کسی بھی شخصیت کے لیے نام اس کی پہچان ہوتا ہے ۔وہ شخص گھر میں ہو یا سکول میں،دوست ‘احباب کے درمیا ن ہو یارشتہ داروں کے ساتھ غرضیکہ وہ کہیں بھی ہو اس کو اس کے نام کے ساتھ ہی بلایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو واضح انداز میں فرمایا :’اور نہ ہی ایک دوسرے کو برے القاب سے بلاؤ ‘ (سورۃ الاحزاب:۱۱)اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بچے کی پیدائش کے بعد اس کا سب سے بنیادی حق اس کا اچھا نا م رکھنا ہے جس کی ذمہ داری سب سے پہلے والد پر عائد ہوتی ہے اگر وہ کسی صاحب علم و فہم سے معلوم کر کے رکھے گا تو اس میں اور بھی برکت ہوگی کیونکہ نام کا بچے کی شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ آدمی سب سے پہلا تحفہ اپنے بچے کو نام کا دیتا ہے اس لیے چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے ‘‘(جمع الجوامع:۸۸۷۵)اسی طرح ایک دوسری روایت میں فرمایا’’قیامت کے دن تم اپنے باپ دادا کے ناموں سے پکارے جاؤ گے لہٰذا اچھے نام رکھا کرو‘‘ (سنن ابوداؤد:۴۹۴۸) حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’میرے دادا کا نام حَزن تھا ‘وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا:تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا :’حزن‘ آپ نے فرمایا نہیں تم سہل ہو‘انھوں نے جواب دیا نہیں جو نام میرے باپ دادا نے رکھا ہے اسے نہیں بدلوں گا ۔حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم میں اب تک سختی پائی جاتی ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری :۶۱۹۳) مذکورروایات سے معلو م ہواکہ اچھے نام رکھنے چاہیں اور بر ے نام و القاب سے اجتناب کرنا چاہیے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے نام سے پکارا جائے گا چنانچہ جب نام برا ہوگا تو بارگاہِ لم یزل میں تمام مخلوق کے سامنے شرمندگی ہوگی۔ اچھا نام رکھنے کی چند وجوہات تو ماقبل گزرچکی ہیں لیکن ایک لطیف و نفیس حکمت اور بھی ہے جو درج ذیل حدیث مبارکہ سے سمجھ آتی ہے چنانچہ نبی مکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’بے شک اللہ تعالی نے ایک فرشتہ میری قبر (انور) پر مقرر فرمایا ہے جسے تمام مخلوق کی آوازیں سننے کی طاقت عطا فرمائی ہے پس جو کوئی قیامت تک مجھ پر درود پاک پڑھتا ہے تو مجھے اس کا اور اس کے باپ کا نام پیش کرتا ہے کہ فلاں بن فلاں نے اس وقت آپ پر درود پاک پڑھا ہے ‘‘(مسند البزار:۱۴۲۵) حدیث مذکور سے معلوم ہوا کہ درود پاک پڑھنے والے اور اس کے والد کا نام حضور ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں پیش کیا جاتا ہے لہٰذا ہمیں بچوں کے نام رکھنے میں احتیاط سے کام لینا چا ہیے اور بے معنی ،غلط مطالب اورشرکیہ معنی والے کفار کے مشابہ نام رکھنے سے بچنا چاہیے ۔ نام رکھنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ’’ آپ کسی صحابی کو کسی جگہ عامل بناکر بھیجتے تو اس کا نا م پوچھتے اگر اس کا نام آپ کو پسند آتا تو خوش ہوتے اور اس کا اظہار آپ کے چہرہ انور سے ہوتا اور اگر کسی کا نام ناپسند ہوتا تو ناپسندیدگی آپ کے چہرہ مبارکہ سے ظاہر ہوتی اور اگر کسی بستی میں جاتے تو اس کا نام پوچھتے ،اگر اس کانام پسند فرماتے تو خوش ہوتے اور اس کی خوشی آپ کے چہرہ انور پر دیکھی جاتی اگر اس کا نام نا پسند فرماتے تو آپ کے چہرہ انور پر اس کی ناپسندیدگی دیکھی جاتی‘‘(سنن ابوداؤد:۳۹۲۰) اِس روایت سے پتا چلاکہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناموں کے بارے میں کس قدر احتیاط فرماتے تھے یہی وجہ ہے کہ ہجرتِ مدینہ کے بعد آپ نے یثرب (بیماریوں کا گھر)کا نام تبدیل فرماکر مدینہ منورہ(پرُنور شہر) رکھ دیاجیسا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برے