آبادی ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ آج کا موجودہ پاکستان وہ ہے جو کبھی مغربی پاکستان تھا۔آج اس وقت کے مغربی پاکستان کی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے بڑھ کر 20کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ اس وقت کے مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کی آبادی4کروڑ سے بڑھ کر تقریباً ساڑھے سولہ سترہ کروڑ کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ یوں 68برس میں مجموعی آبادی ساڑھے سات کروڑ سے بڑھ کر 37کروڑ ہو چکی ہے‘ گویا پانچ گنا زیادہ۔ یہاں ایک بات قابل غور ضرور ہے کہ بنگلہ دیش کے جہاں شرح افزائش آبادی مغربی پاکستان سے کہیں زیادہ تھی مگر انہوں نے علمائے کرام کے شعبہ صحت اور سماجی تنظیموں کی مدد سے آبادی کو بہتر کنٹرول کیا جبکہ ہم آبادی کے لحاظ سے بنگلہ دیش سے بہت آگے نکل گئے اگرچہ موجودہ پاکستان میں شرح آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی ادارے موجود ہیں مگر ان کی کارکردگی کچھ زیادہ موثر نہیں۔ ہمارے ہاں ایک طویل عرصے تک یہ خیال عام تھا کہ بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ یا عرب ملکوں میں رائج اصطلاح تنظیم اُسرہ جسے ہم نے خاندانی منصوبہ بندی کا نام دیا تھا۔ خلافِ اسلام ہے۔ دراصل جید علمائے کرام سے رہنمائی حاصل کئے بغیر ایک فوجی حکمران ایوب خان نے آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کا شعبہ قائم کیا جس کی علماء کرام نے شدید مخالفت کی‘ حتیٰ کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جیسے وسیع المطالعہ اور روحِ عصر سے مکمل آشنائی رکھنے والے ممتاز عالم دین اور جماعت اسلامی جیسی منظم سیاسی جماعت کے بانی امیر نے بھی خاندانی منصوبہ بندی کی مخالفت کی اور اس کے بارے میں ایک مکمل کتاب بھی تحریر فرمائی۔البتہ اب گزشتہ چند سالوں کے دوران الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بعض جید علمائے کرام نے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ربانی احکامات کے تحت ماں کے لیے حکم ہے کہ وہ اس دنیا میں آنے والے بچے کو دو اڑھائی برس تک اپنا دودھ پلائے۔ اس دوران کسی مزید بچے کے آنے سے دونوں بچوں کی حق تلفی ہو گی۔ اس طرح دو بچوں کے دوران تقریباً ساڑھے تین چار سال کا قدرتی وقفہ واقع ہو جاتا ہے۔ چین میں آبادی کو جنگی بنیادوں پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی اور 1979ء میں ون چائلڈ پالیسی اختیار کی گئی جس سے مراد یہ تھی کہ ایک خاندان کو صرف ایک بچے کے والدین بننے کی اجازت ہے‘ اس سے زیادہ نہیں۔ بعدازاں دیہاتی علاقوں میں دو بچوں تک کی اجازت دی گئی۔ جناب چیف جسٹس نے اس سلسلے میں شعور و آگہی پیدا کرنے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ وہ قابل ستائش ہے۔ وہ اس سلسلے میں ماہرین آبادی کی کانفرنس بلانے اور سیمینار منعقد کرنے کا پروگرام رکھتے ہیں۔تاہم ہماری گزارش یہ ہو گی کہ یقینا اس معاملے میں عوامی شعور و آگاہی سے بہت فائدہ ہو گا مگر تعلیم اور خوش حالی دو بنیادی اہمیت کی ضروریات ہیں ‘ان ضرورتوں کی تکمیل سے تبدیلی کے بہت سے پروگرام از خود عوام کی سمجھ میں آنے لگیں گے۔ آسٹریلیا میں آبادی بہت کم اور رقبہ بہت زیادہ ہے اس لیے آج بھی آسٹریلیا کو اپنا روز مرہ کاکام چلانے کے لیے امیگریشن دے کر دوست ممالک سے ہنر مند لوگوں کو بلانا پڑتا ہے اور انہیں قومیت بھی دے دی جاتی ہے۔ پاکستان میں کئی کئی مسائل یکجا ہو گئے ہیں۔ بے چاری غریب حاملہ مائوں کو اپنے لیے مناسب غذا ملتی ہے اور نہ ہی نومولود بچوں کے لیے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ زچہ اور بچہ دونوں ہی شدید خطرے کی زد میں ہوتے ہیں اندرون سندھ اور دیہی پنجاب میں نومولود بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے۔ چند چینی اسکالرز سے مسئلہ افزائش آبادی پر گفتگو کا موقع ملا ہم نے اپنی روایتی دلیل پیش کی کہ ہر بچہ اگر ایک منہ اور دو ہاتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ایک چینی اسکالر نے جواب دیا آپ درست کہتے ہیں مگر بچہ منہ کا تو فی الفور استعمال شروع کر دیتا ہے یعنی وہ پہلے روز سے ہی دودھ پیتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ دودھ کے علاوہ دیگر غذا بھی کھانے لگتا ہے جبکہ اس کے ہاتھوں کی کمائی تو جلد سے جلد بھی بارہ پندرہ برس کے بعد آتی ہے۔اس دوران والدین کو ہی اس کی مناسب خوراک و لباس کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ حکومت بھی بار بار غریبوں کو اوپر اٹھانے اور انہیں ترقی و خوش حالی کی دوڑ میں شامل کرنے کا تذکرہ تو کرتی رہتی ہے مگر اس سلسلے میں غریب لوگوں سے بات کریں تو ان کی اپنی منطق ہوتی ہے ان کا کہنا یہ ہے کہ ہمارے بچے ہماری لیبر فورس ہے۔ ان کے رہائشی علاقوں کے قریب سرکاری سکول تو موجود ہوتے ہیں مگر یہ والدین اپنی لیبر فورس گھٹانے اور بچوں کو انہیں تعلیم گاہوں میں بھیجنے کی بجائے انہیں گھروں‘ ورکشاپوں اور چائے خانے میں کام پرلگانے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے۔ ہمارا ایک گھریلو ملازم ہے اس کے کوئی سات آٹھ بہن بھائی ہیں مگر پڑھا لکھا ایک بچہ بھی نہیں۔ نہ صرف ان کے پاس سکول کی تعلیم نہیں بلکہ قرآنی قائدہ تک پڑھے ہوئے نہیں۔ ہمیں دیگر ترقی پذیر ممالک کی مثالوں سے استفادہ کرنا چاہیے‘ جنہوں نے برتھ کنٹرول اور بچوں کی پیدائش کے دوران مناسب وقفے کو کامیابی کے ساتھ اختیار کیا۔ بنگلہ دیش کے اس میدان میں تجربات سے بہت استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ وہاں لوگوں کی شعور آگہی کے لیے بہت موثر پروگرام اپنائے گئے ہیں۔ علمائے کرام کی بہت بڑی تعداد اس آگہی مہم میں حکومت کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز بہت بڑی تعداد میں شہروں اور دیہاتوں میں گھر گھر جاتی ہیں اور خواتین کو اس پروگرام کی اہمیت اور اس کے لیے جو جدید ترین طریقے ہیں ان کے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہونے کی یقین دہانی کراتی ہیں ۔ بنگلہ دیش کی آبادی میں خاطر خواہ کمی اسی موثر مہم کی بناء پر ہے۔ وہاں علمائے کرام کا رویہ معاندانہ نہیں مشفقانہ ہے۔ وہ نہ صرف پیدائش میں وقفوں کو یقینی بنانے کے لیے ادویات وغیرہ کے استعمال کو جائز قرار دیتے ہیں بلکہ قرآنی استبباط کے ساتھ وقفے کی زچہ بچہ کے لیے اہمیت کو بھی واضح کرتے ہیں۔ جناب چیف جسٹس ہرچہ بادا باد کے فلسفے پر کاربند ہیں ‘آبادی کنٹرول کے لیے ضرور لانگ مارچ کریں۔ ہماری درخواست ہو گی کہ اس حساس مسئلے پر وہ پہلے علماء کرام کو قائل کریں اور پھر علمائے کرام اساتذہ کرام اور سماجی و طبی تنظیموں کو اپنے پروگرام میںشامل کریں اور انہیں اعتماد میں لیں۔ خاص طور پر اگر معلمین و معلمات کو مناسب تعلیم و تربیت دی جائے تو بہت بڑی کامیابی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