نیویارک( ندیم منظور سلہری سے )امریکہ نے چین کے ساتھ پاکستان کی بڑھتی تجارتی پارٹنرشپ کا توڑ کرنے کیلئے آئندہ سال لانگ ٹرم کیلئے امریکی کمپنیوں کو پاکستان میں 60 سے 80 ارب ڈالر تک سرمایہ کاری کرنے کی منصوبہ بندی کی تیاری شروع کردی تاکہ اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا توڑ کرنے کیلئے پاکستان کو متوازن پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے ۔امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی نئی لیڈرشپ نے کم عرصے میں جسطرح اپنی معیشت کو سدھارنے کے لئے جرات مندانہ اقدامات اٹھائے ہیں اس نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اس بات پر راغب کیا ہے کہ وہ بھارت یا کسی اور ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے پاکستان میں سرمایہ لگائیں ۔پروفیسر جونسن جونز کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ ایلس ویلز نے بھی ایک تھنک ٹینک ادارے سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ اگر پاکستان کی حکومت چین کے ساتھ جاری یکطرفہ پالیسیوں پر نظرثانی کرئے تو پندرہ امریکی کمپنیاں وہاں 60 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر سکتی ہیں ۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کی ڈوبتی معیشت سے پاکستان بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے اس لئے وزیراعظم عمران خان اقلیتوں کے مذہبی مقامات کی بحالی کے زریعے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان سرمایہ کاروں کیلئے منافع بخش سرزمین ہے ۔امریکی ذرائع ابلاغ کی مختلف رپورٹس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ اس بات پر قائل ہو چکی ہے کہ پاکستان کو نظرانداز کرنا اسکے مفادات کو سخت نقصان پہنچا سکتا ہے ۔پروفیسر مائیکل جے رائٹ کے مطابق اگلے سال امریکی صدارتی انتخابات میں پاکستان کا اہم کردار ہو گا افغانستان میں امریکہ کو شکست یا فتح دلوانے کا فیصلہ اب کسی اور نے نہیں بلکہ پاکستان نے کرنا ہے ۔ٹرمپ انتظامیہ اور امریکہ کے دیگر ادارے پاکستان کو آن بورڈ رکھنے پر مجبور ہو چکے ہیں پاکستان ایک خاص حکمت عملی کے تحت اپنے اندرونی اور بیرونی معاشی حالات کو مذید بہتر بنانے کے بعد کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر لیکر جائے گا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افغانستان کے مسلے کو کشمیر کے ساتھ مشروط کر دیا جائے اگر ایسا ہوا تو امریکہ اور دیگر بڑی طاقتیں بلیک میل ہونے پر مجبور ہو جائینگی ۔