افغان امن کی کنجی(چابی) مضبوط مستحکم اور نظریاتی پاکستان میں مضمر ہے۔ یعنی افغان امن پاکستان میں امن‘سلامتی اور ترقی کا ضامن ہے اور یہی امر پاک افغان سٹریٹجک گہرائی کی نشانی ہے۔ گو آج پاکستانی انتظامیہ کا اعلامیہ ہے کہ موجودہ پاک انتظامیہ نے عشروں پر محیط افغان سٹریٹجک گہرائی کے تصور کو تبدیل کر دیا ہے۔ یہ کہانی عشروں کی نہیں صدیوں کی ہے۔ نیز پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے اور چاہتا ہے کہ امریکی فوجی انخلاء سے پہلے افغانستان میں جمہوری حکومت قائم کی جائے کیونکہ افغان طالبان امریکی فوجی انخلاء کے فیصلے کو اپنی جیت قرار دیتے ہیں اور بعدازاں پاکستان کو افغان طالبان سے تعلقات اور معاملات میں دشواری ہو گی۔ لہٰذا پاکستانی انتظامیہ یکدم امریکی انخلا سے کچھ حیران اور پریشان ہے کہ اگر افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کا شکار ہوا تو پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان امن علاقائی اور بین الاقوامی امن کی کلید بھی ہے۔ یہ امن کیسے اور کیونکر آئے گا۔ اس کے لئے حقائق سے آگاہی ضروری ہے۔ پاکستان کے قومی شاعر اور مفکر علامہ اقبال نے کابل کو ’’کلید ایشیا‘‘ قرار دیا ہے اور کہا کہ جو کابل پر حکومت کرے گا وہ فی الحقیقت ایشیا پر حکومت کرے گا۔ افغانستان پر امریکی حملہ اسی حقیقت کی جانب نشاندہی تھی اور آج امریکی حملہ اور انخلا بھی اسی کا اظہار ہے۔ رہا معاملہ پاکستان کی افغان سٹریٹجک گہرائی کا تصور تو یہ ماننے اور نہ ماننے پر منحصر نہیں۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف اور کمانڈو صدر جنرل پرویز مشرف نے ’’شکست بہ نیم شب تسلیم کی اور غیر مشروط امریکی حلیف بنتے وقت یہی بات کی تھی کہ اب حالات اور معاملات بدل گئے ہیں اور افغانستان اب پاک افغان سٹریٹیجک گہرائی کا روایتی تصور بدل گیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں مجاہد حکمران ملا عمر کی حکومت ختم کرنے کے لئے پاکستانی انتظامیہ سے لاجسٹک امداد کے نام پر پاکستان کے بیشتر فوجی ایئر پورٹ اور محفوظ فوجی اور اسلحہ سپلائی لائن کے لیے پاکستانی انتظامیہ کو بہر طور ہمنوا بنایا اور بعدازاں کابل میں امریکی حلیف اور ہمنوا کٹھ پتلی قائم کی۔ اس افغان کٹھ پتلی حکومت کی حیثیت اور حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے نام نہاد افغان کٹھ پتلی حکومت کو نظر انداز کیا اور پاکستان کی حمایت اور معاونت سے امریکی سینٹ کام Contcomیعنی ایشیا میں امریکی فوجی ہیڈکوارٹر نے قطر کے شہر دوحہ میں مذاکرات کیے اور مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کا اعلامیہ جاری کئے بغیر فوجی انخلا کا فیصلہ کیا ،جس نے پاکستان سمیت خطہ کو دوبارہ شدید خطرات اور خدشات میں مبتلا کر دیا ہے۔پاکستان کی مجبوری یا بے بسی کا عالم تو یہ ہے کہ:عمر ابھی نہ جائو چھوڑ کے کہ دل ابھی بھرا نہیں۔ نیز پاکستانی عوام اس افواہ پر بھی یقین کرنے لگے کہ پاکستان نے امریکی سرکار کو مزید فوجی و فضائی اڈے دیدئے ہیں اور اس افواہ کی امریکی انتظامیہ برملا تصدیق کرتی پھرتی ہے۔ پاک افغان سٹریٹجک گہرائی کی حقیقت پرانی روایت ہے جس کو جھٹلانا سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے۔ گوادر اور سی پیک کے تناظر میں مذکورہ سٹریٹجک گہرائی کھلی حقیقت بن گئی ہے۔ پاک افغان بلکہ جنوبی ایشیا کے ساتھ ساتھ مذکورہ خطہ عالمی سیاست‘تجارت کا محور وقعت نمایاں تر ہوئی ہے۔ کابل کا راستہ اسلام آباد یا چک لالہ پنڈی سے گزرتا ہے۔ پاک افغان سٹریٹجک اہمیت کو سمجھنے کے لئے ماضی اور حال کے معاملات‘ واقعات اور حادثات کا تفصیلی مگر غیر جانبدارانہ تجزیہ ضروری ہے۔ خطے کی مضبوط موثر اور طاقتور ترین قوت افغان طالبان ہیں، جن کی حکمت عملی کا معروضی جائزہ پیچیدہ حالات کو سلجھانے اور امن کے حصول کیلئے شرط اول ہے۔ افغان طالبان نے دنیا سے اس حقیقت کو منوایا ہے کہ وہ پاکستان کی حمایت اور مخالفت کے باوجود اپنی مزاحمت استقامت کے ساتھ قائم رکھ سکتے ہیں اور ان کی یہ جیت اس امر میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے افغان انتظامیہ اور اقتدار کا بوجھ ازخود اتارا اور پہاڑوں‘غاروں کے مکین بن کر افغانستان کے اندر حملہ آور امریکہ و اتحادی قوتوں کے خلاف کامیاب گوریلا جنگ لڑی۔ امریکہ نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ افغانستان میں رہ کر افغان طالبان سے لڑ کر جیتنا ناممکن ہے لہٰذا امریکہ ’’محفوظ انتظامیہ کے سائے تلے دشمن طالبان کو زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ امریکہ و اتحادی ممالک بشمول اسرائیل افغانستان میں شکست تسلیم کرنے اور واپس جانے کیلئے نہیں آیا تھا ،اب امریکہ نے پینترا بدلا ہے،جس میں زیادہ نقصان پاکستانی ریاست اور عوام کا ہے مگر اس دوران پاکستانی انتظامیہ کے لئے دور حاضر پل صراط پر چلنے سے کم نہیں۔ پاک افغان سٹریٹجک گہرائی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ تنہا افغانستان اپنی آزادی قائم نہیں رکھ سکتا۔ ماضی قریب نے اس حقیقت کو بار بار اجاگر کیا ہے کہ عالمی طاقت روس نے افغانستان پر حملہ کیا اور پاکستان کی ضیاء الحق انتظامیہ کے اصولی‘ اخلاقی اور سفارتی پالیسی کے ہاتھوں شکست کھائی جبکہ روس تقسیم ہند اور قیام پاکستان کا حامی تھا کہ کمزور پاکستان اور افغانستان آہنی روسی حملے کا لقمہ تر ہو گا مگر معاملہ برعکس نکلا اور پاکستان کی کامیاب عالمی سفارتکاری نے رخ بدل دیا۔ قیام پاکستان کے حوالے سے ایک غیر ملکی صحافی نے کرم داس گاندھی(مہاتما گاندھی) سے کہا کہ پاکستان دہلی کی قوت کے سامنے ایک کمزور خیمہ اور کیمپ کی حقیقت رکھتا ہے، جب چاہیں آزاد پاکستان کو دبوچ لیں۔ گاندھی نے جواب دیا کہ مسلمانوں کے روایتی فکر و عمل کے پیش نظر پاکستان قائم کر کے ختم کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ کیونکہ پاکستان کے شمال میں افغانستان اور وسط ایشیائی اسلامی (فی الحال روسی و اشتراکی) ہوں گی اور مغرب میں مشرق وسطیٰ سے مراکش اور مسلم افریقہ کی مذہبی روایت یکجان ہو کر کھڑی ہو گی۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا ادراک قائد اعظم ‘علامہ اقبال اور ضیاء الحق کو تھا۔ قائد اعظم نے مصر میں’’وفد پارٹی‘‘ کی قیادت کو بتایا کہ تحریک پاکستان بالواسطہ نہر سویز کی حفاظت کی جنگ بھی ہے۔ اگر کراچی میں (خاکم بدھن) ہندو بھارت ہو تو مشرق وسطیٰ تا مراکز کوئی محفوظ نہیں۔ اس لئے قائد اعظم نے امریکی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پاکستان عالمی سیاست و تجارت کا مرکز ہو گا اور حالات و واقعات نے اسی حقیقت کو واضح تر کیا ہے۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور سے پاکستان میں انتظامی تبدیلی افغان مسئلہ کے تناظر میں بدلی گئی ہے۔ یہ لمبی کہانی ہے اسے کسی دوسرے کالم میں لکھوں گا۔ پاکستان اور سعودی عرب نے ملا عمر کی طالبان حکومت کو تسلیم کیا اور آج 1990ء کے عشرہ پاکستان اور سعودی عرب یکسر بدل گیا ہے بلکہ یو ٹرن پالیسی کا قیدی ہے۔بقول اقبال: وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا