بھارت کو چین کے ساتھ محاذ آرائی کے بعد ایک بار پھر ہزیمت کا سامنا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت سخت دبائو میں ہے۔ اس کی حکومت کا لبہ و لہجہ وہ نہیں جو پاکستان کے ساتھ کشیدگی کے دنوں میں ہوتا ہے بلکہ مودی کا یہ بیان کہ چین نے بھارت کی کسی چوکی پر قبضہ نہیں کیا اور نہ ہی چینی فوجی بھارتی سرحدوں کے اندر آئے۔ ہر کافی لے دے ہورہی ہے۔ بیس انڈین فوجیوں کی ہلاکت اور دس فوجیوں جن میں اعلیٰ افسر بھی شامل ہیں ان کی گرفتاری۔ بھارت کی عسکری تاریخ کا ایک درد ناک باب بننے جارہا ہے جس سے قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی کھنک تو نرم پڑی ہی ہے اس بے بھارت میں اس جنگجو حلقے کو بھی شرمندگی کا سامنا ہے جو چین کے مقابلے میں ایک بڑی عسکری قوت کھڑی کرنے کا حمایتی تھا بلکہ ’’کولڈ وار ڈاکٹرائن‘‘ کا بھی خالق تھا کہ چین اور پاکستان کے ساتھ دو ملکی لڑائی کیسے لڑی جائے۔ حالیہ چین بھارت سرحدی کشیدگی کی جڑیں بھارت کے گزشتہ برس 5 اگست کے اس قدم میں ہیں جن کے ذیرعے اس نے جموں و کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس ختم کردیا تھا اور اقوام متحدہ اور پاکستان کے ساتھ دوطرفہ قراردادوں اور یادداشتوں کے برعکس پورے متنازعہ ریجن کو باقاعدہ طور پر اپنا حصہ بنا لیا تھا۔ ظاہر ہے پاکسستان اور چین نے اس بھارتی اقدام پر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا تھا بلکہ عالمی سطح پر احتجاج بھی کیا تھا۔ عالمی ردعمل انتہائی محتاط رہا اور بشمول عرب مسلم ممالک نے بھارت کے اس قدم اور کشمیریوں کو محبوس کرنے پر کوئی باضابطہ احتجاج نہیں کیا جس سے بھارت کا مزید حوصلہ بڑھا اور اس نے اپنے طور پر ہی ہمالیہ میں اپنی سرحدوں کی مستقل نشان بندی شروع کردی جس پر چین کو اعتراض تو تھا ہی اس نے نیپال کے ساتھ بھی سرحدی تنازع کو زندہ کردیا۔ چین کو تشویش تھی کہ بھارت پاکستان کے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو جارحیت کا نشانہ بنا سکتا ہے اور منتظر تھا کہ پاکستان اس کی کسی طریقے سے پیش بندی کرتا ہے۔بھارت نے جب لداخ کی گلوان وادی میں پیش قدمی شروع کی اور وہاں سڑکیں بڑھانے کی کوششیں شروع کیں تو چین کو احساس ہوا کہ بھارت پہلے کوہ ہمالیہ کے اوپر سے گھیرا بندی کر رہا ہے تاکہ کسی عسکری جارحیت کی صورت میں پاکستان کو چین سے کاٹ دیا جائے۔ اس کا دوہرا فائدہ بھی تھا کہ سی پیک جو پاکستان کی معیشت کی شہ رگ ہے اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اہم حہ اس کے نازک مقام پر بھارت آ بیٹھا۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ بھارت کی اپنی شمال مغربی سرحد کو پھیلانے اور اسے ایک مستقل سرحد میں تبدیل کرنے کی خواہش بہت پرانی ہے 1962ء کی جنگ کی اس کاوش کا حصہ تھی اور آج جب بھارتی معیشت مضبوط ہے اور اندر ہی سیاسی استحکام بھی ہے تو اس نے دوبارہ وہی کوشش کی۔ برطانیہ نے صدیوں پہلے جو میک موہن سرحدی لائن کھینچی تھی چین اسے ہی حتمی حد بندی تسلیم کرتا آیا ہے حالانکہ چینی محققین کا کہنا ہے کہ برطانوی دور کی سرحد بندی سے پہلے لداخ کے بیشتر حصے چین کا حصہ تھے۔ بات ہورہی تھی پاکستان کے ردعمل عمل کی۔ پاکستان نے سفارتی محاذ پر کشمیر کا مسئلہ عمدگی سے اٹھایا لیکن ایک کمزور معیشت اس کے آڑے آئی اور غیر ریاستی عناصر کا بوجھ جس نے پاکستان کی سفارتی اور تزویراتی پوزیشن کو ہمیشہ کمزور کیا۔ سفارتی ۔۔۔۔۔ کی راہ میں رکاوٹ رہی اور جب ان سفارتی کاوشوں کا کچھ نتیجہ نکلنے لگا تھا اور ترکی‘ قطر اور ملائیشیا نے ایک متوازی اسلامی بلاک بنانے اور کشمیر کو ایک عالمی مسئلے کے طور پر سر اٹھانے کا فیصلہ کیا تو پاکستان سعودی عرب کے دبائو کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔ یقینا پاکستان کی کمزور معیشت کسی بڑے عسکری تنازع کی متحمل نہیں ہے اور بھارت اس کمزوری سے جو فائدہ بھی اٹھا رہا ہے لیکن پاکستان کی فوجی قیادت کے اعشاریئے بھارت کی جارحیت کو کشمیر ‘گلگت وبلتستان کی لائن آف کنٹرول پر روکنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کو یہ محاذ مضبوط کرتے ہوئے اپنی معیشت پر بھرپور توجہ دینے اور کسی بڑے تنازع میں الجھنے سیگریز کا مشورہ چینی ماہرین ایک عرصے سے دے رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کی بحالی کا عمل اتنا طویل نہیں ہوگا جتنا چین یا بھارت کا رہا ہے۔ ایک سے دو دہاء یاں قوموں کی زندگی میں کوئی طویل عرصہ نہیں ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ پاکستان نے بھارتی جارحیت اور اس کے دبائو کو کم کرنے کے لیے قانون اور آئینی اقدامات اٹھانے کاف یصلہ کرلیا ہے۔ یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ حکومت نے آزادکشمیر کے عبوری آئین 1974ء میں چودھویں ترمیم کے لیے مسودہ تیار کرلیا ہے جس سے یہ مراد لی جائے گی کہ پاکستان اپنے زیر انتظام علاقے کو مستقل طور پر اپنیقانونی دھارے میں شامل کرنا چاہتا ہے اور بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر کے لیے بھی سات نشستیں مختص کر رہا ہے جیسے بھارت نے پاکستان کے زیرانتظام علاقوں کے لیے کر رکھی ہیں۔ اس مسودے میں کئی ایسی شقیں ہیں جو بحث طلب ہیں لیکن اگر اس پر عمل ہوتا ہے تو اسے پاکستان کی طرف سے اپنے زیرانتظام علاقوں کو مرکزی و آئینی دھارے میں لانے کی طرف پہلا قدم قرار دیا جائے گا۔ اسی طرح کی ترامیم گلگت بلتستان اور وفاق میں بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کاوش حکومت پر دبائو میں اضافہ کرے گی کہ پاکستان نے بھارت کے ردعمل میں یہ قدم اٹھایا ے لیکن بدلتے حالات میں پاکستان کو آئینی اور قانونی پیش بندی کرلینی چاہیے۔ اس موضوع پر الگ سے ایک نشست درکار ہے۔ اس کالم کو ختم کرنے سے پہلے صرف ایک واقعے کا اعادہ ضروری ہے… ڈان کے کالم نگار عرفان حسین نے بھی اپنے ایک حالیہ مضمون میں کیا ہے وہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب 1962ء میں بھارت نے کشمیر میں تعینات اپنے فوجی ڈویژن شمال مغربی سرحد پر لگا دیئے تو پاکستان کے پاس کشمیر میں فوجیں اتارنے کا سنہری موقع تھا۔ چین کے سفیر نے ایوب خان کو اپنی حکومت کا پیغام بھی بھیجا تھا کہ پاکستان کو موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن ایوب خان نے یہ بات اپنے اتحادی ممالک امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں کو بنا دی۔ واشنگٹن اور لندن میں کہرام برپا ہوگیا اور ایوب خان سے درخواست کی کہ وہ اس طرح کا کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ ایوب نے اپنے اتحادیوں کی بات مان لی اور کہا کہ پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کاراستہ جنگ کے راستے سے بہتر ہے لیکن جب اسی ایوب خان نے 1964ء میں کشمیر کے اندر تحریک شروع کرائی اور جو 1965ء کی جنگ پر متنج ہوئی تو اس کے واشنگٹن اور لندن میں بیٹھے اتحادیوں نے اسے ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کا راہ دکھائی۔ پاکستان نے کشمیر‘ اقوام متحدہ راہداریوں میں کھویا ہے۔ اقوام متحدہ سے انصاف صرف طاقت کو ملتا ہے اور طاقت معیشت‘ سیاسی استحکام اور دنیا سے ہمہ جہت تعلقات سے حاصل ہوتی ہیں۔