اپنے اردگرد 14میں سے 13ممالک کے ساتھ چین سرحدی تنازعہ سلجھانے کی تگ و دو کررہا تھا ، تاکہ اسکی پوری توجہ معاشی ایشوز کی طرف مرکوزرہے۔ صرف بھارت واحد ملک تھا ، جس کے ساتھ سرحدی تنازعات کے سلسلے میں کوئی میکانزم موجود نہیں تھا۔ راجیو گاندھی کے دورہ کے دوران سرحدی تنازعات کو سلجھانے کیلئے دونوں ملکوں کے فارن دفاتر میں مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دئے گئے۔ 1993ء میں وزیر اعظم نرسہما راوٗ نے اس سعی کو اورآگے لیجاکر سرحدوں کو پرامن رکھنے کے ایک معاہدہ پر دستخط کئے۔ اس کے مطابق دونوں ملکوں کی فوجی پارٹیاں ہتھیاروں کے بغیر پٹرولنگ کرکے واپس اپنے کیمپوں میں چلی جائیگی اور متنازعہ علاقوں میں جانے سے قبل ایک دوسر ے کو مطلع کرینگی۔اسکے علاوہ ان علاقوں میں کوئی انفراسٹرکچر کھڑا نہیں کیا جائیگا۔ 2003ء میں چین نے شکایت کی کہ فارن دفاتر کے ورکنگ گروپ تنازعہ کو سلجھانے کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی بیجنگ آمد پر دونوں ملکوں نے اتفاق کیا کہ اس مسئلہ کو فارن آفس سے لیکر بھارتی وزیر اعظم اور چینی صدر کے قریبی معتمدوں کے حوالے کیا جائے۔ اس طرح خصوصی نمائندو ں کا تقرر ہوا۔ بھارت کی طرف سے طے ہوا کہ قومی سلامتی مشیر ، چونکہ ہمہ وقت وزیر اعظم کے رابطہ میں رہتا ہے، وہ چینی ہم منصبوں کے ساتھ گفت شنید کریگا۔ پچھلے سال تک دونوں ملکوں کے خصوصی نمائندوں نے 22ادوار کے مذاکرات کئے ہیں۔ دو سال قبل سابق قومی سلامتی مشیر شیو شنکر مینن نے راقم کو بتایا کہ خصوصی نمائندو ں کا رول اب ختم ہو چکا ہے۔ مینن ، جنہوں نے پانچ سال تک یہ فریضہ انجام دیا کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے چینی ہم منصب دائی بنگو کے ساتھ مل کر لو اور دو کے فارمولہ کے تحت ایک حل ترتیب دیا ہے۔ اور اب اعلیٰ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ اسکو باضابط میز پر لائے، جو وہ کرنے سے کترارہی ہے۔ دائی بنگو نے اپنے منصب سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ایک چینی جرنل میں لکھا تھا کہ انہون نے بھارت کو تجویز دی تھی کہ گراونڈ پوزیشن کا احترام کرتے ہوئے، دونوں ممالک یعنی بھارت لداخ میں اکسائی چن پر اور چین شمال مشرق میں اروناچل پردیش پر دعویٰ واپس لی لیں اور پھر باقی سیکٹریز میں جو بارڈر پر تقریباً پانچ کلومیٹر کا تفاوت ہے اسکو بھی مختلف سیکٹرز میں لو اور دو کے اصول کے تحت حل کرلیں۔ مگر بھارت کی طرف سے اس تجویز کا کوئی جواب نہیں آیا اور وہ ہر سال خصوصی نمائندوں کی میٹنگ کبھی بیجنگ اور کبھی دہلی میں طلب کرتا ہے۔ 2016ء میںچینی فارن آفس کی دعوت پر دہلی میں کام کرنے والے تین صحافیوں نے تبت کا ایک تفصیلی دورہ کیا۔ میں بھی اس وفد میں شامل تھا۔ تبت اور یننان صوبہ کے شنگریلا علاقے سے واپسی پر بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے سینیر افسران نے ہمیں بریفنگ میں بتایا کہ ان کا ملک مذاکرات برائے مذاکرات کا قائل نہیں ہے۔ اگر مذاکرات حل کی طرف گامزن نہ ہوں، تو وہ وقت اور قومی وسائل برباد نہیں کرسکتے ہیں۔ یعنی ہمارے ذریعے ایک براہ راست وارننگ پہنچائی جا ررہی تھی کہ مذاکرات کے سلسلے میں چین کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے۔ چین کی ناراضگی کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ حالیہ عرصے میں جو دستاویزات سامنے آئے ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت۔چین سرحدی تنازعہ بس ایک مفروضہ ہے، جس سے پچھلے 70سالوں سے بھارتی حکومت عوام و میڈیا کو بیوقوف بنارہی ہے۔ اسی وجہ سے 58سال گذرنے کے باوجود بھی 1962ء کی جنگ پر مبنی جنرل ہینڈرسن بروکس اور برگیڈیر پریم بھگت کی تصنیف شدہ رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جا رہی ہے۔ معروف صحافی کلدیپ نائر نے اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے کیلئے کئی بار پارلیمنٹ میں معاملہ اٹھایا۔ بعد میںحق اطلاعات قانون کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ایک پیٹیشن دائر کی۔ جس کو اس وقت کے چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ نے کئی پیشیوں کے بعد خارج کردیا۔ اس دوران میں نے کئی بار انفارمیشن کمیشن کی کاروائی کو کور کیا۔ حبیب اللہ نے فیصلہ صادر کرنے سے قبل وزارت دفاع سے رپورٹ منگوا کر اسکا مطالعہ کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ اسکی بس ایک ہی کاپی ہے اور و ہ سیکرٹری دفاع کے کمرے میں ایک تجوری میں بند رہتی ہے اور اسکی کنجی صرف سیکرٹری کے پاس ہی ہوتی ہے۔ حال ہی میں حبیب اللہ نے راقم کو بتایا کہ وہ اس رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانے اور کلدیپ نائر کی پیٹیشن کو خارج کرنے کے اپنے فیصلہ پر قائم ہیں، کیونکہ اس رپورٹ میں بھارتی فوج پر خاصے برے کمنٹ کئے گئے ہیں اور وہ ابھی بھی ان کے مورال کو ڈاون کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کے نقشوں میں اس قدر تفاوت ہے کہ چین اس کو ایشو بنا کر بارڈر مذاکرات میں برتری حاصل کر سکتا ہے۔ بھارت کے ایک معروف قانون دان اور مصنف اے جی نورانی کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ سرحدی تنازع ایک مفروضے کے سوا کچھ نہیں ، جس کو بھارتی سفارت کاری نے گزشتہ تین دہائیوں سے فریب اور دھوکہ دہی کے ذریعے بڑی کامیابی سے دنیا کے سامنے پیش کررکھا ہے۔ اس جھوٹے پروپیگنڈہ کا آغاز کسی اور نے نہیں بلکہ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے خود کیا تھا۔ لیکن اب دستاویزی ثبوتوں اور تاریخی حقائق سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ یہ تنازع دنیا کے سامنے تاریخ اور پھر سرحدی نقشوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے کے پیش کیا گیا ہے۔ جو حقائق سامنے آئے ہیںان سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح بھارتی رہنمائوں اور سفارت کاروں نے 1959ء میں تاریخی حقائق کو میڈیا اورتحقیقی اداروں سے دور رکھا ‘ جس کے انتہائی نقصان دہ اور دوررس مضمرات رونما ہوئے۔ حد یہ ہے کہ کشمیر میں آزادی پسند رہنما بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوکر بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے چین‘ پاکستان سرحدی معاہدے پر انگلیاں اٹھاتے رہے۔بھارت کے سیاسی لیڈراکثر اس الزام کو دہراتے رہتے ہیں اور میڈیا ان بیانات کو آسمانی فرمان سمجھ کرقبول کرلیتا ہے۔27اکتوبر1947ء کو جس وقت بھارتی فوجیں کشمیر میں داخل ہوئی، تو ریاست جموں و کشمیر کا رقبہ 82,258 مربع میل دکھایا گیا۔ (جاری ہے)