ناموں کو بدل دیا کرتے تھے ‘‘ (سنن ترمذی:۷۶۰)اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد صحابہ کرام و صحابیات کے نام تبدیل فرمائے چنانچہ حضرت عبدالجبار بن حارث رضی اللہ عنہ کا پرانا ،نام جبار بن حارث سے تبدیل کر کے عبدالجبار بن حارث رکھ دیا (اسدالغابہ:۶۶۷)اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’’اپنے غلاموں کے چار نام افلح،رباح ،یسار اور نافع رکھنے سے منع فرمایا‘‘(صحیح مسلم:۱۱۰۲)اسی طرح ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابیہ عاصیہ کا نام تبدیل کرکے فرمایا تو’ جمیلہ‘ ہے ‘‘(صحیح مسلم:۱۱۰۸)صحیح مسلم کی ایک روایت میں آتا ہے کہ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت برہ کا نام تبدیل فرماکر ’جویریہ‘ رکھا اور آپ ناپسند فرماتے تھے کہ یہ کہا جائے وہ برہ یعنی نیکی سے نکل گیا‘‘(صحیح مسلم:۱۱۰۹) اگر ہم ذخیرۂ احادیث کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ’’ اللہ تعالی کے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں‘‘ (صحیح مسلم:۲۱۳۲) صدرالشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں فرماتے ہیں ’’عبداللہ و عبدالرحمن بہت اچھے نام ہیں مگر اس زمانے میں یہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بجائے عبدالرحمن اس شخص کو بہت سے لوگ ر حمٰن کہتے ہیں اور غیر خدا کو ر حمٰن کہنا حرام ہے ‘‘(بہار شریعت:۳؍۳۵۶)اور یقینایہی حکم باقی اسمائے الہیہ کے لیے بھی ہوگا، اِس لیے ہمیں اس بات کا حتمی خیال رکھنا چاہیے ۔ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس نے میرے نام سے برکت کی امید کرتے ہوئے میرے نام پر نام رکھا ، قیامت تک صبح و شام اس پر برکت نازل ہوتی رہے گی‘‘(کنزالعمال:۴۵۲۲۱)اسی طرح ایک دوسری روایت میں فرمایا ’’جس کے ہاں تین بیٹے پیدا ہوں اور ان میں سے کسی کا نام محمد نہ رکھے وہ ضرور جاہل ہے ‘‘(المرجع السابق)اس بارے میں مزیدفضائل و احکام فتاوی رضویہ جلد ۲۴ میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں جس میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ الرحمۃ نے رسالہ بنام’’ النور والضیاء فی احکام بعض الاسماء ‘‘میں تمام احادیث طیبہ کویکجاذکر کیا ہے ۔کسی بھی خاندان میں جب بچے کی ولادت ہوتی ہے تو ددھیال اور ننھیال میں نام رکھنے کی تگ و دو شروع ہوجاتی ہے ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ بچے کا نا م وہ منتخب کرے ‘ چاہے نام کا مطلب کچھ بھی نکلتا ہو،نام ایسا ہو جو خاندان میں کسی کا نہ ہوخواہ نام میں شرکیہ معنی پائے جاتے ہوں لہٰذا ایسی صورت میں چاہیے کہ تحمل و بردباری سے اہل خانہ میں سے ہی صاحب علم و بصیرت کو یہ ذمہ داری سونپی جائے اور اگر قحط الرجال ہو تو کبیدہ خاطر ہوئے بغیر کسی مستند عالم دین یا مفتی صاحب سے رابطہ کرلیاجائے تو یہ نہ صرف اہل خانہ بلکہ بچے کے مستقبل کے لیے بہت اچھا ہوگا۔نام تجویز کرنے کے بعد اسی نام سے لکھا اور پکارا جائے تاکہ غلط نام یا لقب کا رواج نہ پڑے ۔ مذکورہ بالاتفاصیل کا حاصل و نچوڑ یہ ہے کہ بعد از ولادت بچے کا سب سے بنیادی حق اچھا نام رکھنا ہے ۔اچھا نام ہمیشہ اسماء الہیہ ،اسماء انبیاء کرام علیہم السلام ،اسمائے صحابہ و صحابیات سے ہو ۔دنیا دار،کافر و مشرک کے نام پر نام نہ رکھا جائے ورنہ بچے کی شخصیت متاثر ہوگی ۔ دورحاضر میں اگر اس امت مسلمہ میں نئی روح پھونکنی ہے اور کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے تو پھروالدین کوبچے کی ولادت سے ہی اسلامی تعلیمات وطریقہ نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو اپنانا ہوگا یہی حقیقی کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