تاریخ اٹھاکردیکھ لیجئے افغانوںکے عزم وہمت ، بہادری اور انکی سپاہ گری نے دنیاکی تین سپرپاورزکوتین الگ الگ وقتوںمیں شکست دے کر سرزمین افغانستان سے بھگا دیا۔افغانوں کے ہاتھوں پہلے برطانیہ ،پھرسوویت یونین اوراب امریکہ کوایسی ذلت آمیزشکست ملی کہ انکی نسلیں تازیست یادرکھیں گی ۔ عصرحاضرکی سپرپاور کا افغانستان کے مقامی وقت کے مطابق رات ایک بجے آخری فوجی افغانستان سے بھاگ گیااوریوں افغان فاتح اورامریکہ اوراس کے اتحادیوں ذلت آمیزشکست سے لت پت ٹھرے ۔ دنیامیں جن قوموں،تحریکوں اورافرادنے جہد پیہم یقین کامل اوراُمید واثق کو زندہ رکھا وہ کامیاب ہوئیں ، کیونکہ حالات کی تبدیلی فطرت کا قانون ہے۔ افغان قوم کی فتح کا سبق یہ ہے کہ مقصدکی راہ کوچھوڑکر منفی سوچ اختیارکرنے سے گریزکیا جائے اور مثبت پہلووئوں کوتھامے ہوئے کامیابی کی منزل پانے کے لئے تدبراورتفکرکیاجائے ۔ جہد پیہم ،یقین کامل اوراُمیدواثق یہ تین عناصرانسانی زندگی کے لیے سانس کی مانند ناگزیر ہیں،اس امر پر یقین محکم ہوناچاہئے کہ اہل ایمان کے مقدر میںہمیشہ کے لئے آزمائشیں ہیں مگر ان کے لئے شکست وریخت ،ناامیدی ،مایوسی کی قعرمذلت میں رہنا نہیں لکھاگیا ۔اسے خلیفہ فی الارض کی خلعت پہنا کراس دنیا میںاپنی خودی ،خودداری اورخودمختاری کے حصول کے لئے پیہم جدو جہد کرنے کو کہا گیا ہے۔ پھر کامیابی کے ثمرات اسے یقینی طور پر ملنے کا وعدہ کیاگیا ہے ۔ بلاشبہ اگرچہ وقت پل جھپکتے ہی گزر جاتا ہے،لمحہ نہیں لگتا گزرنے میں، مگر کبھی کبھارجب مشکلات وآزمائشوں کاسامناہو توپھر اک اک پل بھی صدی جیسا بھاری ہوتا ہے۔ لیکن حواس خمسہ برقراررکھتے ہوئے مشکلات اورآزمائشوںسے گذرکر اہل ایمان کی بالآخر آسانیوں کی طرف مراجعت ہوجاتی ہے ۔ جس کی تازہ ترین مثال افغان طالبان ہیں جورب کی نصرت سے کابل کے صدارتی محل کے مرصع ایوانوں میں رونق افروز ہوکر فروکش ہوئے اوررب کی زمین پر رب کے نظام کی بساط پھیلانے کے لئے وسیع تر مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امید ہے کہ دوتین یوم تک شرعی نظام کے نفاذ کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا ۔ رب کے فضل وکرم سے تاریخ کروٹ بدل رہی ہے اورافق سے ایک نیا سورج طلوع ہو رہا ہے ۔ یہ سارا منظر استبدادکے پجاریوں اورچیرہ دستیوں کے حمایتیوں پرلازماً گراں گزرے گا اوروہ نئی سازشوں کے لئے سرجوڑکربیٹھیں گے کیونکہ ایسے حسرت زدہ لوگوں کے احوال اورانکی چالوں کے حوالے سے قرآن مجید میں پوری طرح بتا دیاگیا ہے۔ طالبان کی فتح پرلکھے مضامین میں یہ خاکساربا ربار یہ جملہ دہراتا رہا ہے کہ طالبان کی فتح کودیکھنے کے لئے بصیرت اورنور والی آنکھیں چاہییں بے نوراورحسرت زدہ آنکھ کیاخاک دیکھ سکے گی۔ تاریخ لکھے گی کہ محض سترہزار طالبان نے وقت کی سپرپاورکوخاک چٹوادی اوراسے اپنے تمام حلیفوںبلکہ اس کی ہاں میں ہاں ملانے والی اورطالبان سے مکمل طور پر دستکش ہوئی پوری دنیا کو اپنے سامنے جھکا دیا۔ یہ سہرا ان کی جہد پیہم کوجاتا ہے ۔اس کے برعکس کوئی قوم قربانیاں دینے کے باوصف ہمت ہارکراپنی جدوجہدترک کردے توخس وخاشاک بن جاتی ہے ۔ تاریخ کا دھارا موڑنے کے لئے جہد پیہم ،یقین کامل اوراُمیدواثق کے دامن کے ساتھ چمٹے رہنا ہی کامیابی دلاسکتا ہے ۔ تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ جب قوموں،تحریکوں اورافراد نے جہد پیہم ،یقین کامل اوراُمید واثق کا دامن چھوڑ دیا اوران میں اتنی سکت بھی باقی نہیں رہی کہ دو قدم بھی چل سکیںتو تاریخ انسانی انہیں ناکام ترین قوم ،ناکام ترین تحریک یا ناکام ترین ا فرادکہہ کر پکارتی ہے۔ اس لئے انسان کو جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ کامیابی کے خواب دیکھتے رہنا چاہیے، اوراپنے اندر روشنی کا اَن مٹ دیا جلائے رکھنا چاہئے ۔اگرچہ انسان کی چاہ کی کوئی حد نہیں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اونچی اڑان بھرکر فلک سے تارے توڑ لائے، یعنی ایساکچھ کرے جوبادی النظرمیںناممکنات میں سے ہے ایسا بھی ضرور ہوسکتا ہے لیکن بے شمارنشیب وفرازسے گزرنا پڑے گا اور اس کے لئے جہد مسلسل اور زور بازو سے لڑنا پڑے گا اورکشمکش میں گزرا ہر لمحہ جدوجہد سے بھرپور ہونا چاہئے۔ جب کوئی اس عزم کے ساتھ آگے بڑھناچاہے تو کئی بار اس کی ہمت ٹوٹ سکتی ہے۔ مگر مشکل سے مشکل حالات میں بھی اگر امید کا دامن نہ چھوڑا تومنزل پانا یقینی بات ہے۔ مخالف سمت سے اٹھے باد صرصرکودیکھ کردل اور دماغ پرمایوسی کے گہرے اثرات کود نے دیئے جائیں توتمام قوت مضمحل ہوجاتی ہے۔اس لئے دل اور دماغ کو حاضر اور انہیں اکٹھے رکھ کرکر ان کی مشاورت کرائی جائے اور ان سے عہد لیا جائے کہ ایک ساتھ رہیں گے اورمکمل اشتراک سے کام کریں گے۔اگردل و دماغ نے ایک دوسرے سے اختلاف برتا توپھرایک ایسی کشمکش شروع ہوجائے گی کہ جس کاحتمی نتیجہ تباہی اوربربادی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔کسی قوم ،کسی تحریک کے سامنے ڈیپریشن فل زورں پہ کیوں نہ ہو، اس کو مایوسی کے عمیق سمندر میں غوطہ زنی کاسامنا کیوں نہ ہو لیکن یہ امید رکھنی چا ہئے کہ ہمارا بہترین کارسازہمارے ساتھ ہے اوروہ وہی ذات ہے کہ جس نے ہمیں وجود بخشا اور وہی ہماری کشتی بھنورسے کھینچ کرکامیابی کی منزل سے ہم کنارکرے گا ۔ ہم ہرگزڈوب نہیں سکتے مگر تیقن یہ ہوناچاہئے کہ ہمارے اوپر ہمارے رب کاسایہ رحمت ہے اور وہ ہماری مددکے لئے فرشتوں کوحکم صادرکرے گا کہ بازو پھیلاکرمیرے بندوںکی نیاکوغرق ہونے سے بچائواوراسے کنارے لگادو۔ کامیابی کاخواب ہر کوئی دیکھتا ہے،یہ خواب قومی سطح پر بھی دیکھے جاتے ہیں،تحریکوں کے بھی اپنے خواب ہوتے ہیں اورافراد بھی اپنے اذہان میں کئی طرح کے خواب سجائے بیٹھے ہوتے ہیں المختصر ہر ایک انسان کے دل میں خواہش پنپتی ہے مگر خواب کو زندگی کا مقصد بنانے والے کھلاڑی ریس میں دوڑتے ہوئے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھتے کہ کیا چھوٹ گیا،کیا کرنا باقی رہ گیا بس کر گزرتے ہیں۔