ایک تھا بادشاہ۔ سارے بادشاہوں کی طرح بہت امیر‘بہت خوب صورت سرخ و سفید.... ملکوں ملکوں گھومتا‘اللہ کی زمین کی سیر کرتا‘ خوب صورتیوں اور دلکش مناظر سے لطف اندوز ہوتا۔ جہاں جاتا وہاں سے خیالات سمیٹ کر لاتا‘پھر اپنے ملک میں تجربے کرتا‘ الغرض بادشاہ اور اس کے عزیز و اقارب بڑے مزے سے زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کے دن عید اور راتیں شب برات تھیں ۔مال ومتاع سے اتنا کہ قیامت تک مفلسی کا کوئی ڈر نہیں تھا۔ اس کے اشارے پر نیچے کی زمین اوپر اور اوپر کی نیچے کر دی جاتی۔ گویا سب ہنسی خوشی رہنے لگے تھے۔ اچانک ایک رو زمحل کے باہر ملک کے عوام جمع ہو گئے۔ نعرے لگنے لگے۔ ہائے ہائے کی آوازیں ابھریں تو بادشاہ سلامت بالکونی میںتشریف لائے (واضح رہے کہ ان دنوں ٹی وی نہیں تھا ورنہ بادشاہ سلامت براہ راست قوم سے خطاب فرماتے تھے) انہوں نے کھا جانے والی نظروں سے مجمعے کو دیکھا اور چنگاڑکربولے ’’کیا بات ہے؟‘‘ مجمعے سے آواز ابھری:۔ ’’حضور کی شان سلامت رہے‘ اقبال بلند اور زندگی دراز ہو‘ اور اولاد پھلے پھولے،رعایا کے گھروں میں بھوک اگنے لگی ہے‘ افلاس نے خار دار جھاڑیوں کا روپ دھار لیا ہے‘ بچے بھوک سے بلک رہے ہیں‘ حضور والا! آپ خزانہ عامرہ کے ذمے دار کو حکم صادر فرمائیں کہ وہ رعایا کو آپ کے قدموں پر وار کر کچھ توشہ رعایا کو عطا کرے۔‘‘ مجمعے کو لیڈ کرنے والے صاحب نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی۔ بادشاہ نے دونوں ہاتھ بلند کیے‘ جیسے کہہ رہا ہو ساری بات سمجھ آ گئی اور پھر عوام سے مخاطب ہوا۔ ’’گھروں میں اگنے والی بھوک کو کاٹ ڈالو‘ جن لوگوں کے پاس درانتی نہ ہو وہ چھری استعمال کریں‘ چھری میسر نہ ہو تو آگ لگا دو‘ افلاس کی جھاڑیوں پر تیل ڈال کر جلا دو‘ بلکتے بچوں کی گردنیں مروڑ دو‘ جائوتمہارے مسائل حل ہوئے۔‘‘ پاس کھڑے ایک مشیر نے بادشاہ کے کان میں کہا۔ ’’حضور! رعایا کا یہ مطلب ہر گز نہیں‘‘ ’’تم خاموش رہو‘ان کا مطلب میں اچھی طرح سمجھتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر بادشاہ نے رعایا پر ایک نظر ڈالی اور خبردار کرتے ہوئے کہا۔ ’’آئندہ کسی نے جلوس نکالنے‘ نعرے لگانے‘ احتجاج کرنے کی جسارت کی تو کالے پانی (واضح رہے کہ ان دنوں اڈیالہ جیل‘ کیمپ جیل‘ سنٹرل جیل وغیرہ نہیں تھے) بھجوا دوں گا۔‘‘ بادشاہ سلامت تھوڑا رکے اور پھر مخاطب ہوئے۔ ’’اگر مجھے کسی کے مزید احتجاج کی خبر ملی تو ناک کان کاٹ کر شہر کی گلیوں میں دھاگے میں پرو کر عبرت کے لیے لٹکا دوں گا۔‘‘ یہ سن کر جلوس تتر بتر ہوگیا۔ بہت دن بیت گئے‘عوام میں بے چینی و اضطراب بڑھنے لگا ۔لوگ احتجاج کرنا چاہتے تھے لیکن کالے پانی اور ناک کان کٹنے کے خوف سے زبانیں گنگ تھیں۔ مجبور و بے بس عوام اپنی ہی جانوں سے کھیلنے لگے۔بادشاہ کو خبر ہوئی تو اس نے اپنے مشیروں کو جمع کیا۔ ’’آخر ماجرا کیا ہے؟‘‘ بادشاہ نے مشیروں سے پوچھا۔ ایک وزیر نے جان کی امان پانے پر عرض کیا۔ ’’حضور! لوگ احتجاج کا راستہ بند پا کر ایسا کر رہے ہیں۔‘‘ ’’احتجاج....‘ میں پوچھتا ہوں یہ کم بخت احتجاج کرتے کیوں ہیں؟‘‘ بادشاہ کے منہ سے جھاگ اڑنے لگی۔ ظل سبحانی! دراصل یہ لوگ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ملک میں غلہ ناپید ہو رہا ہے‘ آٹا نہیں ملتا جو ملتا ہے مہنگا اور ملاوٹ زدہ....‘‘ ’’بکواس بند کرو‘‘ بادشاہ چلایا۔ ’’آٹا نہیں ملتا تو کیک کیوں نہیں کھاتے کم بخت۔‘‘ بادشاہ کے تیور دیکھ کر وزیروں مشیروں نے ہاں میں ہاں ملائی۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ لوگ ’تنگ آمد بجنگ آمد‘ کا نعرہ لے کر اٹھے اور ایسا لاوہ ابلا کہ رعایا ایک روز پتھر اٹھا کر سڑکوں پر نکل آئی۔ وہ اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ بادشاہ بالکونی میں جلوہ گر ہوا‘ رعایا کے ہاتھوں میں پتھر دیکھ کر خوف زدہ تو ہوا لیکن معاً اسے خیال آیا کہ وہ بادشاہ ہے۔ عوام اسے کیا کر سکتے ہیں‘ چہرے پر غضب طاری کرتے ہوئے وہ للکارا۔ ’’کیا بات ہے‘ کیا چاہتے ہو بولو‘ بتائو؟‘‘ لوگ سناٹے میں آگئے‘ زبانیں گنگ تھیں۔ ایک خوشامدی نے آگے بڑھ کر بادشاہ سے جان کی امان چاہی اور عرض کیا۔ ’’حضور! عوام بھوکے ہیں‘ تنگ دست ہیں آپ کی کرم نوازی سے کچھ پتھر کھانے کو میسر آئے ہیں لیکن سالن نہیں کہ کھا سکیں‘ کرم فرمائیے اور سالن کا اہتمام کرا دیں۔‘‘ بادشاہ غضب ناک ہو گیا۔ ’’بکو مت‘ کوئی سالن نہیں ملے گا‘‘۔ ایک مشیر نے جان کی امان مانگی اور تجویز دی’’ظل سبحانی! دو چار دیگیں پکا کر دے دیتے ہیں لوگ سالن سے پتھر چبالیں گیــ‘‘ ’’بکواس مت کرو،اس قوم کو عیاشی کی عادت پڑ گئی ہے،ان کے مزاج مزید خراب نہ کرو‘‘ یہ کہہ کر اس نے گہری سانس لی اور بولا ’’دیکھو! لوگ اگر پتھر کھانے پر تیار ہو ہی گئے ہیں تو روکھے سوکھے کھا لیں گے‘ خدا کی پناہ! ایسا وقت بھی آ چکا ہے کہ اب سالن کے لیے بھی ہمارے محلات پر دستک ہونے لگی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر بادشاہ نے سپاہیوں کو حکم دیا مجمع منتشر کردو۔ پھر وہ مجمع ہمیشہ کے لیے منتشر ہوگیا۔ وہ کہ ایک تھا بادشاہ میرا اور آپ کا اللہ بادشاہ!!