معزز قارئین! پرسوں ( 4 جولائی کو) الیکٹرانک میڈیا پر اور کل (5 جولائی کو) بہت سی اہم خبریں ٹیلی کاسٹ اور شائع ہُوئیں لیکن قومی احتساب بیورو(نیب)کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال اور لندن میں مقیم سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے بیانات بہت ہی اہم تھے۔ مجھے تو صدر ممنون حسین ، نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر اُلملک اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی موجودگی میں چیئرمین نیب "First Gentleman of Pakistan" کی حیثیت سے دکھائی دئیے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ، اِس مرتبے کے کسی افسر نے مختلف کرپشن کے مقدمات میںملوث سیاستدانوں کو مثالی ؔ"Relief" (تکلیف ، مصیبت، پریشانی سے نجات، مخلصی ) دِیا ہے۔ 

4 جولائی کو چیئرمین نیب نے اسلام آباد میںنیب کے "Executive Board" کی صدارت میں اہم فیصلے کئے۔ بعد ازاں نیب کے اعلامیہ میں بتایا گیا کہ ’’ 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات سے قبل کرپشن میں ملوث اور نیب کی عدالت میں ملزموں کی حیثیت سے پیش ہونے والے یا مطلوب انتخابی امیدواروں کو ، گرفتار نہیں کیا جائے گا ‘‘۔ اِس فیصلے سے فی الحال مسلم لیگ (ن) کے سابق وزراء خواجہ محمد آصف ، رانا محمد افضل، رانا مشہود، رائے منصب علی وغیرہ کو فوری "Relief" مِل گیا ہے ۔ اعلامیہ کے مطابق ’’ اِن ملزمان کے مقدمات کے خلاف مزید تحقیقات انتخابات کے بعد ہوں گی۔ دراصل چیئرمین نیب چاہتے ہیںکہ کسی کے خلاف بھی انتقامی کارروائی نہ کی جائے! ‘‘ ۔ 

معزز قارئین! نیب کے پرانے اعلان کے مطابق آج (6 جولائی کو ) اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر صاحب کو ملزمان میاں نواز شریف، اُن کی بیٹی مریم ، داماد کیپٹن(ر) محمد صفدر دونوں بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز کے خلاف مقدمے کا فیصلہ سُنانا ہے۔ اِس مقدمے میں صِرف مریم نوا ز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر ہی انتخابی امیدوار ہیں ۔ میاں نواز شریف لندن میں ہیں ۔مفرور حسین نواز‘حسن نواز اور اسحاق ڈار انتخابی امیدوار نہیں ہیں ۔ پرسوں (4 جولائی کو) پاکستان کے سابق "First Gentleman" میاں نواز شریف نے بھی لندن میں میڈیا سے خطاب کرتے ہُوئے قومی احتساب بیورو سے درخواست کی ہے کہ ’’ ہمارے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ چند دِن کے لئے مؤخر کردِیا جائے ۔اِس سے انصاف کے تقاضے مجروح نہیں ہوں گے۔ مَیں وطن واپس ضرور جائوں گا اور عدالت میں کھڑا ہو کر فیصلہ سننا چاہتا ہُوں! ‘‘۔ 

کیا سادہ اور معصومانہ سی خواہش ہے ؟۔ اِس طرح کی صورت حال میں مرزا غالب ؔنے اپنے بارے میں کہا تھا کہ …

کچھ تو کہیے کہ ، لوگ کہتے ہیں !

آج غالبؔ ، غزل سرا ، نہ ہُوا!

معزز قارئین!۔ 28 جولائی 2017ء کو ، سپریم کور ٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں ، جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان نے متفقہ طور پر وزیراعظم نواز شریف کو آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت صادق ؔاور امین ؔنہ ہونے پر تاحیات نااہل قرار دے دِیا اور "N.A.B" کو میاں نواز شریف ، مریم نواز ، حسین نواز، حسن نواز ، کیپٹن (ر) محمد صفدر اور اسحاق ڈار کے خلاف 6 ہفتے میں ریفرنس دائر کرنے اور عدالت کو 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکم دِیا تھا۔ اِس پر 30 جولائی 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’سلام! ’’ عدالتی انقلاب‘‘۔ تو شروع ہوگیا؟‘‘۔

مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ ہمارے پیارے پاکستان میں ججوں کی حکومت تو نہیں لیکن، بڑی آہستگی سے ’’Judicial Revolution ‘‘ (عدالتی انقلاب ) شروع ہوگیا ہے۔کیوں نہ ہم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور پنج تن پاک ؑکا بھی ، جن کی شفقت سے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچ جج صاحبان ’’عدالتی انقلاب ‘‘ کے بانِیانِ بن گئے ہیں۔ یقین کیا جانا چاہیے کہ اب ’’عدالتی انقلاب ‘‘ جاری رہے گا ۔ پاکستان میں قومی دولت لوٹنے والا صِرف شریف خاندان ہی نہیں بلکہ آصف زرداری اور اُس قبیل کے اور بھی کئی گروپ ہیں۔ اب عدالتی انقلاب کا ’’Law Roller‘‘ تیز رفتاری سے چلے گا۔ اِنشاء اللہ۔ 

