تقریباً آدھی صدی کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر کی موجودہ صورت حال پر بحث یقینا ایک اہم سفارتی کامیابی ہے۔ بھارت نے سلامتی کونسل کی اس میٹنگ کو رکوانے کیلئے تمام تر سفارتی وسائل بروئے کار لائے تھے۔ بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے کونسل کے سربراہ پولینڈ کے اپنے ہم منصب جیسیک سیزاپوٹوویزاور دہلی میں پولینڈ کے سفیر آدم بورکووشی پر ہر ممکن دبائو بنانے کی کوشش کی کہ کسی طرح یہ میٹنگ ٹل جائے اور اگر چین کی ایما پر منعقد بھی ہوتی ہے، تو اس کا کوئی مشترکہ اعلانیہ جار ی نہ ہو۔بلکہ پاکستان کو متنبہ کیا جائے کہ معاملات کو بین الاقوامی رنگت دینے سے خطہ میں صورت حال مزید پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ اس سے قبل بند کمرے میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران کو بریفنگ دیتے ہوئے ، بھارتی خارجہ سیکرٹری وجے کیشو گھوکھلے نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ بھارت جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ و اسمبلی بحال کرنے کیلئے تیار ہے، بشرطیکہ پاکستان قانون و انتظامیہ میں دخل دینا بند کردے۔ یعنی بھارت کا منصوبہ تھا کہ کسی طرح سلامتی کونسل کے بیان میں پاکستان پر کشمیر کے حالات بہتر بنانے کی ذمہ داری ڈالی جائے اور پھر بھارت دیگر امور پر قدم اٹھانے پر غور کرسکتا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق گو کہ کونسل کے اراکین میںلائحہ عمل کے بارے میں اختلافات تھے، مگر جس ایک نکتہ پر وہ متفق تھے، وہ یہ تھا کہ بھارت کی حالیہ کارروائی یک طرفہ ہے اور اس نے معاملات کو پیچیدہ کرکے خطے میں کشیدگی پیدا کردی ہے۔ شاید سلامتی کونسل کے ممبران اس معاملے میں بھی ڈنڈی مار لیتے، مگر بین الاقوامی میڈیا نے کشمیر میں مواصلاتی بلیک آوٹ اور پوری آبادی کو محصور کرنے ، جیسے واقعات کو جس طرح کور کیا اور بھارت کی سرزنش کی، اس نے بین الاقوامی برادری میں بھارت کے سکہ بند دوستوں کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے جس طرح ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کا نام لیکر بھارت میں بڑھتے ہوئے فاشزم اور خطہ پر اسکے اثرات کا معاملہ اٹھایا، اب پاکستانی وزارت خارجہ و میڈیا کو چاہے کہ اس کو اپنے بیانہ کا مرکزی نقظہ بنالیں۔ اسکے علاوہ جس طرح بین الاقوامی برادری ابھی بھی بھارت اور پاکستان پر دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کیلئے زور دیتے ہیں، پاکستانی وزیر اعظم کو چاہے کہ علانیہ طور پر اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو کسی نیوٹرل جگہ پر مذاکرات کی دعوت دے ڈالے اور زور دے کہ ان مذاکرات میں مسائل کی جڑ’’ کشمیر‘‘ پر ہی بات ہوگی ، اور طریقہ کار وضح کرنے پر گفتگو ہوگی جس سے اس دیرینہ مسئلہ کو کشمیریوں کی خواہشات ، دو طرفہ معاہدوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت حل کرکے جنوبی ایشیا ء کو امن کا گہوار بنایا جاسکے۔ یہ ایک طرح سے بین الاقوامی برادری میں بھی ان ممالک کیلئے پیغام ہوگا ، جو بھارت اور پاکستان کو دو طرفہ طور پر مسائل حل کرنے کیلئے زور دیتے ہیں۔ اس سے قبل 2018ء میں اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی کونسل نے 1994ئکے بعد پہلی بار کشمیر کی صورت حال پر بحث کرکے ایک جامع و مستند رپورٹ ترتیب دی تھی۔ تقریباً دو دہائیوں سے کشمیر میں حقوق انسانی کی ڈاکومینٹیشن میں سرگرم ، جموں و کشمیر سول سوسائٹی، دہلی میں حقوق انسانی کے اہم کارکن روی نیئر اور مرحوم صحافی شجاعت بخاری نے اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی کونسل کی توجہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم پر دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ حقوق انسانی کی کونسل جب اس رپورٹ کی تیاری اور مندر جات پر بحث و مباحثہ میں مصروف تھی، تو مجھے یاد ہے کہ کئی سفار ت کاروں نے ہمار ی حوصلہ شکنی کی۔ شجاعت اس دوران کئی بار نیویارک اور جنیوا کے دور ے پر گیا تھا۔ ایک سفارت کار کو جب اس نے بتایا کہ حقوق انسانی کونسل کی کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے بند کمرے میں میٹنگیں ہو رہی ہیں اور ایک رپورٹ ترتیب دی جا رہی ہے، تو اس سفارت کار نے کہا، کہ اگر ایسا ہوتا ہے ، تو یقینا معجزہ ہوگا۔ بہر حال 14جون 2018کو یہ معجزہ رونما ہوا۔مگر بد قسمتی سے اسکے چند گھنٹوں کے بعد ہی شجاعت کو سرینگر میں قتل کر دیا گیا۔ نئی دہلی کے سفارتی اور سیاسی حلقوں سے جو خبریں اب موصول ہو رہی ہیں، ان کے مطابق بھارت کا ہدف اب کسی طریقے سے چین کوبالکل اسی طرح شیشے میں اتارنا ہے، جس طرح 1994ء میں اسوقت کے وزیر اعظم نرسمہا راو ٗ نے ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی کو سبز باغ دکھا کر اقوام متحدہ کے حقو ق انسانی کمیشن میں پاکستان کو الگ تھلگ کر دیا تھا۔ کئی دہائیوں کے بعد اب شاید ایران کو اس غلطی کا ادراک ہو گیا ہے۔ مارچ 1994ء جموں کشمیر میں حقوق انسانی کی ابتر صورت حال کے حوالے سے تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) نے اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن میں ایک قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس میں کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھارت کی زبردست سرزنش اور اس کے خلاف اقدامات کی بھی سفارش کی گئی تھی۔ منظوری کی صورت میں یہ قرارداد براہ راست اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سپرد کردی جاتی، جہاں بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاںعائد کرنے کے قواعد تقریباً تیار تھے۔ بھارت کے اس وقت کے وزیر خارجہ دنیش سنگھ ان دنوں دہلی کے ہسپتال میں زیر علاج تھے اور بڑی مشکل سے چل پھر سکتے تھے۔ وہ اسٹریچر پر ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے نام وزیر اعظم نرسمہا رائو کا اہم خط لے کر تہران آپہنچے۔ رائو نے بڑی چالاکی اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کو آمادہ کرالیا کہ وہ او آئی سی میں مذکورہ قرارداد کی منظوری کے وقت غیر حاضر رہے۔ جہاندیدہ رائو کا خیال تھا کہ ایران کے غیر حاضر رہنے کیصورت میں یہ قرارداد خود بخود ناکام ہو جائے گی کیونکہ او آئی سی دوسرے کئی بین الاقوامی اداروںکی طرح ووٹنگ کے بجائے اتفاق رائے سے فیصلے کرتی ہے۔ ادھر ایرانی سفارت کار دبے لفظوں میںکہتے ہیں کہ بھارت نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے سلسلے میں ان سے ایک وعدہ کیا تھا، جس پر انہوں نے یقین کرلیا تھا۔ بھارت نے ایران سے درخواست کی تھی کہ وہ مغربی ممالک کی مداخلت روکنے میں اس کی مدد کرکے اس کو سخت صورت حال سے نکالنے میں مدد کرے، جسکے عوض بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی طرف اقدامات کا اعلان کریگا۔ اس کے ایک سال بعد رائو نے برکینا فاسو میں نا وابستہ ممالک کی سربراہ کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ کشمیر کے سلسلے میں بھارت مکمل آزادی کے علاوہ کسی بھی حل کے لئے آمادہ ہے۔ شاید یہی تاریخ اب دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ چین کے رویہ اور بین الاقوامی میڈیا کی کوریج کی وجہ سے خاصے عرصے کے بعد اپنی تمام تر معاشی قوت کے باوجود سفارتی محاذ پر بھارت ایک طرح سے بیک فٹ پر چلا گیا ہے۔ اس لئے اب بھارت کی کوشش ہے کہ اگلے ماہ سرحدی تنازعہ پر ہونے والے مذاکرات میں چین کو کوئی بھاری پیشکش کی جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ سرحدی تنازعہ سے متعلق دونوں ممالک کے خصوصی نمائیندوں بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوبال اور چینی وزیر خارجہ وانگ ہی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں، بھارت ، چین کو بتانے والا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370کی وجہ سے ہی وہ لداخ خطے میں چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ کو سلجھا نہیں پا رہا تھا ۔ بھارتی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ آئین کی دفعہ 253، جو بھارتی حکومت کو خارجہ پالیسی اورغیر ممالک کے ساتھ معاہدے ، عہد نامے یا میثاق دستخط کرنے کیلئے لامحدود اختیارات دیتی ہے ، کا اطلاق جموں و کشمیر پر نہیں ہوتا ہے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد اب چونکہ بھارتی آئین کی سبھی دفعات کا اطلاق جموں و کشمیر پر ہوتا ہے، نیز لداخ اب براہ راست نئی دہلی کے زیر انتظام ہے، اسلئے سرحدی تنازعات کو سلجھانا آسان ہو گیا ہے۔ چین کے سابق خصوصی نمائندے دائی بینگو نے ایک دہائی قبل تجویز پیش کی تھی کہ بھارت اگر لداخ کے علاقہ میں اکسائی چن کے دعوی سے دستبردار ہوتا ہے، تو چین بھی مشرق میں اروناچل پردیش پر اپنا دعوی واپس لے سکتا ہے۔ اسکے علاوہ بھارت گلگت و سی پیک کے حوالے سے اپنے تحفظات کو بھی ختم کرنے پر تیار ہے، اگر چین کشمیر کے حوالے سے اپنی پوزیشن پر نظر ثانی کرکے پاکستان کو الگ تھلگ کرنے میں بھارت کی مدد کرتا ہے۔ دیکھنا ہے کہ پاکستان کی سفارت کاری اس موقع پر چین کو ایران بننے سے کیسے روک پاتی ہے۔چین کو بھی 1994ء کے واقعے سے سبق لیکر کسی ایسے وعدے کا اعتبار نہیں کرنا چاہئے ، جو بعد میں فریب یا سراب ثابت ہو۔