اِک سوگ برپا ہے‘مسیحائی کے دعوے دار سربازار بے نقاب ہوچکے۔عوام کی خواہش کے برعکس دھونس دھاندلی کا دور ِ رواں ہے‘سوچوں کی تقسیم ایسی کہ حقائق شرما چکے اور کوئی بڑی آفت در پر دستک دینے کو بیتاب نظر آتی ہے۔جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے کے مصداق ذمہ داران اور قصورواران اصل حقائق‘بحران اور مسائل سمجھنے سے قاصر ہیں۔ صلاحیت کا ایسا فقدان کہ سب عیاں ہوگئے‘ سب بے نقاب ہوگئے‘مگر غفلت پر بے چارگی کی بجائے سینہ سپر ہونے کا طرز بد ثابت کرتا ہے: ہزاروں سال نرگس کو ابھی آنسو بہاتے نہیں بیتے‘ نہ جانے کب ہزاروں سال ہوں اور کوئی دیدہ ور پیدا ہو‘اس معاشرے کا سب سے بڑا جرم، حال سے روگردانی اور ماضی کے قافیوں سے تانوں بانوں کو جوڑنا ہے‘مستقبل کا ادراک‘حکمت کی تراش اور فہم و فراست‘ ان مشقوں کو کب کا پس پشت ڈالنا‘ہمارے ارباب اختیار کا ایک بڑا جرم ہے۔پروین شاکر نے درست کہا تھا: مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث...جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا۔ اب تو حالت بد سے باہر نکلنے کا ادراک کرنے والے بھی ڈھونڈے نہیں ملتے‘کیا موجودہ درپیش بحران کی عکاسی اس سے مختلف ہے؟ وطن عزیز ڈیفالٹ دھانے پر ہے‘حکمران معیشت دیوالیہ ہوگی یا نہیں؟ اس بے معنی بحث و تکرار سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں‘ اختیارات کے حصول کو عوامی امنگوں کا ترجمان نہ بنانے کی سزا آج بھی اسی صورت بھگتی جارہی ہے کہ جن کے پاس اصل اختیار ہونا چاہیے، وہ کسی اور کی طرف دیکھتے ہیں بلکہ انہوں نے دیکھنا بھی کیا ہے‘یہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے سرگرداں ہیں اور سارا نزلہ‘نقصان بے چارے عوام اپنی محرومی کی صورت میں بھگت رہیہیں‘ اب یہ شوشہ کہ ملک میں ٹیکنو کریٹ حکومت لائی جائیگی۔ ٹیکنو کریٹ حکومت کی خبر سب سے پہلے سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کی زبانی سامنے آئی‘رضا باقر اور حفیظ شیخ کے ناموں کی گونج شہر اقتدار کی راہداریوں سے نکل کر گلی کوچوں تک پھیل گئی۔کئی کہنے والے تو یہاں تک پہنچ گئے کہ انٹرویوز بھی کئے گئے‘پی ڈی ایم یعنی 13جماعتوں کی بے بسی پر ترس آتا ہے‘ ویسے انہوں نے عوام کے ساتھ جو سلوک روا رکھا‘یہ اسی کے مستحق ہیں۔ تاریخ گواہ ہے سیاست‘ریاست‘سماج یا ذاتی زندگیاں ہوں‘جہاں ابن آدم انفرادیت کی لہہ میں بہہ کر کسی بھی ہوس کا پوجاری بنا‘اسے کھودے گئے کنویں میں خود گرنا پڑا۔ اللہ رب العزت کا نظام سب نظاموں پر حاوی ہے‘ توبہ‘اصلاح کی طلب‘گناہوں پر پردہ داری کے علاوہ بقاء کی راہ بھی ہموار کردیتی ہے‘اس کیلئے لیکن غلطی و کوتاہی اور گناہوں پر نادم ہونا اول و آخر شرط ہے‘ہمارے حکمران کیا نادم ہیں؟ اس کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ تحریک انصاف نے اب کی بار حکومت کیخلاف مہنگائی‘بیروزگاری اور بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ کیخلاف احتجاجی تحریک چلانے کا طبل بجادیا ہے۔ عوام اپنے حقوق سے اگر آگاہ ہوئے تو اس تحریک کا ہر اول دستہ بنیں گے لیکن اگر عوام نے اپنی محرومی پر آواز بلند کرنے کی روش نا اپنائی تو اس کے اصل قصوروار بھی سیاستدان ہی ہونگے‘ جو عوام کو حقائق سے ناآشنا رکھتے رہے اورحق مانگنے والوں کو نشانِ عبرت بناتے رہے۔ سیاسی حلقوں کی متواتر خاموشی رہی‘ البتہ ان دنوں عوام کا پارہ بلند ہے‘ ٹیکنو کریٹ کی غلطی نا خداؤں کے غبارے سے مزید ہوا نکال دیگی‘ ٹیکنو کریٹ کا تجربہ دنیا کے کئی ممالک میں ہوچکا‘کئی ریاستیں اس تجربے سے توبہ کرچکیں‘ کیا اختیارات کے مراکز ان حقائق سے آگاہ نہیں؟ معیشت کی زبوحالی اور اس سے جنم لینے والے پے در پے سنگین بحرانوں کا انہیں علم نہیں؟ افسوس انہیں اس کا احساس نہیں‘ ادراک نہیں اور وہ شعوری و لاشعوری طور پر عوام کو رعایاسے اگلے مرتبے پر فائز ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے‘میں اکثر سوچتا ہوں‘یہ کیسی طاقت اور اختیار ہے:جس کے چھن جانے کا خوف بربریت کا بازار سرگرم رکھنے پر اکساتا ہے۔ ظلم کی ایک حد ہوتی ہے‘ بس کیجئے اور خدا کا خوف کیجئے‘ بہرحال ٹیکنو کریٹ کے تجربات دنیا میں 1930ء میں شروع ہوئے‘کئی یورپی ممالک سمیت امریکہ میں اس کے ناکام تجربات ہوئے‘ٹیکنوکریٹ حکومت کے تحت مختلف شعبوں میں ماہرین اپنے فرائض سرانجام دینے کے پابند ہوتے ہیں‘جیسے معیشت کیلئے اکنامک سائنسٹس وغیرہ اپنے فرائض ادا کرتے ہیں‘ عوامی نمائندگی اور احساسات سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا‘ موجودہ حکومت ایسے ناکام تجربات کو کیونکر حالیہ ترقی یافتہ دور میں دہرانا چاہتی ہے؟ اس کا جواب ہماری سیاسی تاریخ میں موجود ہے‘ 1971ء کے سانحہ مشرقی پاکستان کا ہر اعتبار سے تجزیہ کیا جاتاہے‘تینوں کرداروں یحیی خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان کے تذکرے کئے جاتے ہیں‘ کتابوں کی بابت تحقیق کے دریچے کھولے جاتے ہیں لیکن اس حقیقت پر بہت کم اور سرسری توجہ دی جاتی ہے:ہم نے عوامی اکثریت کی منتخب جماعت کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور ہمارا دایاں بازو ہم سے جدا ہوگیا‘فی الوقت حکمران عمران خان کی مقبولیت سے خائف ہو کر چاہتے ہیںکہ ان کا راستہ روکا جائے۔ کون نہیں جانتا انتخابات سے مسلسل فرار اختیار کرتے چلے جارہے ہیں‘ شکست اور حکومت جانے کا خوف ملک و ملت کی محبت پر غالب ہے‘شاید ان کو محبت کی م اور ت کا علم تک نہ ہو‘لہذا جو جی چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے کے مصداق عوام حکومتی کج ادائیوں اور غفلت پر محرومیوں کا شکار ہو کر حالات کی تلخ و تیز بے رحم ہواؤں کا تن تنہا شکار ہیں۔ گویا سمجھنا مشکل نہیں کہ حکمران عوامی غیض و غضب سے خائف ہیں‘ وہ جانتے ہیں: عوام انتخابی بیلٹ کے ذریعے ان کے غبارے سے ہوا نکال دیںگے‘ میں چند روز سے وزیر اعظم کے توانائی بچت کے تناظر میں اس مطالبے سے شرمندہ ہوں‘جس میں انہوں نے عوام سے قربانی مانگی ہے‘عوام قربانی دینے کیلئے تیار نہیں‘مکمل طور پر قربان ہوچکی ہے‘ جناب وزیر اعظم آپ اپنی 80کے قریب وفاقی کابینہ‘جن میں سے 22وزراء کے پاس کوئی قلمدان ہی نہیں‘انہیں کم کرکے سب سے پہلے قربانی کی ابتداء کریں‘ وقت سے بڑا کوئی مرہم نہیں‘وقت سب کرداروں‘ سب ناخداؤں کو بے نقاب کرچکا‘اِک سوگ برپا ہے‘مسیحائی کے دعوے دار سربازار بے نقاب ہوچکے!!!