شور مچانے کا کیا ہے ، مچاتے جائیے، مگر ایک لمحے کو رک کر اعدادو شمار پر نظر ڈال لینے میں کیا ہرج ہے ؟پیپلز پارٹی نے سندھ میں 61 میں سے 38 سیٹیں حاصل کر رکھی ہیں ۔گویا سندھ کے نتائج پر پیپلز پارٹی کو اعتراض نہیں ، اصل مسئلہ باقی صوبوں بالخصوص پنجاب کا ہے جو سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ناطے مجموعی نتائج پر اثر انداز ہوتا ہے، گویا پیپلز پارٹی کا اعتراض یہی ہے کہ پنجاب میں دھاندلی ہوئی۔تو آئیے پہلے پنجاب کے انتخابی نتائج کا ایک الگ انداز میں تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں دھاندلی کا شور مچانے میں کتنی حق بجانب ہے۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی کل 141نشستیں ہیں۔ان 141میں سے پیپلز پارٹی نے 11 پر اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیے ۔یوں پیپلز پارٹی پنجاب میں 130 نشستوں پر میدان میں اتری، ان 130 میں سے اسے جیت نصیب ہوئی صرف 6 نشستوں پر۔ اب سوال یہ کہ کیا باقی 124 نشستوں پر پیپلز پارٹی کے ساتھ دھاندلی ہوئی؟اس سوال کے جواب میں جو اعداد و شمار میں تحریر کرنے جا رہا ہوں وہ آپ کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوں گے۔ 124 میں سے 107 نشستیں ایسی ہیں جہاں جیتنے والے امیدوار اور پیپلز پارٹی کے امیدوار کے درمیان ووٹوں کا فرق 50 ہزار سے زیادہ کا تھا۔ان 107 میں سے بھی پیپلز پارٹی کے 49 امیدوار ایسے تھے جو ایک لاکھ سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے ہارے۔ ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ لے کر پیپلز پارٹی کو ہرانے والے ان بیشتر افراد کا تعلق ن لیگ سے ہے اور باقی کا پی ٹی آئی سے ۔گویا 107 حلقوں میں ایک لاکھ یا پچاس ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دے کر پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ ن لیگ نے بھی پیپلز پارٹی سے دھاندلی کی۔ اب پچاس ہزار یا ایک لاکھ ووٹوں کے فرق سے ہارنے والے 107 افراد کو 124 میں سے نکال دیں تو باقی صرف 17امیدوار بچتے ہیں جنہوں نے پنجاب میں تھوڑا بہت مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر جیت پھر بھی نہ سکے۔ قصہ ابھی یہیں تمام نہیں ہوا۔پنجاب میں 130 سیٹوں پر الیکشن لڑنے والے پیپلز پارٹی کے امیدواروں میں سے 68 ایسے ہیں جو 10 ہزار ووٹ بھی نہ لے سکے۔ان میں سے 58 امیدوار ایسے ہیں جنہوں نے 5 ہزار ووٹ بھی حاصل نہ کیے ، اور ان 58 میں سے 37 ایسے ہیں جو بیچارے 3 ہزار ووٹوں کو بھی نہ چھو سکے۔اب یہ سوال بھی اہم ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ہارنے والے 124 افراد میں سے ضمانتیں کتنے لوگوں نے بچائیں؟اس سوال کا جواب حوصلے سے پڑھیئے۔پیپلز پارٹی کے 124میں سے صرف 7 امیدوار اپنی ضمانتیں بچا سکے ، باقی 117 تو اپنی ضمانتیں بچانے میں بھی کامیا ب نہ ہوئے۔وہ 7 خوش نصیب جنہوںنے اپنی ضمانتیں بچائیں ان میں جھنگ سے مخدوم فیصل صالح حیات ،ملتان سے سید عبدالقادر گیلانی، ملتان کی دو نشستوں سے سید یوسف رضا گیلانی، بہاولنگر سے مخدوم سید علی حسن گیلانی،رحیم یار خان سے مخدوم شہاب الدین اور مظفر گڑھ سے محمد داود خان شامل ہیں۔ پنجاب میں 117 ضمانتیں ضبط ہونے اور 49 افراد کے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے ہارنے کی وجہ دھاندلی کو قرار دینا منطقی معلوم نہیں ہوتا۔