یہ واقعہ چونکہ بلوچستان کے ضلع ژوب میں پیش آیا اسلئے میڈیا میںخبروں کی زینت نہ بن سکا ۔ اسلام آباد ، لاہور یا کراچی جیسے شہروں میں پیش آیا ہوتا تو معلوم نہیں ہماری قوم کی حیرت کی انتہا کیا ہوتی ؟ واقعہ کچھ یوں تھا کہ چنددن پہلے ضلع ژوب میں ڈسٹرکٹ جیل کے سامنے گزرنے والی سڑک پر رحمت اللہ مسعود نامی پولیس اے ایس آئی کو چھ لاکھ روپوں کا ایک بھنچا ملا۔ پولیس اہلکار چونکہ ایک حساس انسان اور دیانت دار مسلمان تھا ،یوں اس نے اس پرائی رقم سے اپنی جیب گرم کرنے کی بجائے اسے قریبی امام مسجد کے ذریعے اپنے حقیقی مالک تک پہنچا دیا۔پھر اس کے بعد لوکل میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا پر اس پولیس اہلکار کو خراج تحسین کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔’’سلام ہو ایسی مائوں پہ جو رحمت اللہ مسعود جیسے ایماندار اور انصاف پسند لوگوں کو جنتی ہیں،واہ کیا کمال کردیا اس پولیس والے نے جنہوں نے بلا کسی انکار اور مزاحمت کے بنفس نفیس سڑک پر پڑی ہوئی رقم کو بھی اپنی ملکیت نہیں سمجھا اور فوراً اپنے مالک تک پہنچادیا ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ گوکہ پَل بھر میں اس پولیس آفیسر کے نام سے بھی لوگ واقف ہوئے اور غالب گمان ہے کہ بے شمار لوگوں کو ان کی ذات پات اور آبائی علاقے کے بارے میں بھی علم ہوا ہوگا۔یہ واقعہ سننے کے بعد یقینا میرے دل میں مذکورہ پولیس آفیسر کی دیانت پر رشک آیا مگر ساتھ ساتھ میرے ذہن میں کئی سوالات بھی ابھرنے لگے۔ میں سوچنے لگا کہ بالآخردیانت کے اس معمولی واقعے نے ہم لوگوں کو حیرت کے سمندر میں ڈبو کرکے رکھ دیا ؟ ایک انسانی اور پھر ایک مسلم معاشرے کا حصہ ہونے کے باوجود ہمیں اس پولیس آفیسر کا یہ دیانتدارانہ عمل کیو ںایک انہونی لگا ؟ پھر ان سوالات کا حل تلاش کرنے کیلئے میں نے کسی فلسفی اور کسی دانشور کے پاس جانے کی زحمت نہیں کی بلکہ مجھے بڑی آسانی سے اس کا جواب مل گیا۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہم حقیقت میں اب تک ایک عجیب معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں ہم جیتے اور مرتے ہیں جہاں پر بدقسمتی سے ہم نے انسانیت اور اعلیٰ انسانی اقدار سیکھے ہیں اور نا ہی ہم مذہب کو خلوص نیت اور صحیح معنوں میں فالو کررہے ہیں۔ ہم اگر انسانیت کو صحیح معنوں میں سمجھ پاتے تو بھی ہم اتنی اخلاقی گراوٹ کا شکار نہ ہوتے کہ دیانتداری کے ایک معمولی واقعے کو سننے کے بعد ششدر رہ جاتے۔ اس واقعے کے بعد ہماری حیرت اس بات کی بین دلیل ہے کہ ہمارے درمیان ابھی تک انسانی حقوق کی پاسداری عنقا ہے جونہی موقع کیش کرنے کی فضا بن جاتی ہے ، ہم دیوانہ وار ایک دوسرے کے مال اور جائیداد پر بھی ٹوٹ پڑتے ہیں اور عزت نفس کو بھی مجروح کردیتے ہیں۔انسانی سماج میں رہنے کے باوجود ہمارے ہاںچوری ، ڈاکے ، قتل ناحق ، رشوت ستانی اور کسی کی عزت لوٹنے کا خوف بدستور قائم رہتاہے ۔دوسری طرف ہم نے اپنے مذہب کو فالو کرنے میں بھی کام چوری اور منافقت سے کام لیا۔ ہم اگر مذہب کی صحیح معنوں میں پیروی کرتے تو آج ہمارے بیچ دیانت کے ایک معمولی واقعے کے پیش آنے کے اوپر ہم مہینوں تک عش عش نہیں کررہے ہوتے ۔مذہب صراط مستقیم پر چلنے کا سب سے بہترین راستہ ہے اور سچی بات یہ ہے کہ ہم نے اس راستے پر چلنے کا عہدتو کیاہوا ہے لیکن چلنے کی عادت نہیں ڈالی ہے ۔اور پھر فتنوں کے اس دور میں تو اور بھی ہم بے لگام اور لاپرواہ بن چکے ہیں کہ فقط نام ہی کے مسلمان بن کر رہ گئے ہیں۔ اپنی سماج کی رگ ِ جاں میں رچ بس جانے والی خیانت، دھڑا دھڑ بے انصافیوں اور مسلسل وقوع پذیر ہونے والی بے اعتدالیوں کو دیکھ کر مجھے پیارے آقارسالت مآبؐ کی وہ قیمتی احادیث یاد آتی ہیں جو ہمارے کرتوتوں پر حرف بہ حرف صادق آتی ہیں۔ ایک موقع پر آپؐ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ’’ میری امت پر ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ امانت داروں کا فقدان ہوگا، یہاں تک کہ یوں کہاجائے گا کہ فلاں مقام پر ایک امانت دار شخص رہتاہے ‘‘(بخاری)۔اس حدیث مبارک کا سادہ سا مطلب یہ ہوسکتاہے کہ امانت دار لوگ اتنے کم ہونگے کہ دوربین کی مدد سے بھی نظر نہیں آئیں گے ۔ معاشرے میں خال خال دیانتدار اور امانت دار لوگ دیکھنے کو ملیں گے ۔یا بالفرض اگرایسے میں رحمت اللہ مسعود جیسا دیانتدارپولیس آفیسر شخص سامنے آئے گا تو ہر طرف سے ان کے اس مبارک عمل کے اوپر حیرت کا اظہار ہوگا اور ہرکسی کو یہ ایک انہونی بھی لگے گی۔