افسوس تو یہ کہ نیب نے 6 ماہ کے بجائے نواز شریف فیملی کے خلاف مقدمات کا فیصلہ کرنے میں 9 ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا دِیا جب کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور سپریم کورٹ اور پاکستان کی تمام ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور تمام جج صاحبان پاکستان کے مفلوک اُلحال عوام کی بھلائی کیلئے "Judicial Revolution" جاری رکھے ہُوئے ہیں لیکن، چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کرپشن کے مقدمات میں ملوث ، مطلوب اور کبھی پیش اور کبھی پیش نہ ہونے والے امیدواران قومی و صوبائی اسمبلی کو کھلی چھوٹ دینے کا کیا مطلب ؟۔ 1970ء کے عام انتخابات کے بعد مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کو بھاری مینڈیٹ مِلا۔ پارٹی کے اہم رہنما ملک غلام مصطفی کھر ، تھانہ ٹبی لاہور کی حدود میں ایک کوٹھے پر مُجرا سُنتے اور غُل غپاڑہ کرتے پکڑے گئے۔ پیپلزپارٹی لاہور  کے  اہم رہنما افتخار احمد تاری ، ملک صاحب کو ضمانت دے کر چُھڑا  لائے تھے ۔ 

کچھ دِن بعد سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان ،ذوالفقار علی بھٹو نے ملک غلام مصطفی کھر کو پنجاب کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور گورنر پنجاب بنا دِیا۔ پھر تھانہ ٹبی لاہور نے ایس۔ ایس ۔ پی  لاہور کو اور ایس۔ ایس۔ پی لاہور نے انسپکٹر جنرل آف پولیس کو رپورٹ بھجوائی کہ ’’ چونکہ ملزم ملک غلام مصطفی کھر ۔ گورنر پنجاب بن چکا ہے لہٰذا اُن کے خلاف مقدمہ خارج کردِیا جائے !‘‘ ۔ چیئرمین نیب نے مختلف مقدمات میں ملوث جن انتخابی امیدواروں کو 25 جولائی تک "Relief" دِیا ہے ، اگر اُن میں سے کوئی منتخب ہو کر وزیر داخلہ یا گورنر پنجاب بن گیا تو، پھر آپ کی تو ’’موجاں اِی موجاں ؟ ‘‘ ۔ چیئرمین نیب کو ’’ لا ریب ۔ چیئرمین نیب ۔ بے عیب !‘‘۔ کا تمغہ بھی مل سکتا ہے ؟۔ 

معزز قارئین!۔ مَیں سوچ رہا ہُوں کہ ’’ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی قیادت میں سپریم کورٹ کے پانچ سینئر جج صاحبان نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے کر اور مریم نواز ، حسین نواز، حسن نواز ، کیپٹن (ر) محمد صفدر اور اسحاق ڈار کے خلاف 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کے حکم کے بعد پاکستان میں جس "Judicial Revolution" کا آغاز ہُوا تھا ، کہیں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اُس پر "Counter Revolution" (ردّ انقلاب) کا آغاز تو نہیں کردِیا ہے ؟۔ اب مجھے یقین ہوگیا کہ ’’ پاکستان اور پاکستان کے عدالتی نظام کے بارے میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ’’ وَکھری ، وَکھری سوچ ‘‘ ہے ۔ اہلِ زبان (اُستاد شعراء نے ) ہندی کے لفظ سوچ ؔکو ۔مذکرؔ باندھا ہے ۔حضرت امیر میناؔئی کا ایک شعر ہے کہ …

ذکر ِ حشر آتا ہے قاتل ؔ، تو یہ ، سوچ ؔآتا ہے !

ہائے اُس روز ، تجھے کیسی ندامت ہوگی؟

سوچ ؔ ۔ کے معنی ہیں ’’فکر ، خیال ، بیان، توجہ، اندیشہ اور تردد ‘‘وغیرہ ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اِسی سوچ ؔ میں ڈوب کر پاکستان کے مسائل زدہ عوام کی بھلائی کے لئے "Suo Motu Notices" کے ذریعے مقدمات کے فیصلے کرتے ہُوئے ’’عدالتی انقلاب ‘‘ کو آگے بڑھا رہے ہیں لیکن، چیئرمین نیب کی طرف سے کرپشن کے مقدمات میں ملوث ’’قارون صِفت ‘‘ سیاستدانوں کو کُھلی چھوٹ ؟ ۔ کرلو جو کرنا ہے ؟ ۔مَیں کبھی کبھی اپنے کالموں میں اپنی مادری زبان پنجابی کے الفاظ اور تراکیب استعمال کرتا ہُوں۔ مَیں چیف جسٹس صاحب اور چیئرمین نیب کی سوچ کو الگ اؔلگ ، جُدؔا جُدا اور جُداؔگانہ بھی لِکھ سکتا تھا ۔ مَیں سرگودھوی ہُوں اور لاہوری بھی ۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال سرگودھوی ہیں اور میاں ثاقب نثار لاہوری ۔ اِس لئے مجھے اُن کی سوچ ؔکو وَکھری ؔوَکھری ؔلِکھ کر بہت مزا آیا۔