جس رات میں نے پنجابی زبان کے تخلیقی ادیب زبیر احمد کے کہانیوں کے مجموعے ’’کبوتر؛ بنیرے تے گلیاں‘‘ کو پڑھ کر مکمل کیا اس رات مجھے خیال آیاکہ میںاس کتاب کے بارے میں پنجابی میں لکھوں گا۔ حالانکہ میری مادری زباں سرائیکی ہے؛ مگر میں سرائیکی میں نہیں بلکہ اردو اور سندھی میں لکھتا ہوں۔ یہ زبیر احمدکی کہانیاں تھیں جنہوں نے مجھے اس قدر انسپائر کیا کہ میںنے پنجابی میں لکھنے کا سوچا مگر جب آج روزنامہ 92 کے لیے کالم لکھ رہا ہوں تو قلم سے اردو الفاظ ٹپکنے شروع ہوگئے۔ یہ کالم اردو زباں میں ہے مگر میرے دل اس وقت بھی پنجابی زباں میں محسوس کر رہا ہے۔ میں ذاتی طور پر کسی بھی زباں کا مخالف نہیں ہوں۔ جس زباں میں بھی محبت کا اظہار ہوسکتا ہے اس زباں سے نفرت کس طرح جا سکتی ہے مگر مجھے اس وقت بہت دکھ ہوتا ہے؛ اس لمحے میرا دل کڑہتا ہے؛ جب میں کسی زباں کو نظرانداز ہوتا ہوا دیکھتا ہوں۔ وہ زبانیں جو صدیاں قبل پیدا ہوئیں۔ ان زبانوں کو جس طرح بعد میں پیدا ہونیوالی زبانیں مادی وجوہات کے باعث مغلوب کر رہی ہیں وہ امر بے حد افسوسناک ہے۔ دنیا میں ہر شخص کو یہ حق ہے کہ اس زباں سے محبت کرے جس زباں میں اس کی ماں نے اس سے محبت کا اظہار کیا تھا۔ یہ بات لسانی خیال سے بہت بلند ہے۔ یہ بات محبت کی ہے۔ اس زباں سے محبت جس میں ہم سوچتے ہیں۔ سپنے دیکھتے ہیں۔ جس میں غصہ محسوس کرتے ہیں۔ جس میں ہم قہقہے لگاتے ہیں۔ جس میں گالیاں بکتے ہیں۔ جس میں ہم چیختے چلاتے اور خاموش ہوجاتے ہیں۔ جب میں نے داغستان کے شاعر رسول حمزاتوف کی کتاب ’’میرا داغستان‘‘ پڑھی تھی تو اس کتاب کے اس پیراگراف کو پڑھ کر میری آنکھیں بھر آئیں تھیں۔ رسول حمزاتوف نے لکھا تھا کہ جب میں سوویت ادیبوں کے ساتھ فرانس کا دورہ کرکے واپس اپنے گاؤں آیا تب مجھ سے ملنے کے لیے گاؤں کی وہ عورت بھی آئی جس کا بیٹا کئی برس سے فرانس میں مقیم تھا۔ اس عورت نے مجھ سے بڑے پیار سے پوچھا کہ کیا فرانس میں تمہاری ملاقات میرے بیٹے سے ہوئی؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ ہم آپس میں ملے تھے۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا بیٹا کیسا تھا؟ میں اس عورت کو بتایا کہ آپ کا بیٹا بالکل ٹھیک ٹھاک اور بیحد خوش تھا۔ یہ بات سن کر اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پھر اس عورت نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میرے بیٹے اور تم نے آپس میں بات چیت آوار زباں میں کی؟ میں نے ان سے کہا کہ نہیں۔ ہمارے ساتھ اور بھی دوست تھے اس لیے ہم سارا وقت روسی زباںمیں بات چیت کرتے رہے۔ یہ بات سن کر اس عورت کے چہرے پر شدید دکھ اور مایوسی کے سائے لہرانے لگے اور اس نے اپنے چہرے پر سیاہ کپڑا ڈال دیا۔ رسول حمزا توف لکھتے ہیں کہ جب ہمارے گاؤں میں کسی عورت کا بیٹا مر جاتا ہے تو وہ اپنے چہرے کو سیاہ کپڑے سے ڈھانپ لیتی ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ جب دو پنجابی دنیا کے کسی بھی ایئرپورٹ پر ملتے ہیں تو وہ آپس میں اردو یا انگریزی کے بجائے پنجابی زباں میں بات کرنے لگتے ہیں۔ مجھے اس وقت بھی اچھا لگتا ہے جب ہمارے پنجابی اینکرز اردو میں بولتے ہوئے اپنی بات کوپنجابی کا تڑکا لگاتے ہیں۔ مجھے پی ٹی وی کے نئے سربراہ نعیم بخاری کی یہ بات سن کر ہنسی آئی تھی جب اس نے انٹرویو کے دوراں کہا تھا کہ آپ اردو میں اپنے خیالات کا اظہار آسانی سے کر سکتے ہیں مگر جو مزہ پنجابی میں گالی دینے میں آتا ہے اردو میں نہیں آتا۔ مثلا آپ کسی کو ’’گدھے کا بیٹا‘‘ کہ سکتے ہیں مگر جو چسکا ’’کھوتے دیے پتر‘‘ میں ہے وہ ’’گدھے کے بیٹے‘‘ میں نہیں ہے۔ اس لیے اردو کے مایہ ناز مزاحیہ نگار مشتاق یوسفی نے لکھا ہے کہ ’’گنتی؛ گالی اور غیبت اپنی مادری زباں میں مزہ دیتی ہے‘‘ ۔ اہلیان پنجاب اس مزے سے محروم نہیں۔ مگر جو زباں اتنی امیر ہے۔ جو زباں پنجابی ثقافت کی امین ہے۔ جو زباں لوگ گیتوں سجی ہوئی ہے اور جس زباں میں کمال کے ماہیے ہیں۔ جب اس زباں کے ساتھ نثر میں ناانصافی دیکھی جائے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ جو زباں کمال کی شاعری کو اپنے آپ میں سما سکتی ہے۔ جس زباں میں بلھے شاہ کی صوفی صدائیں ہوں۔ جس زباں میں وارث شاہ نے ہیر لکھی ہو۔ وہ زباں ادب کی عظیم ترجمان ہو سکتی ہے۔ جب پنجابی ادیب اپنے ناول اور اپنے افسانے اردو میں تحریر کرتے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی ماں زباں چھوڑ کر بیوی کے زباں میں بات کرنے لگے۔ بیوی کی زباں میں بات کرنا گناہ نہیں ہے مگر ماں کی زباں میں بات کرنا تو ثواب ہے۔ آخر پنجابی ادیب؛ مقحق اوردانشور اس ثواب سے محروم کیوں ہیں؟ اس سوال کا جواب ہم کس سے پوچھیں؟اس سوال کا اگر کوئی مناسب جواب موجود نہیںہے تو ہم کم از کم اس سوال پر سوچ تو سکتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چودھری نے چند روز قبل کہا تھا کہ پنجابییوں نے بزنس اور زندگی کے دیگر شعبوں میں بہت ترقی کی ہے مگر یہ افسوسناک بات ہے کہ انہوں نے اپنی مادری زباں کو فراموش کردیا ہے۔ فواد چودھری کی یہ بات سن کر مجھے وہ بلھے شاہ بڑی شدت کے ساتھ یاد آئے تھے جنہوں نے اپنے دور کے حالات کے حوالے سے کہا تھا: ’’کھلیا در عذاب دا کی حشر ہویا پنجاب دا‘‘ پنجاب کے سیاسی اور سماجی حالات تو ایسے ہرگز نہیں کہ ہم اس کے بارے میں بلھے شاہ کا یہ شعر لکھیں مگر پنجاب کا اپنی ثقافت اور اپنی زباں کے سلسلے میں وہ رویہ ضرور ہے جس پر بلھے شاہ کا یہ شعر مکمل طور پورا اترتا ہے۔ پاکستان کے پنجاب کو اس بات پر بھی سوچنا چاہئیے کہ اگر بھارتی پنجاب کے سکھ اپنی مادری زباں سے فخریہ محبت کرتے ہیں اور وہ اپنے کلچر کے ساتھ ایسے جڑے ہوئے ہیں جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کی آغوش سے جڑا ہوا ہوتا ہے تو پاکستان کے پنجابی اپنی زباں اور اپنی ثقافت کے ساتھ وہ رشتہ استوار کیوں نہیں کرتے جس رشتے میں مٹی کی خوشبو ہے۔ میرے تخلیقی ذہن والے دوست زبیر احمد کی طرح کچھ پنجابی ادیبوں نے اپنے اظہار کے لیے پنجابی زباں میںلکھا اور کمال کا لکھا ہے مگر وہ کمال بھی زوال کا شکار ہے۔ کیوں کہ وہ بہت تھوڑا ہے۔ پنجابی زباں میں جس قدر وسعت ہے اور اس میں جتنی روانی ہے؛ اس کو اگر ادب اور تخلیق کی زباں بنایا جائے تو ہم تاریخ کا قرض ادا کرسکتے ہیں۔ پنجابی زباں میں جس طرح نفاست کے ساتھ محبت کا اظہار ہوتا ہے؛ اس کا مقابلہ کسی دوسری زباں سے بہت مشکل ہے۔ اس کالم کے آخر میں زبیر احمد کی کتاب ’’کبوتر؛ بنیرے تے گلیاں‘‘کی کہانی ’’ہتھ نہ لا کسنبھڑے‘‘ کے یہ ابتدائی الفاظ نقل کرتا ہوں: ’’توں ریشم ورگیایں۔ کیہ میں تینوں چھوہ سکدا آں؟ میں ہوا ورگی آں کوئی چھو نہیں سکدا مینوں برا نہ منائیں؛ مذاق کر رہی آں۔ جسٹ کڈنگ پر میں تاں تینوں پہلے ای چھولیا اے کویں؟ جویں میں چاہندا ساں اوہ اچی اچی ہسن لگ پئی