چین اپنا یار اس پہ جاں نثار ہے پر وہاں ہے جو نظام اُس طرف نہ جائیو اُس کو دور سے سلام شاعرِ عوام حبیب جالب نے کوئی چھ دہائی قبل جب یہ اشعار کہے تھے تو اس وقت اشتراکی چین کا سُرخ پھریرا ساری دنیا میں لہرا رہا تھا۔آج اشتراکی چین کے بانی ماؤزے تنگ اور اُن کا نظریہ ایک یوآن کے نوٹ پر رہ گیا ہے۔چینی انقلاب کی ہنگامہ خیز تاریخ اشتراکیت کے عروج اور پھر آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے ملک کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کے بعد 80ء کی دہائی میں ایک نئے جدید چین کی تاریخ پر گفتگو تو آگے چل کر ہوگی۔۔۔ اکتیس سال بعد اکتوبر کے خوشگوار خنک موسم میں جو بیجنگ آنا ہوا۔۔۔پورے پانچ دن ایک حیرت کدے میں گزرے۔سن 1987ئمیں ہماری صحافتی زندگی کا ابھی آغا ز ہی تھا۔ کراچی پریس کلب میں سنا کہ تھرڈ ورلڈ فاؤنڈیشن کے ہمایوں گوہر جن کے والد ممتاز بیوروکریٹ الطاف گوہر کا ایوبی دور میں ڈنکا بجتا تھا،بیجنگ میں ہونے والی تھرڈ ورلڈ ایڈورٹائزنگ اینڈ مارکیٹنگ کانفرنس میں صحافیوں کی ایک کھیپ لے گئے۔اس کانفرنس کا اہتمامBCCIفیم آغا حسن عابدی نے کیا تھا۔ ہم میں سے کوئی ایسے اہم صحافی تو نہ تھے جسے تھرڈ ورلڈ والے اپنے خرچے پر لے جاتے۔ سو مانگے تانگے سے پی آئی اے کا کرایہ اکٹھا کیا۔ہمارے صحافتی استاد عبد الحمید چھاپرابیجنگ میں موجود ممتازصحافی احفاظ الرحمان کو اطلاع کر چکے تھے کہ انہیں ہمارے قیام و طعام کا بوجھ اٹھانا ہے۔تین دہائی قبل چین میں اس عظیم الشان کانفرنس میں گزرے دس دنوں کی یادیں اور باتیں زور ڈالنے کے باوجود تازہ نہیں ہو پارہیں۔اور پھر تین دہائی قبل کا چین ایک بڑے انقلابی بحران سے گزر کرآج جہاں کھڑا ہے،اُس میں یوں بھی اُن تاریخی دنوں کو یاد کرنا الفاظ چبانے کے مترادف ہوگا۔مگر چین میں اپنی نوعیت کی اس پہلی کانفرنس کا انعقاد کرنے والی عظیم المرتبت شخصیت آغا حسن عابدی کے وژن کو جتنی بھی داد دی جائے،کم ہے۔کہ دہائیوں قبل آغا صاحب کی فکرو نظر اُس چین تک پہنچ گئی تھی جسے بعد کے برسوں میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننا تھا۔افسوس آج پاک چین دوستی کو ہمالیہ سے اوپر پہنچانے والے اور سی پیک کا تاریخی کارنامہ اپنے سر لینے والے آغا صاحب کا کام تو چھوڑیں،اُن کے نام سے بھی واقف نہ ہونگے۔آغا حسن عابدی نے سن1982ء میں بیجنگ میں BCCIکا دفتر قائم کردیا تھا۔اور اس وقت کے سنٹرل بینک آف چائنا کے 200اہل کاروں کو لندن لے گئے تاکہ وہ انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ بینکاری اور معیشت کے جدید امور سے آگہی حاصل کرسکیں۔آغا صاحب کا ذکرآیا تو اُن کا ذکر سرسری طور پر کس طرح ہوسکتا تھا۔بھٹو صاحب کے بعد آغا صاحب ہی کا دوسرا نام ہے جنہوں نے پا ک چین دوستی کی لازوال بنیاد رکھی۔بد قسمتی سے امریکنوں کی سازش اور مغرب کے تعصبات کے سبب BCCIکو جس طرح روندھا گیا وہ اپنی جگہ ایک المیہ ہے۔آغا صاحب کا 1995ئمیں کراچی میں انتقال ہوا۔آج صنعت ِ بینکاری کے بیشتر صف اول کے بینکرز کی پہلی نرسری BCCIہی تھی۔یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ چین میں ہمارے پاکستانی میزبان ڈاکٹر ظفر الدین محمود کی ابتدائی تربیت آغاحسن عابدی کے ہاتھوں ہوئی ۔اور زندگی کے آخری دنوں تک آغاصاحب کی خبر گیری کرتے رہے۔ڈاکٹر ظفر محمود سے ہمارا تعارف منفرد لہجے کے شاعر اور پنجاب حکومت کی انفارمیشن منسٹری میں ایک طویل عرصہ گزارنے والے شعیب بن عزیز کے واسطے سے ہوا۔اسلام آباد سے بیجنگ روانگی تک علم نہ تھا کہ ہمارے ہم سفروں کی تعداد کتنی ہے۔اور کن کن جغادریوں کے ساتھ اگلے پانچ دن گزریں گے۔لان میں داخل ہوتے ہی جس قہقہے نے اپنی جانب کھینچا وہ ہمارے محترم ہارون الرشید تھے۔ارشاد عارف ،سہیل وڑائچ،سلیم بخاری،حبیب اکرم ،خوشنود خان ،منصور آفاق اور اپنے نذیر لغاری کو دیکھ کر دل خوش باش ہوا۔اسلام آباد سے بیجنگ کی پرواز کوئی چھ گھنٹے کی ہے۔امیگریشن اور کسٹم کے ٹٹولتے ہاتھوں سے گزرتے ایئر پورٹ سے باہر آئے تو سرد خوشگوار ہوائیں ہمارا استقبال کر رہی تھیں۔چہار جانب نظر دوڑائی تو لگا کہ مغرب کے کسی ترقی یافتہ ترین شہر کا در کھل گیا ہے۔مگر جیسے جیسے اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئے،چین کی معاشرت ،طرزِ زندگی اور رہن سہن کی نمایاں جھلک سامنے آنے لگی۔بڑی بڑی گاڑیوں کے ساتھ اسکوٹر رکشہ اور سائیکلیں بھی رواں دواں تھیں۔ایک زمانہ تھا ،یہی کوئی تین دہائی قبل کی بیجنگ کو سائیکلوں کو شہر کہا جاتا تھا۔چین کی تیز رفتار معاشی ترقی کو دائیں بائیں میں بلند و بالا عمارتوں اور جدید گاڑیوں کے سمند ر کو سڑکوں پر رواں دواں صورت میں دیکھ رہا تھا۔پہلی نظرمیں ہی اندازہ ہوگیا کہ جس چین کی معاشی ترقی او ر خوشحالی کے بارے میں دہائی اوپر سے جو ہم سن رہے تھے ،وہ اس سے بڑھ کر ہے۔ سرکاری و غیر سرکاری وفود لے جاتے دہائیاں تو ہوگئیں ،سرکاری وفد یعنی صدر اور وزیر اعظم کیساتھ دورے کا سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہے کہ غیر ملکوں کے حکمراں جنہیں آپ اسکرین پہ دیکھتے ہیں،اُن سے براہ راست ہاتھ ملانے اور چند جملوں کا تبادلہ کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔یہی نہیں بلکہ خود اپنے حکمراں مجبور ہوتے ہیں کہ گھنٹوں کے سفر کے دوران اور پھر کم از کم ناشتے میں گفتگو کے لئے دستیاب بھی ہوجائیں۔مگر سرکاری وفد میں شمولیت سے یہ نقصان ہوتا ہے کہ پروٹوکول کے سبب آزادانہ سڑکوں فٹ پاتھوں پر چلنے پھرنے اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں سے کھلی ڈلی گفتگو کرنے کا موقع نہیں ملتا ۔چین کا یہ سفر اس لئے بڑا یادگار رہا کہ حالیہ برسوں میں چین نے معاشی میدان میں جو ترقی کی ہے ،اس کے اسباب کا قریب سے مشاہدہ ہوسکے۔اشتراکی چین کے بانی ماؤزے تنگ نے یہ ناقابل فراموش کارنامہ تو انجام دیا کہ صدیوں سے افیون میں ڈوبی چینی قوم کو نہ صرف زندہ کیا۔ ۔ ۔ بلکہ ایسا انقلاب برپا کیا جو اس صدی کے چند بڑے انقلابات میں سے ایک ہے۔اشتراکی چین اور پھر جدید چین پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔مگر پھر بھی چینی انقلاب ایک ایسا بند باب ہے ،جسے جتنا بھی کھولا جائے تو اسکی مزید پرتیںکھلنے لگتی ہیں۔اشتراکی چین کے بابے ماؤزے تنگ نے اپنی زندگی میں جو ثقافتی انقلاب برپا کرنے کی ہمالیہ سے بڑی غلطی کی اس میں کروڑوں چینوں کی زندگی ایک عذاب سے گزری ۔ثقافتی انقلاب کے اس دور میں گینگ آف فور نے بڑی شہرت پائی ۔اس گینگ آف فور کے چار مرکزی کرداروں میں ایک ماؤزے تنگ کی بیوی جیانگ چنگ تھیں۔۔۔گینگ آف فور نے ثقافتی انقلاب کے نام پر چین کے اشتراکی نظام کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔اس دور میں انصاف اور اخلاقیات کی تمام حدیں پار کردی گئیں۔ (جاری ہے) 1966ئسے 1976ئتک جاری رہنے والے اس ثقافتی انقلاب کا انجام بھی بڑا المناک تھاکہ اس نے خود ماؤ جیسی عظیم انقلابی شخصیت کو متنازعہ بنا دیا۔جدید چین کے بانی ڈینگ ژاؤ پنگ،چین کے دوسرے بڑے عظیم لیڈر چو این لائی کے دست راست تھے۔اور یہ چو این لائی ہی تھے جن کے انتقال کے بعد ایک ا یسا عظیم عوامی ابھار تین مین اسکوائر پر چیختا چنگھاڑتا باہر آیا جس نے گینگ آف فور کو عبرت کی مثال بنا دیا۔چین کے دورے کے دوران ژاؤ پنگ کی بیٹی ڈینگ رانگ کی اپنے والد کے بارے میں آپ بیتی پڑھ کر جدید چین سے آگاہی بھی ہوئی اور اس کربناک دور کو پڑھ کر افسردہ بھی ہوا۔کہ وہ اشتراکی چین جو ساری دنیا کی قومی تحریکوں کے لئے مشعل راہ ہوتا تھا۔خود تو دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا مگر اُس کا اشتراکی کردار بتدریج ایک نئے سوشلسٹ نظام میں ڈھل گیا۔