فراز نے کہا تھا، ’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘‘ اور ہاتھ دکھانے والا تو صریحاًدشمن ہوتا ہے، ہمیں تو ایسا دشمن نصیب ہوا جسے ہم دشمن کہنے کی جرأت نہیں کر سکے اور یہ دشمن ہمارے ساتھ پیار کا دعویٰ بھی کرتا رہا اور پھر بقول منیر نیازی میں جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں۔ ایوب کو کہنا پڑا تھا Friends not masters۔ ہمارے لیے Frienemy دوست کم دشمن کی اصطلاح بھی ایجاد کی گئی۔ اب کے Enemy کہہ دیا گیا۔ ٹرمپ نے سب کچھ ڈمپ کردیا: رفتہ رفتہ عشق میں بے آبرو ہوئے پہلے تھے آپ، آپ سے تم، تم سے تو ہوئے ہو سکتا ہے اب کے ہم ٹانگ راس آ جائے اور سیدھے کھڑے ہو جائیں۔ ٹرمپ کی بے باکی نے سب کے ہوش اڑا دیئے ہیں اور سب سوچنے پر مجبور ہیں کہ کب تک کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھیں گے۔ دشمن کی نپاہ میں بقا کو ممکن بنائیں گے۔ اچھا کیا جو تونے فراموش کردیا۔ یہ ساری باتیں میرے ذہن میں خودبخود آتی چلی جاتی ہیں کہ میں منظر کو بدلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ عمران خان چین کے دورے پر ہیں۔ ان کی بے لاک تقریر اپنی جگہ مگر اس فیصلے نے تجارت کے تن مردہ میں جان ہی نہیں ڈالی ایک قسم کی خوداعتمادی پیدا کی ہے کہ پاکستان اور چین اپنی کرنسی میں تجارت کریں گے۔ یہ فیصلہ دوسرے لفظوں میں امریکی ڈالر کی توہین ہے اور پاکستان کی سرتابی چین تو چیئرمین ہے وہ اس سے پہلے سعودیہ کے ساتھ یو آن میں تجارت کر رہا ہے جو دھچکہ ڈالر کو لگے اس کا ذمہ دار کون ہوگا، یقینا وہی جو کمزور ہوگا۔ سعودیہ کے آئینہ دل میں دراڑ آ چکی ہے کہ امریکہ نے صاف کہہ دیا کہ وہ امریکہ کے سہارے پر ہیں وگرنہ وہ توخستہ دیوار کی طرح ہیں۔ دیکھا جائے تو امریکہ کس قدر بے لحاظ اور طوطا چشم ہے کہ خود امریکی حیران ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے اس نے اپنے قرضوں کے حوالے سے کہا تھا کہ ’’اس میں کون سی پریشانی ہے۔ اس کے قرضے آخر خلیجی ریاستوں ہی نے ادا کرنے ہیں۔ واقعتاً وہ امریکہ کی خوشنودی کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کرنذرانے پیش کرتے ہیں اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور مجبوری کے عالم میں سب دل میں شہزاد احمد کا شعر دہراتے ہیں۔ رخ تیری جانب رہے گا بے رخی جیسی بھی ہے آپ جیسے بھی ہیں نیت آپ کی جیسی بھی ہے مگر حالات بتا رہے کہ سعودیہ کا رخ بھی بدلتا جارہا ہے کیونکہ انسانی حس قطب نما سے زیادہ تیز ہے۔ اسی کرنسی کی بھینٹ تو قزاقی بھی چڑھے تھے کہ وہ دوستوں کی مشاورت سے اپنا الگ سکہ ڈھال رہے تھے جو انہیں امریکی ڈالر کا محتاج نہ رہنا دے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ امریکی ڈالر کو آسمان پر پہنچانے والا بھی سعودی ہے کہ اس نے خود کہا تھا کہ وہ امریکی ڈالر میں یعنی پیٹرو ڈالر میں تیل بیچیں گے۔ پھر تو ڈالر کو پنکھ لگ گئے۔ اوریا مقبول جان اس حوالے سے خوب لکھتے ہیں کہ ا ن بدمعاشوں نے کس انداز سے اپنے کاغذ کو قیمتی بنا لیا اور اسی کاغذ کو عالمی تجارت کی بنیاد بنا دیا۔ اسی کرنسی سے مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آ گیا۔ ایک مرتبہ بہائی فرقہ والے میرے پاس آئے کہ انہوں نے ایک مشاعرہ رکھا ہے جس میں منیر نیازی اور مجھے مدعو کیا گیا تھا۔ میں نے اپنی معلومات کے لیے اس فرقہ کا تعارف چاہا تو اس تعارف میں ایک بات جو آنے والے نے بتائی کہ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کا ایک ہی سکہ یعنی کرنسی ہو۔ میں ہنس کر وہ تو ٹھیک ہے مگر یہ بتائیے کہ آپ ہمیں مشاعرے کا مشاہرہ کس کرنسی میں دے رہے ہیں۔ اس پر وہ مسکرا دیا۔ ہم نے جب مشاعرہ پڑھ لیا تو ہمیں کسی بھی کرنسی میں کچھ بھی ادا نہیں کیا گیا۔ بس قراۃ العین طاہرہ کی۔ کتب تھما دی گئی۔ بہرحال پوری دنیا کی کرنسی ایک نہیں ہوسکتی۔ ہاں وہ یقینا بارٹر سسٹم میں تو ایک ہی جیسی تھی کہ ایک ہی طریقہ کار تھا۔ اب تو سب کچھ کاغذ کے مول پر آگیا، جب چاہو اعلان کر کے سب کچھ بے وقعت کردو۔ یا پھر ایسا موقع آئے سارے نوٹ صرف کاغذی ثابت ہوں۔ ان سے تو کشتیاں اور جہاز بھی نہیں بنیں گے کہ بچے اڑا سکیں یا یوں ہو کر سب کچھ پڑا ہو اور سسٹم ہی کولیپس کر جائے۔ غالباً فراز نے کچھ اس طرح کہا تھا: ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں اور تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ بنیادی مسئلہ تو سی پیک کا ہے جو امریکہ اور بھارت سے برداشت نہیں ہورہا۔ پہلے پہل اس پر کچھ خدشات نئی حکومت کی طرف سے تھے جو لگتا ہے سرے سے ختم ہو چکے ہیں بلکہ عمران خان نے بہت اچھے انداز میں چینیوں کو متاثر کیا ہے۔ دفاعی شعبے میں بھی منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ سی پیک کے حوالے سے آنے والے خطرات سے نمٹا جائے۔ اصل میں سی پیک اور باہمی تعاون دونوں ملکوں کی بقائے بے ضروری ہے۔ امریکہ کو مضبوط بھارت چاہے تو چین کے لیے پاکستان کا استحکام لازم ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس حکومت پر چین کا اعتماد زیادہ ہے کہ یہ نہ صرف کرپٹ نہیں بلکہ کرپشن کے خلاف جنگ لڑنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے داخلی معاملات پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے۔ چین کے ساتھ دوستی تو ہے مگر ہمیں ان کی طرح محنت کی عادت بھی ڈالنی چاہیے۔ کبھی ہم نے یہ بھی کہا تھا: فرصت ہمیں ملی تو کبھی لیں گے سر سے کام اک در بنانا چاہیے دیوار چین میں بہرحال چین ہمیں چینی سے زیادہ عزیز ہیں۔ ایک مرتبہ جب فراز چین گئے تو چائے پر ساتھی نے چینی مانگی تو فراز نے کہا ایک آدھ پکڑ کر کپ میں ڈال لو۔ پھر بھی چینی میں مٹھاس رہنی چاہیے کہ یہ شدت میں سکرین بھی بن جاتی ہے۔ ہم نے ملتان موٹروے میں ان سے محبت کر کے انہیں ہی پکڑوا دیا۔ وہاں کک بیک نہیں چلی۔ آپ میری بات سمجھ گئے ہوں گے۔ عمران تو ان سے کرپشن کے خلاف مدد مانگ رہا ہے جبکہ پچھلی حکومت نے انہیں کرپشن پر لگانے کی کوشش کی۔ یہاں بھی 1985ء کے بعد لفافہ اور بریف کیس شروع ہوا اور پھر سیاست میں چھانگا مانگا آ گیا۔ پہلے گراں خوب چینی سنبھل رہے تھے اور اب سنبھلنے کی باری ہماری ہے۔ دیر آید درست آید۔