خیال حلقہ زنجیر سے عدالت کھینچ عذاب بار نفس ہے تو پھر ندامت کھینچ ہوائے حرص و ہوس سے نکل کے دیکھ ذرا ضمیر رشتہ احساس سے ملامت کھینچ کچھ کوشش تو کرنا پڑتی ہے وہی جو منیر نیازی نے کہا تھا کہ اچھی کتاب برے آدمی سے اپنے معنی چھپا لیتی ہے۔بعض اوقات اچھا شعر بھی اسی طرح کا ہوتا ہے۔جلدی کھلتا نہیں ہے۔ سخن توجہ تو مانگتا ہے۔ ایک تو ظاہری خوبصورتی ہوتی ہے جو موسیقی پیدا کرتی ہے اور پھر بات باطن تک پہنچتی ہے اور قاری کو سرشار کر جاتی ہے کچھ سر تو مارنا پڑتا ہے۔ احساس کا دریجہ تو وا کرنا پڑتا ہے اور کہیں لو تو لگانا پڑتی ہے۔ دائرہ مار کر ایک فضا تو قائم کرنا پڑتی ہے: بفیض صحبت رومی و حافظ و بیدل بمثل غالب و اقبال تو ریاضت کھینچ یہ کائنات پردہ زنگاری پہ رکھی ہوئی لطافت کثافت کے لبادے ہی میںعیاں ہوتی ہے اور پھر آنکھ وا کرنے کی ضرورت ہے کثرت نظارہ ضروری ہے تسخیر کائنات ایک عجیب تجربہ ہے کہ بندے کو بھر دیتا ہے مجھے دکھ ہوتا ہے جب میں کتابوں سے ہٹ کر دیگر کاموں میں خرچ ہونے لگتا ہوں۔ کتابوں سے ڈر بھی لگتاہے بارہا خیال آتا ہے کہ ایک گونہ بے خودی بھی ضروری ہے۔ وہی حافظ کی طرح کتاب مگر دوسرے لوازمات کی ضرورت۔ شاید مجھے محسوس نہ ہو۔ کچھ حد بندیاں کہ وہی پابہ گل ہونا اور فضا میں آزاد ہونا ۔یہی مطالعہ وقت کا بیرئیر توڑ دیتا ہے جیسے تخیل مکاں کا، آواز کا بیرئر تو جہاز بھی توڑ دیتا ہے آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں یہ کیا لکھتا جا رہا ہوں کیا کروں: بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں میں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا مجھے کوئی دعویٰ نہیں کہ عامر خاں خاکوانی کی طرح کتاب کی دنیا کا آدمی ہوں مگر آرزو تو رکھتا ہوں۔ خوں جلایا ہے رات بھر میں نے لفظ بولے ہیں تب کتابوں سے ،آپ یقین کیجیے کہ میرے اردگرد کتاب اور رسائل اکٹھے ہوتے جا رہے ہیں مگر افسوس کہ وقت کے مصارف بھی بکھر گئے ہیں۔ مجھے اخبارات بھی دیکھنی ہوتی ہیں اور سوشل میڈیا کے ساتھ بھی رہنا ہوتا ہے کہ اگر میں پڑھ کر کالم نہیں لکھوں گا تو کوئی بھی اسے کیوں پڑھے گا۔ بغیر پڑھے تو کسی کتاب کا دیباچہ یا فلیپ ہی لکھا جا سکتا ہے وہاں یہ چل جاتا ہے وگرنہ آپ پطرس کا مضمون میبل اور میں پڑھ کر دیکھ لیں ۔ منیر نیازی کی سالگرہ پر اپنے محبوب شاعر منیر نیازی کی یاد کچھ زیادہ ہی آئی۔ جب میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کر رہا تھا تو واحد پناہ گاہ نیازی صاحب کا گھر تھا وہ ادھر ادھر سے آئی ہوئی کتب میرے لئے رکھ چھوڑتے۔ وگرنہ میں کہاں سے خریدتا۔ وہ تو غالب اور میر کو بھی کم پڑھتے کہ متاثر نہ ہو جائیں۔ آج مگر میں منیر نیازی پر نہیں لکھ رہا۔ ایسے ہی ایک خیال آ گیا کہ وہ غیر شاعرانہ لفظ کو بھی استعمال کرتے تو کمال کر دیتے۔ مثلاً ذرا دیکھیے کہ انہوں نے چیل کو کس کا استعارا کیا۔ وہی بقول شہزاد احمد شہزاد دیکھ کر مجھ کو تیرے ذھن میں آتا کیا ہے۔ کیا منظر نامہ یا پھر منظر آپ کی آنکھوں میں آتا ہے: اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے خاص طور پر موجودہ زمانے میں کہ لاک ڈائون نہیں تو اس کی بازگشت ضرور ہے۔ ایک ابتری اور ایک بے آرامی سب کچھ سامنے عیاں ہے۔ یعنی حقیقت کی صورت کشی کے لئے کسی جام جمشید کی ضرورت ہے اور نہ غالب کی طرح کہنے کی اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا۔ خیر غالب کا مقصد تو کچھ اور تھا پچھلے دور میں کچھ قیمتیں فکس ہوئی تھیں اور پھر وہ اشیا غائب ہو گئی تھیں اور بلیک میں دوگنا قیمت پر ملتی ہیں کہنے والے درست کہتے ہیں کہ یہ عدلیہ کا کام نہیں بلکہ حکومت کی انتظامیہ کا ہے۔ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ یہ ماضی کے مافیاز ہیں تو جناب پیچھے زرداری اور نواز شریف کے دور میں چینی کی قیمتیں اس رفتار سے نہ بڑھتی تھیںیہ مافیا اب کیوں اتنا فعال ہو گیا: ہم تو پہلے ہی ترے حق میں تہی دست ہوئے ایسے گھائل پر نشانے کی ضرورت کیا تھی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے مثلاً قرضوں کی داستان میں نے وزیراعظم کی زبان سے بھی سنی اور مفتاح سے بھی۔دلچسپ سوال ریحانہ کنول نے اٹھایا کہ پاکستان کے قرضے ستر سال میں 30ہزار ارب تھے جسے حکومت نے بڑھا کر 45 ہزارارب کر دیئے ۔ ویسے دلچسپ صورتحال ہے لیکن اس سب کے باوجود حکومت کے معاشی اشاریے آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔ بڑے کہتے ہیں سچ کو ہمیشگی حاصل ہے حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ سچ بولو کہ یاد نہیں رکھنا پڑتا۔ مگر ہمارے ہاں چلن یہ ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ لگنے لگے بلکہ سچ کو جھوٹ سن کر ہی غش پڑنے لگے۔ باہر جاتے ہوئے کرپشن کے پیسے اڑھائی سال سے رکے ہوئے ہیں مگر کہاں ہیں کسی کو معلوم نہیں۔ میرے پیارے قارئین!سچ واقعتاً بہت خوبصورت ہوتا ہے کیٹس Keatsنے تو سچ کو خوبصورت کہا ان سے تو ہمارا اوپنر فخر زماں کتنا اچھا ہے کہ اس نے کمال کا بیان دیا کہ لوگ جنوبی افریقہ کے کیپر ڈی کاک کو برلا بھلا نہ کہے۔قصور ان کا اپنا تھا کہ انہوں نے مڑ کر ڈی کاک کو دیکھا اور رن آئوٹ ہو گئے یہی بڑا پن ہے وگرنہ ساری دنیا نے ڈی کاک کو بے ایمان اور چیٹرکہا۔ ہمارے خان صاحب نے بھی سب کے احتساب کے لئے کہا اور اپنے قریبی ترین دوست کو بھی نہیں چھوڑ دیا۔ لوگوں کے گرد مہنگائی نے گھیرا ڈال رکھا ہے۔ اب ایک اور زبردست جھٹکا بجلی 3.34روپے فی یونٹ مہنگا ہونے کی صورت میں لگے یہ آئی ایم ایف کو یقین دہانی نہیں بلکہ ان کے حکم کو پوراکرنا ہے۔ عوام کا مقابلہ کرنے کے لئے پیسے اوپر ہی صرف ہو رہے ہیں اس پر سوچئے گا۔ ایک شعر منیر نیازی کا: حسن تو بس دو طرح کا خوب لگتا ہے مجھے آگ میں جلتا ہوا یا برف میں سویا ہوا درمیان میں کچھ نہیں