جی میں آتا ہے کہ دیکھوں اس زمیں کو کاٹ کر مجھ ہوائے خاک پر یہ کیسے نکلے بال و پر ہیں مثال برف یہ بھی کوہقافوں میں پڑے اک شرارہ ہی اٹھا تو اے ہوائے تیز تر کیا کریں اب تو بات کرنے کی سکت نہیں اور بات کرنے کا بھی کچھ فائدہ نہیں۔ کوئی بے حسی سی بے حسی ہے۔ تہذیب اور شائستگی کا کوئی لحاظ یا پاس نہیں۔ یہاں تو سیف صاحب کا خوبصورت شعر بھی ضائع نہیں کیا جا سکتا کہ کس تمنا سے تجھ کو چاہا تھا۔ کس محبت سے ہار مانی ہے۔ اب تو ایسے ہی لگتا ہے کہ لارنس آف عریبیہ کی کہانی سچی تھی۔سارا نظام ہی برباد ہونے کو ہے ۔آنکھوں کے سامنے ایک تماشہ اپنے انجام کی طرف لے جا رہا ہے۔ خدا نہ کرے ہمارے خدشات درست ثابت ہوں، ہلکی سی ایک امید کی کرن نظر آنے لگی ہے کہ تہس نہس کرنے والوں کے درمیان میں سے کچھ محب وطن بولنے لگے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ نیرنگئی سیاست دوراں تو دیکھیے منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے اب تو مسئلہ ہی نہیں کہ ایجنڈا دے کر لوگوں کو اوپر سے منزلوں پر اتارا جاتا ہے۔ بے چارے انقلاب کے خواب دیکھنے والے بیدارہونے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو انہیں مزید خواب دیکھنے کے لئے سلا دیا جاتا ہے ’’کسی کردار کو چلنے نہیں دیتا آ گے،ایک کردار کہانی میں جو شامل بھی نہیں‘‘ اپنے ملک کا نظام بدلنے والے مخلص اور اوریجنل لوگ سب بے چارے ایسے نظر انداز کر دیے گئے کہ جیسے ان کا وجود ہی نہیں تھا۔ وہ حساس لوگ اپنے ہونے پر شرمندہ ہونے لگے جس پر انہوں نے اعتماد اور بھروسہ کیا تھا انہیں منصب و مقام کی ہوا لے اڑی اور کہاں جاکر گرا ، احباب مجھے اس تلخ نوائی پر معاف کر دیں مگر ہمارے ساتھ کھلواڑ ہوا۔ ایسے ہی فراز یاد آ گئے: یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں مگر جب لیڈر بدلتا ہے تو کسی ایک کا دل نہیں ٹوٹتا بلکہ ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ۔ ہائے ہائے آج تو مجھے اپنا دوست اسماعیل عاطف یاد آیا۔ و سنا ر تھا اور سونے جیسے ہی شعر کہتا تھا: کیا پوچھو گے کیا بتلائیں کیا سوچا کیا روگ ملے اونچی دیواروں کے پیچھے چھوٹے قد کے لوگ ملے یقینا آپ سوچتے ہوں گے کہ میں کیا بجھارتیں ڈالتا جا رہا ہوں۔ کیا کروں ایک بجھارت کی صورت ہی تو ہم ہو گئے۔ کچھ نہیں کھلتا کہ اب کیا ہو گا۔ ایجنڈا کہاں جا کر مکمل ہو گا، روزانہ ایک سخت ٹیکہ جو جانوروں کو لگایا جاتا ہے ہمیں لگا دیا جاتا ہے۔ آج پھر خبر آ گئی کہ پٹرول 5روپے بڑھایا جا رہا ہے۔ ہر روز کبھی کچھ اور کبھی کچھ مہنگا ہوتا چلا جا رہا ہے میں نے پہلے ہی لکھا تھا کہ یہ جو مجبوری سے تنخواہوں میں ایڈہاک ریلیف دیا گیا ہے یہ چند روز میں ہی ہم سے نکلوا لیا جائے گا۔ ایسا جبر تو انگریز نے بھی روا نہیں رکھا۔ دوستوں کو خوش گمانی ہے کہ ہمارے کالم پڑھے جاتے ہیں۔ تو یہی سوچ کر عباس محمد مرزا نے کہا ہے کہ میں حکام بالا تو یہ بات پہنچائوں کہ یہ جو تنخواہوں میں 25فیصد ریلیف دیا جا رہا ہے پنشن والوں کو اس سے زیادہ ریلیف ملنا چاہیے۔ ان کی دلیل واقعتاً معتبر ہے کہ وہ اپنے بڑھاپے میں ہوتے ہیں تو دوائی وغیرہ بھی ان کو لگ چکی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ امجد اسلام امجد نے محفل میں بات کی کہ اب ہم اس عمر کو پہنچ گئے ہیں کہ ایک دوسرے سے ملتے ہوئے ایک دوسرے کی بیماریوں کا پوچھنے لگتے ہیں۔ پھر آج کل کے دور میں کہ جب ایسی بے رحم حالات ہوں تو بیماریوں میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے اور شدت بھی آ جاتی ہے۔ سب سے بڑی بیماری تو ٹینشن ہے۔ جن بے چاروں کو بیس پچیس ہزار میں مہینہ گزارنا ہوتا ہے وہ تو سوچ سوچ کر ہی مر جاتے ہیں اور اکثر کم آمدنی والے ایماندار بھی ہوتے ہیں۔ ویسے یہ حکومت تو اس ضمن میں بھی انوکھا خیال رکھتی ہے کہ سرے سے پنشن ہی ختم کر دی جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ بہرحال ہم نے عباس محمد مرزا صاحب کی بات پہنچا دی۔ قتیل صاحب نے کہا تھا: اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا چلتے چلتے ایک بات منہ میں آ گئی ہے کہ سرکاری تنخواہوں کے حوالے سے سب سے زیادہ جس جماعت نے ہمدردی دکھائی وہ پیپلز پارٹی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پہلے آدمی ہیں جنہوں نے خصوصی طور پر اساتذہ کو عزت دی اور ان کی تنخواہوں میں معقول اضافہ کیا۔ اس کے بعد زرداری دور میں ان کی تنخواہوں میں 50فیصد اضافہ کیا گیا جس پر ن لیگ کے لوگ خاصے ناراض ہوئے کہ پیپلز پارٹی سرکاری ملازمین کی عادتیں خراب کر رہی ہے کہ ن لیگ کے میاں صاحب تو سرکاری ملازمین کو ذاتی ملازم سمجھتے رہے۔ مگر تنخواہیں وہ بڑھاتے تھے۔ موجودہ دور تو سرکاری ملازمین کو زمین بوس کر گیا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ کچھ اچھا نہیں ہونے جا رہا۔ منظر نامہ یکسر بدل رہا ہے۔ چوروں اور ڈاکوئوں کو پکڑنے اور لوٹا ہوا مال برآمد کرنے کے لئے آنے والے اس حال کو پہنچ گئے ہیں کہ اب الٹا جوابی طور پر انہیں چور اور ڈاکو کہا جا رہا ہے۔ کسی ایک چور کو ہی سزا ملی ہوتی تو خان صاحب سرخرو ہو جاتے اب سنتے ہیںکہ ایک اور ہوا چلے گی کہ وہ جو ایک طرف ہو گئے تھے پھر کسی بہانے تازہ دم ہو کر آئیں گے۔ دائم پریشان تو بے چارے غریب عوام ہیں۔ ابھی میں ایک تصویر صفحہ اول پر دیکھ رہا تھا کہ سینٹ کے کاغذات جمع کروانے والے تینوں سابقہ وزرائے اعظم راجہ پرویز اشرف‘ شاہد خاقان عباسی اور یوسف رضا گیلانی اکٹھے بیٹھے قہقہہ بار ہیں۔ رنج لیڈدںر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ۔ہیں باغباں بھی برق و شرر سے ملے ہوئے۔ عوام کو لڑانے والے سب آپس میں ایک ہیں بلکہ اب تو مولوی صاحبان اور سیاستدان شیروشکر ہیں۔ موجود حالات ایسے ہیں کہ سابقہ سب اچھے لگنے لگے ہیں۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: مجھ کو میری ہی اداسی سے نکالے کوئی میں محبت ہوں محبت کو بچا لے کوئی