ہمارا ریاستی وسماجی بیانیہ مبلغ یہ ہے کہ ہم چھوٹے بڑے جلسوں کی بحث تک خود کو محدودکرچکے ہیں۔’’لاہور کا جلسہ چھوٹا تھا، جلسہ بڑا تھا۔عمران خان کا دوہزار گیارہ کا جلسہ فقیدالمثال تھا،یہ گیارہ جماعتوں کا جلسہ ،چھوٹی سی جلسی بن کر رہ گیا۔لاہور والوں نے جلسے میں شمولیت اختیار نہ کرکے اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کی اخلاقی حیثیت ختم کردی،جب فلاں کی تقریر شروع ہوئی تو خالی کرسیاں رہ گئی تھیں،یہ سیاسی پاور شو بری طرح فلاپ ہوا‘‘وغیرہ ۔محض زندگی کا ڈھب یہی رہ گیا ہے؟کسی بھی جلسے کو چھوٹا اور بڑا بنانے والے عوام، سیاست دانوں کے سامنے اپنی کوئی اورحیثیت بھی رکھتے ہیں؟اس وقت سیاسی اشرافیہ کے طبقے کو عوام کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔اس لیے سیاسی اشرافیہ کی زبانوں پر عوام کا لفظ چپکا ہوا ہے۔حکومتی اشرافیہ عوام کو جلسے جلوسوں میں شرکت سے منع کررہی ہے اور طاقت کی راہداریوں تک رسائی کی کوشش میں سرگرداں سیاسی اشرافیہ انہیںگھروں سے نکلنے پر مجبور کررہی ہے۔ عوام کی حیثیت محض جلسہ گاہوں کا پیٹ بھرنے کی حد تک رہ گئی ہے۔عام آدمی کی تاریخ بھی یہی ہے کہ وہ ’’خدمت‘‘کے لیے پیدا ہوا ہے۔ آریائوں نے یہاں کی تمدنی زندگی میں انسانوں میں شاید پہلی تقسیم اُس وقت پیدا کی تھی ،جب اُنہوں نے اعلیٰ اور ادنیٰ ذاتوں کا تصور پیش کیا تھا۔جس میں برہمن طبقہ ،اعلیٰ طبقہ قرار پایا اور شودر اچھوت قرارپائے تھے۔شودر کی یہ ذمہ داری قرار پائی کہ اُنہوں نے اعلیٰ طبقات کے انسانوں کی خدمت کرنی ہے۔ممکن ہے یہ تقسیم مختلف پیشوں کی بابت ہو،مگر یہ زندگی کا اصول بن کر رہ گئی،نچلے طبقہ کے انسان ہر طرح کے حقوق سے محروم ہوتے چلے گئے ،اُن کی شناخت معدوم ہوئی ،شناخت معدوم ہونے سے اُن کی سماجی زندگی پس ماندہ ہو کررہ گئی ۔آج بھی عام آدمی کی زندگی کا اصول یہی ہے کہ وہ اشرافیہ کی خدمت کرے۔سیاسی برتری کا معیار چھوٹے بڑے جلسوں تک محدود ہو کررہ گیا، گویا سیاسی برتری کا معیار’’ عوام کی خدمت‘‘ نہیں رہا۔جب شام پڑتے ہی شبنم کی ٹھنڈی بوندیںگولیاں بن کر چہروں پر پڑیں،عوام جلسہ گاہوں میں پہنچیں،جب بارش کی بوندیں برف کے پتھر بن کر سروں پر پڑیں ،عوام دھرنا دیں۔پھر بھی طعنہ کہ ہجوم چارج نہیں،جوش وجذبہ نہیں اور نعروں میں گرج نہیں۔سیاسی اشرافیہ ،بلاول ،مریم،مولاناجانتے ہیں کہ جلسوں میں شرکت کرنے والوں کی زندگیاں کیسی ہیں؟ جب وہ جلسوں کو’’بڑا‘‘بنا کر آدھی رات میں گھروں کو پلٹتے ہیں تو اُن کے گھر تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔اُن کی مائیں،بیویاں اور بچے ٹھنڈے کمروں کے ٹھنڈے بستروں میں یوں دُبکے پڑے ہوتے ہیں ،جیسے رضائیوں کی جگہ اُنہوں نے قبریں اُوڑھ رکھی ہوں۔کبھی مریم ،بلاول اور مولانا نے دسمبرکی بھیگی صبح،منہ اندھیرے اُٹھ کر ٹھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھویا ہے؟ یہ جانتے ہیں کہ ٹھنڈے برف جیسے پانی سے ہاتھ دھونے کے بعد ہاتھ مرجھا کیوں جاتے ہیں؟یہ مُرجھائے ہاتھوں کا دُکھ جانتے ہیں؟لاہور کے جلسے میں عوام نے اپوزیشن جماعتوں کے بیانیہ کو مسترد کردیا،کے نعرے لگانے والے اپنے کتوں کو محض راتب ڈال سکتے ہیں۔مریم ،بلاول ،مولانا ،جلسہ گاہ کے گیلے گرائونڈ میں کھڑے ،اُس شخص کی بے بسی کو محسوس کرسکتے ہیں ،سردی کی لہر جس کے جوتے اور جرابوں کو چیرتی، پائوں کی اُنگلیوں پر قبضہ کررہی ہو؟پائوں کی اُنگلیوں میں دوڑنے والا خون جم رہا ہو؟گرم جیکٹس ،مفلر اور چادر لپیٹ کر تقریریں کرنے والے جانتے ہیں کہ جب یخ ہوا کانوں کو چھوتی ہے تو حالت کیا ہوتی ہے؟ دُکھ کی گھڑی تو یہ ہے کہ عوام کو اپنے سوالوں کا ادراک اوراپنی مصیبتوں کا احساس نہیں۔ سیاسی وابستگی ،جمہوری کلچر کو مضبوط کرتی ہے،مگر سیاسی اندھی عقیدت ،سیاسی اشرافیہ کی کرسیوں کو مضبوط کرتی ہے۔عوام سیاسی اندھی عقیدت میں مبتلا ہیں۔دوسری طرف حالت یہ ہے کہ صبح کا سورج جب پھوٹتا ہے تو اِن کوکچھ خبرنہیں ہوتی کہ کس سمت کو جانا ہے؟سارادِن سورج کے پیچھے بھاگ بھاگ کر واپس ہولیتے ہیں۔عوام کو بے سمت کس نے کیا؟عوام کی زندگیوں کو بے مول کس نے کیا؟بلاشبہ جلسہ گاہوں میں عوام کی لڑائی کو اپنی لڑائی بناکر پیش کرنے والوں نے …افسوس تو یہ ہے کہ اِن کا دائو ابھی تک کامیاب جارہا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری دوہزار بارہ میں اسلام آباد میں پڑائو ڈالتے ہیں ،یہ جنوری کے دِن ہوتے ہیں اور بارش نے دارالحکومت کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہوتا ہے۔تحریکِ انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری ایک بارپھر دوہزار چودہ میں اسلام آباد پر یلغار کرتے ہیں ،موسم شدید گرم اور حبس آلود ہوتا ہے۔دوہزار اَٹھارہ کے انتخابات ہوتے ہیں ،موسم گرم ہوتا ہے۔حکومت مخالف پی ڈی ایم اتحاد بنتا ہے اور جلسے جلوس شروع ہوتے ہیں ،ایک بارپھر سردموسم کا انتخاب کیا جاتا ہے۔یہاں کے عوام پتھر کے بُت ہیں،جن پر موسم کی شدت اثرانداز نہیں ہوتی؟کسی بہتراور خوش گوار موسم کا انتخاب کرنے میں کیا اَمر مانع ہوتا ہے؟بات بہت صاف ہے،جلسے ،جلوس اور دھرنوں کے وقت کا تعین عوام کے حقوق کے لیے نہیں ،اپنے مفاد کو پیش نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔اگر مارچ دوہزار اکیس میں سینیٹ کے الیکشن (حکومت فروری میں الیکشن کا فیصلہ کرچکی ہے)نہ ہوتے تو یہ احتجاج ،جلسے جلوس اور دھرنے آج ہورہے ہوتے؟اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو اچانک یہ احساس نہیں ہوا کہ عوام پر مہنگائی کا پہاڑ آپڑ اہے،یہ احساس سینیٹ کے الیکشن نے دلوایاہے۔بلاول ،مریم اور مولانا جانتے ہیں کہ مہنگائی کتنی ہے؟یا وزیرِ اعظم کو خبر ہے کہ مہنگائی کس چیز کا نام ہے۔یا پھر عوام کو معلوم ہے کہ اُن کے مسائل کیا ہیں؟یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو دھوکا دیتا پایاجارہا ہے۔مگریہ دھوکا کب تک دیا جاتارہے گا؟