یہ اپنی ناقص سیاسی حکمت عملی، کمزور پالیسیوں، پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ اور اس جیسی دیگر وجوہات سے صرف نظر کرنے کی کوشش تو ہو سکتی ہے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ پنجاب کے بعد چلیں بلوچستان پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈال لیتے ہیں۔بلوچستان میں قومی اسمبلی کی کل 14 نشستیں ہیں۔ان میں سے پیپلز پارٹی نے 13 پر اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ان 13 میں سے 11 امیدوار 10 ہزار ووٹوں کو بھی نہ چھو سکے۔صرف NA-262 پشین سے عبدالقیوم کاکڑ نے 10330 ووٹ لے کر بمشکل دس ہزار کو کراس کیا جبکہ NA-261 جعفر آباد سے چنگیز جمالی نے 27 ہزار ووٹ لیے ۔اب چودہ میں سے تیرہ نشستوں پر مقابلے کے قریب قریب بھی نہ آنے والی پیپلز پارٹی جس پی ٹی آئی سے دھاندلی پر استعفی مانگ رہی ہے اس کی خود بلوچستان میں صرف تین سیٹیں ہیں۔اس سے زیادہ تو جمعیت علمائے اسلام کی ہیں جنہوں نے ایم ایم اے کے ٹکٹ پر پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اب پیپلز پارٹی کے دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ خیبر پختونخواہ سے اسی قسم کے تجزیے کے لیے اصرار نہ کریں کیونکہ وہاں پیپلز پارٹی کی صرف ایک ہی سیٹ ہے اور باقی کے اعدادوشمار اس سے زیادہ مضحکہ خیز ہیںجو میں نے پنجاب سے پیش کیے ہیں۔ گزارش صرف یہ ہے کہ صرف دھاندلی کا شور مچانے سے دھاندلی ثابت نہیں کی جاسکتی، الیکشن ٹربیونل اور سپریم کورٹ جیسے اداروں میں اپنی درخواستیں لے کرنہ جانا اور کنٹینرز پر کھڑے ہو کر دھاندلی کا شور مچانا ایک ایسا غیر سیاسی فعل ہے جو پاکستان میں منفی سیاسی روایات کو فروغ دے رہا ہے۔میں بطور صحافی 2008 سے انتخابات کو قریب سے دیکھ رہا ہوں اور 2018 کے انتخابات میں تو الیکشن سیل میںکام کر کے ہر حلقے کا بہت باریک بینی سے مشاہدہ کیا ، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے موجودہ شرمناک انتخابی نتائج کی دس اور وجوہات ہو سکتی ہیں ، دھاندلی نہیں ہو سکتی۔ میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ پنجاب میں دھاندلی نہیں ہوئی ہو گی ،ہو سکتا ہے ہوئی ہو، ہو سکتا ہے نہ ہوئی ہو، مگر میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں کسی دھاندلی کا شکار نہیں ہوئی، اور پاکستانی انتخابی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہ بھی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آج دوبارہ اس انداز میں الیکشن ہو جائیں جس طرح اپوزیشن مطالبہ کر رہی ہے تو پیپلز پارٹی کے لیے نتائج مختلف نہ ہوں گے ۔ اسی قسم کا انتخابی تجزیہ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام ، محمود خان اچکزئی کی پشتونخواہ پارٹی ، اسفند یار ولی کی اے این پی اور اتحاد میں شامل دیگر پارٹیز کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔وہ اعداد و شمار بھی دکھائے جا سکتے ہیں جہاں پنجاب میں ن لیگ کے امیدوار محض چند سو ووٹوں سے فاتح قرار پائے حالانکہ دھاندلی کے ذریعے سے چند سو ووٹوں کے فرق کو ختم کر کے پی ٹی آئی کے امیدوار کو جتوانا زیادہ مشکل نہ تھا۔کہنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ بے ضابطگیاں یا دھاندلی نہیں ہوئی ہو گی، مگر پہلے الیکشن ٹربیونل اور عدالتوں کے پاس جائیے ، واضح ثبوت اور طاقتور مقدمہ ہونے کے باوجود انصاف نہ ملے تو ہو سکتا ہے ہم بھی دھرنے میں آپ کے ساتھ آ کھڑے ہوں۔