سعودی عرب میں انویسٹمنٹ فورم اور مڈل ایسٹ گرین انیشٹیو سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے جہاں ماحولیاتی مسائل کو دنیا کے لیے مشترکہ خطرہ قرار دیا وہاں تنازع کشمیر کے حل نہ ہونے سے عالمی امن کو لاحق خطرات کا تذکرہ بھی کیا۔ وزیراعظم نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان،بحرین کے وزیر اعطم اور امریکی نمائندہ خصوصی جان کیری سے الگ الگ ملاقات میں اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان ماحولیات وسعودی عرب کی سلامتی کے تحفظ کے لیے بھرپور کردار ادا کرے گا۔ صاف پانی‘ ماحولیات‘ بھوک اور قدرتی آفات سے تحفظ جیسے معاملات ان ریاستوں کی اولین ترجیح ہیں جو اپنے ہمسائیوں کے ساتھ ہر نوع کے تنازعات پرامن انداز میں طے کر چکی ہیں جو جنگ کا باعث بن سکتے تھے۔ پاکستان اور بھارت کی مجموعی آبادی ڈیڑھ ارب ہے۔ دونوں کے جھگڑے کی وجہ سے پورے جنوبی ایشیا کی ترقی اس رفتار سے نہیں ہو سکی جس کی مقامی معیشتوں میں استعداد تھی۔ بھارت میں جی ڈی پی کی شرح ضرور بہتر ہوئی ہے لیکن وہاں اب بھی ایسے افراد کی تعداد ساٹھ کروڑ سے زیادہ ہے جن کی روزانہ آمدن ایک ڈالر سے کم ہے۔ معاشی اصطلاح میں ایسے افراد کو غریب کہا جاتا ہے۔ بھارت نے ان غریبوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کی بجائے ریاستی وسائل جنگی ٹیکنالوجی اور ہتھیار خریدنے پر خرچ کئے ہیں۔ بھارت دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک میں شامل ہے۔ ایسا نہیں کہ پاکستان کی معاشی حالت بہت اچھی ہے۔ غربت کا تناسب پاکستان میں بھی بھارت جیسا ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں تعلیم‘ صحت اور روزگار کے مسائل پاکستان میں دیہی آبادی کے شہروں کی طرف منتقل ہونے کی بڑی وجہ ہے۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں تیل کی دولت کم ہونے کے بعد شہری اور معاشی مسائل سر اٹھانے لگے ہیں۔ ان مسائل سے نجات کے لیے سعودی عرب نے 10ارب درخت لگانے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ پاکستان کو اس سلسلے میں تجربہ ہے اس لیے شجرکاری اور ماحولیاتی منصوبوں میں پاکستان کی شمولیت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ ماحولیاتی معاملات کے ساتھ وزیراعظم نے جناب جان کیری سمیت اہم بین الاقوامی رہنمائوں کے سامنے تنازع کشمیر سے جڑے خطرات پیش کئے۔ دنیا کے بہت سے ادارے اور اہم شخصیات اس بات میں دلچسپی رکھتی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی دشمنی کی بنیاد کتنی گہری ہے اور اس دشمنی کا خاتمہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے قطعی اور جامع جواب ایسے حلقوں کے لیے دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کردیا جائے تو پاکستان کا بھارت سے کوئی جھگڑا نہیں۔ یعنی کشمیر کا تنازع حل ہو جائے تو پاکستان اور بھارت اپنے بجٹ کا بڑا حصہ دفاعی تیاریوں پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے پر خرچ کر سکیں گے۔ اس سے پیداواری عمل تیز ہوگا۔ امن قائم ہوگا‘ سرمایہ کاری بڑھے گی۔ ریاست کا خزانہ بھرے گا۔ ہر علاقے میں تعلیمی ادارے‘ ہسپتال اور سڑکیں بنیں گی تاہم اس کے لیے لازم ہے کہ تنازع کشمیر کے حل کے لیے صرف پاکستان سے تقاضا نہ کیا جائے بلکہ بھارت پر زور دیا جائے کہ وہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے روبرو کئے گئے وعدوں کو پورا کرے۔اس وقت مقبوضہ کشمیر کی حالت یہ ہے کہ سوا دو سال ہو گئے بھارت سکیورٹی فورسز نے کشمیر کے چپے چپے پر فوج تعینات کر رکھی ہے۔ بھارت نے سکیورٹی کونسل سے وعدوں کی تکمیل کیا کرنا تھی الٹا شیخ عبداللہ اور مہاراجہ ہری سنگھ سے کئے گئے ان وعدوں کو بھی فراموش کردیا جن کو الحاق کی دستاویز اور بعدازاں بھارتی آئین میں 35 اے اور شق 70 3کی صورت میں سمویا گیا۔ بھارت نے طاقت کے زور پر کشمیری باشندوں کو دبا رکھا ہے۔ کشمیری باشندوں نے ہر موقع پر کھل کر بتایا کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہیں۔ کشمیری باشندے فوت ہونے پر پاکستانی پرچم کو اپنا کفن بنانے کی وصیت کرتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ میچ جیت جائے تو آتش بازی اور چراغاں کرتے ہیں۔ پاکستان اور کشمیری باشندے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ بھارت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ دونوں کو الگ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو جب کبھی بین الاقوامی فورمز پر بات کرنے کا موقع ملتا ہے وہ کشمیر کے تنازع پر اپنا موقف ضرور پیش کرتا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے جب کبھی کشمیر کے تنازع کے حل کی خاطر مذاکرات پر رضا مندی ظاہر کی تو بھارتی قیادت نے اپنے قدم پیچھے ہٹا لئے۔ کشمیر پر بات چیت تو درکنار کنٹرول لائن پر کشیدگی برقرار رکھ کر بھارت معاملے کو دراندازی اور دہشت گردی سے جوڑ رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی انتخابات کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ نئی ریاستی اسمبلی میں اپنے آلہ کار افراد کو کشمیریوں کا منتخب نمائندہ بنا کر بھیجا جائے اور پھر ان نام نہاد نمائندوں سے ایسی قانون سازی کرالی جائے جس سے بھارت کے لیے کشمیر کو ہڑپ کرنا آسان ہو سکے۔ دوسری طرف بھارت کے وزیر خارجہ امیت شاہ کشمیریوں کو دھوکا دے رہے ہیں کہ ریاستی انتخابات کے بعد کشمیر کی سابق آئینی حیثیت بحال کردی جائے گی۔ بھارتی وزیر داخلہ کے وعدوں پر بھارت نواز کشمیری رہنما عمر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی یقین کرنے کو آمادہ نہیں۔ امریکہ اور سعودی عرب کے پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں۔ یہ دونوں ممالک اس سلسلے میں مدد کریں تو عشروں سے بھارتی جبر کے شکار کشمیری باشندے آزاد ہو سکتے ہیں۔ کشمیر کا تنازع حل ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت خود ہے۔ یہ تنازع حل ہو جائے تو خطہ ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ ہو سکتا ہے۔