یکسوئی ہمیں حاصل نہیں‘ ہرگز نہیں‘ ورنہ یہ جلاوطن کشمیری حکومت کی احمقانہ تجویز کبھی پیش نہ کی جاتی۔ مظفر آباد کی منتخب حکومت کیا ایک مکمل نمائندہ حکومت نہیں‘؟کشمیری مہاجرین کے لئے جس میں ایک تہائی نشستیں مختص ہیں۔ ژولیدہ فکری ہے‘ژولیدہ فکری ! کشمیر پہ حکومتی اقدامات ناقص تونہیں مگر ناکافی ضرورہیں۔ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ایک بھر پور سفارتی مہم چلانے سے ہم نے گریز کیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا فرمان ہے کہ پاکستان کے پاس اس کے لئے کافی وسائل نہیں۔ سبحان اللہ‘ وسائل کا کیاسوال؟ کیا اس مقصد کے لئے اربوں‘ کھربوں روپے درکار ہیں؟کم ہمّتی کو تاویلیں بہت۔ واشنگٹن پوسٹ ‘ نیو یارک ٹائمز‘ لندن ٹائمز‘ گلف نیوز اور عرب نیوز میں مضامین شائع کرنے کے لئے کتنا روپیہ درکار ہے؟۔ بعض سرکاری ترجمان یہ کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی اب تک بروئے کار آنے والے سب وزرائے خارجہ سے زیادہ متحرک ہیں۔کیا کہنے‘ کیا کہنے! رتی برابر صداقت بھی اس دعوے میں نہیں۔ خورشید محمود قصوری کی طرح‘ وزیر خارجہ کو اپنی تمام تر توانائی‘ اپنے فرائض کے لئے مختص کرنی چاہیے۔ بالکل برعکس قریشی صاحب کئی محاذوں پر الجھتے رہتے ہیں۔ ملتان کی سیاست میں وہ سرگرم ہیں۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے خواب سے بھی دستبردار نہیں ہوئے۔ کبھی تو وزارت عظمیٰ کا سپنا بھی دیکھتے ہیں۔ باخبر لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کارخیر کے لئے اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی سرگوشیاںکرتے رہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ درپیش حالات میں‘ اس منصب کے لئے وہ موزوں ہی نہیں۔ ہمیں ایک زیادہ یکسو رہنما کی ضرورت ہے۔ سب کچھ بھلا کر‘ جو فقط کشمیر کاز میں مگن رہے۔تمام تر ذہنی اور جسمانی توانیاں نچوڑ دے۔ در دلِ خویشِ طاہرہ گشت و ندید جز ترا صفحہ بہ صفحہ لابہ پردہ بہ پردہ توبہ تو یہ فارسی زبان کی اس ساحرہ قرأۃ العین طاہرہ کا شعر ہے: اپنے دل میں جھانک کر میں نے دیکھا کہیں بھی تیرے سوا کچھ نہ پایا۔ اقبالؔ نے کہا تھا: آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق شاخ ِگل میں جس طرح بادِسحر گاہی کا نم 5اگست 2019ء کے ظالمانہ اقدامات کے بعد نریندر مودی نے آٹھ نو ملکوں کے دورے کیے۔ خود کو کشمیریوں کا سفیر قرار دینے والے وزیر اعظم تو الگ‘ جناب شاہ محمود قریشی نے کتنے دارالحکومتوں کو اعزاز بخشا۔ کورونا تو ابھی کل کی بات ہے۔ اس سے پہلے کاکوئی سا کارنامہ؟ جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں برپا ہے‘ سبقت اس میں بھارت نے کی۔ ہم نے کیا کیا؟ پینتالیس برس ہوتے ہیں۔ قیام پاکستان کے مخالف ایک رہنما نے ارشاد کیا:قائد اعظم نے اے بی سی فارمولا تسلیم کر لیا تھا‘ جس کے تحت بھارت کو متحد رہنا تھا۔ بے ساختہ ایک سامعی نے جواب دیا:یہ قائد اعظم محمد علی جناح تھے‘ جنہوں نے چیلنج پیدا کیا تھا۔ اے بی سی فارمولا اس کا جواب تھا۔ قیام پاکستان کے بیج جس میںموجود تھے۔دس برس کے بعد صوبوں کو علیحدگی کا اختیار تھا۔ ظاہر ہے کہ مسلم اکثریت کے صوبے ہی یہ اقدام کرتے ۔ سرکاری لوگ یہ کہتے ہیں کہ جنگ کے لئے حالات سازگار نہیں۔ معیشت ہماری کمزور ہے اور دنیا ہماری ہم نوا نہیں۔ کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل کہتا ہے اس سے کون مسلماں کی موت مر کون آپ سے کہتا ہے کہ جنگ کیجیے ۔ اپنی کمزوری کا مگر اعلان تو نہ فرمائیے۔انداز فکر کی خرابی تو ہی اصل خرابی ہوتی ہے۔ حکمران جماعت کو کس نے روکا ہے کہ معیشت کو مضبوط نہ کرے۔ کرپٹ لیڈروں کا احتساب اپنی جگہ‘ کاروباری طبقات میں خوف پیدا کر کے کاروباری عمل کو مجروح کرنے کا ذمہ دار کون ہے ۔حریفوں کی بربادی اور اپنوں کو پناہ دینے کا پیہم تقاضا ‘باطنی عدم تحفظ ۔ بھارت کی کمزوریاں اور تضادات اس سے کہیں زیادہ ہیں‘ جتنی کہ پاکستان بلکہ آنجہانی سوویت یونین کی۔ ہندو توا نے ہندوستان کو تقسیم در تقسیم کی راہ پر ڈال دیا ہے۔20‘25کروڑ مسلمان تو الگ کہ زیادہ سفاکی کا ہدف ہیں، سکھ‘عیسائی اور بدھ بھی خوف کا شکار۔ تیس چالیس کروڑ دلت ان کے سوا ہیں۔ وہ کبھی ہندو مت کا حصہ تھے اور کبھی نہ بن سکیں گے۔ بنگالی قوم پرستی بہت طاقتور ہے ۔ حالات موزوںملیں تو بال و پر نکال سکتی ہے۔ بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کشمیر میں کھپ چکی اور الگ نہیں ہو سکتی۔256اضلاع میں علیحدگی کی تحریکیںبرپاہیں۔ ہندوستان ایک مصنوعی ریاست ہے۔ تین ہزاربرس پہلے کی ایک استثنائی مثال کے سوا‘ بھارت کبھی ایک ملک نہ تھا۔ محمد بن قاسم کے بعد بھی ‘ اڑھائی سو برس تک‘ سندھ میں مسلمانوں کی حکومتیں بنتی بگڑتی رہیں۔ پھر غزنی کا محمود اٹھا اور سترہ بار اس نے ہندوستان کو پامال کیا۔حتیٰ کہ لاہور میں مستقلاًمیں اپنا گورنر متعین کر دیا۔وہی ایاز جو ایک اساطیری کردار ہے ۔اس کے باوجود بھارت متحد نہ ہو سکا۔ پھر شہاب الدین غوری نمودار ہوا۔سات سو برس تک مسلمانوں نے حکومت کی تو متحدہ ہندوستان وجود میں آیا۔ مسلمان اشرافیہ بگڑ گئی تو یہ سرزمیں انگریزوں کو ورثے میں ملی ۔معروف معنی میں انگریزوں کا ہندوستان بھی ایک متحدہ ملک نہ تھا۔سینکڑوں اس میں راجواڑے تھے۔ خود پاکستان میں سوات‘ بہاولپور‘ خیر پور اور قلّات۔تین لاکھ آبادی والی خیر پور بھر پور ریاست تھی ۔ تیس اس میں کارخانے قائم تھے۔ پانچ لاکھ مریضوں کے لئے ہسپتال۔سوات بھی اور بہاولپور بھی نمود پذیرتھے ۔ ہندوستان نہیں‘اب حالات پاکستان کے لئے سازگار ہیں ۔طالبان کو نمائندہ قوت تسلیم کرنے کے بعد‘ امریکہ کی وسطی ایشیا پالیسی سے بھارت بے دخل ہوچکا۔ تہران نے دہلی کو خیر باد کہہ دیا۔ بنگلہ دیش میں چین 60ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ۔ سری لنکا ہندوستانی دبائو سے رہائی کے لئے تڑپ رہا ہے۔دو برس پہلے کوالالمپور جاناہوا۔ انہیںپاکستان پہ نثار ہوتے دیکھا۔ دست کاری کے ایک مشہور سٹور میں خریداری کے دوران‘ منیجر صاحب نے پہلے پانچ فیصد پھر دس فیصد اور آخر کار پندرہ فیصدرعایت کا حکم دیا۔ اس پر بس نہیں۔ گاڑی تک چھوڑنے آیا اور کسی فرمائش کے لئے اصرار کرتا رہا۔ جب تک ایک تجویز نہ دے دی‘ نہایت محبت کے ساتھ ذہنی تعاقب جاری رکھا۔ نیپال نے ایک نیا نقشہ جاری کر دیا ہے۔ مشرقی پنجاب کی مزاحیہ اور رومانی فلموں میں ہندوستان کا کوئی حوالہ نہیں ہوتا‘ صرف پنجاب کا۔ سکّم اور بھوٹان کیا برہمن سامراج کے دبائو سے رہائی کے آرزو مند نہیں؟۔ خود پاکستان میں صورت حال یہ ہے کہ ابھی کل تک گلے پھاڑ پھاڑ کر‘ اپنے وطن کی تحقیر اور حیلے بہانے سے بھارت کی تائید کرنے والے احساس کمتری کے مریض‘چپ سادھ چکے۔ سوویت یونین کے سرخ فلسفے کی معنوی اولادجوامریکہ کی گود میں جا اتری ہے۔ جی ہاں حکومت پاکستان بھی آزادیٔ کشمیر کی خواہاں ہے مگرعشر عشیر بھی کیانہیں۔ جو کچھ ممکن تھا اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ چھ عشروں سے مقتل میں سروقد کھڑے سید علی گیلانی کے لئے‘ نشانِ پاکستان کا اعلان ہے۔ بہت اچھا کیا مگر وہ اس سے کہیں زیادہ کے مستحق ہیں۔ قائد اعظم کے بعد وہ سب سے بڑے پاکستانی ہیں۔ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ایک شاہراہ ان سے منسوب ہونی چاہیے یا کسی ممتاز کشمیری شہید سے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر روز لہو میں نہاتے کشمیریوں کاقرض ہم ادا کرہی نہیں سکتے۔ کامل خلوص اور کامل ایثار میں گندھی کچھ قربانیاں ایسی ہوتی ہیں‘ آدمی نہیں‘ پروردگار ہی جن کا اجر عطا کرتا ہے۔ یہ ترجیحات کے تعین کا سوال ہے۔ کیا کشمیر ہماری اولین ترجیح ہے؟ اگر ایسا ہے تو داخلی تضادات اور کشمکش کو محدود کرنا چاہیے۔ یکسوئی ہمیں حاصل نہیں‘ ہرگز نہیں‘ ورنہ یہ جلاوطن کشمیری حکومت کی احمقانہ تجویز کبھی پیش نہ کی جاتی۔ مظفر آباد کی منتخب حکومت کیا ایک مکمل نمائندہ حکومت نہیں‘؟کشمیری مہاجرین کے لئے جس میں ایک تہائی نشستیں مختص ہیں۔ ژولیدہ فکری ہے‘ژولیدہ فکری !