چند دن پہلے اسی روزنامے میں ایک سینئر پاکستانی سفارت کار کا بیان نظر سے گزرا جس کے مطابق ’’مسئلہ کشمیر عسکری نہیں بلکہ سیاسی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے۔‘‘پاکستانی سفارتکاروں کی جانب سے ایسے ہی ’’سیاسی طور پر درست بیان ‘‘اکثر دہرائے جاتے ہیں۔ پاکستان کی ہر منتخب و غیرمنتخب حکومت تسلسل کے ساتھ اسی نکتہ نظر کی تشہیر کررہی ہے کہ مسئلہ کشمیر صرف مذاکرات کی میز پر ہی حل ہوسکتا ہے۔ کہنے اور سننے میں یقینایہ سمجھداری کی بات ہے، لیکن بدقسمتی سے بین الاقوامی سیاسی اکھاڑے میں ایسے بیانات صرف رسمی حد تک سنائے اور سنے جاتے ہیں۔ ریاستی مفادات کے کھیل میں ان کی حیثیت بیجان، بانجھ الفاظ سے زیادہ نہیں، کیونکہ حقیقی دنیا میں فیصلے صرف اور صرف طاقت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ بے عمل اور کمزور کھلاڑی اقوام متحدہ کے در پر سرٹکراتے اور بین الاقوامی ضمیر کو جھنجوڑتے رہتے ہیں۔ جیسا پاکستان 72 برس سے مسئلہ کشمیر پر کررہا ہے لیکن ان کی تقاریراور التجائیں دنیا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار وارباب اختیار یہ سمجھتے ہیں کہ از خود کبھی کوئی ایسا منظرنامہ بنے گا کہ جس میں پاکستانی وفد بھارتی ہم منصبوں کو منظقی انداز میں یہ بتلائے گا کہ تقسیم ہند کی روح کے مطابق مسلم اکثریتی علاقوں کو مملکت پاکستان کا حصہ بننا تھا اور اقوام متحدہ کی قراردادیں کشمیریوں کو حق خود اختیاری استعمال کرنے کی ضمانت دیتی ہیں اور یہ سنتے ہی بھارتی سورما کہیں گے کہ حضور یہ سامنے کی بات آپ نے پہلے کیوں نہ بتلائی، لیجیے ہم کشمیریوں کو ان کے مستقبل کے فیصلے کا حق دیتے ہیں ،تو یہ محض ہماری مجرمانہ خام خیالی یا خودفریبی ہے۔ غلامی کی زنجیریں اس طرح نہیں ٹوٹتیں۔ ظالم سے آزادی گفت وشنید سے حاصل نہیں ہوتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ متحارب قوتیں اسی وقت بامعنی مذاکرات کے لیے میز پر آتی ہیں جب ان میں سے کسی ایک کے کس بل نکل گئے۔ مثالوں کے لیے ماضی بعید میں چھلانگ لگانے کی ضرورت نہیں، آج کے یا ماضی قریب کے عالمی تنازعات اور جنگوں پر طائرانہ نظر ڈال لیں تو یہ واضح ہوجائے گا کہ بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات اسی وقت ہوتے ہیں جب ایک فریق شکست خوردہ ہو اور مسئلے سے نکلنے کے لیے بیتاب ہو، یا اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ طاقتور بنا مذاکرات اپنا کام کر جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور سے امریکہ بہادر کو پاکستان افغان طالبان سے مذاکرات کا مشورہ دے رہا تھا، لیکن اسے نہ سنا گیا کیونکہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی زعم میں تھے کہ وہ افغانستان میں من پسند نتیجہ لانے میں کامیاب ہوں گے لیکن کیا ایسا ہوا؟ غلط یا صحیح ، یہ افغان طالبان کی مسلح جدوجہد ہی تھی کہ جس نے امریکہ کو اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑنے اور کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد مجبور کردیا کہ وہ مزاکرات کی میز پر آئے اور اسی قوت سے امن معاہدہ کرے جسے وہ کل تک دہشت گردکہا کرتاتھا۔ معاہدے کے بعد بھی، افغان طالبان نے عالمی طاقت اور اس کے حواریوں سے مرعوب ہوئے بنا ، دشمن پر دبائو ڈالنے کی حکمت عملی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ امریکہ کے مقابلے میں دنیا کی سب سے زیادہ تنہا، پس ماندہ اور وسائل سے محروم افغان طالبان کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ انہوں نے عالمی طاقت اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان میں جیتنے نہیں دیا۔ جب افغانستان میں جنگ زوروں پر تھی، تو امریکہ اور اتحادیوں نے مشرق وسطی میں عراق، لبیا اور شام پر یک طرفہ جنگ مسلط کر کے مطلوبہ نتائیج حاصل کرنے کی کوشش کی جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔ عراق و لیبیا میں حکومتیں تبدیل ہوگئیں، ان ممالک کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا گیا اور ان کی قیادت کو مجرمانہ طور پر قتل کر دیا گیا پر عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی اصول منہ دیکھتے رہ گئے۔ فلسطین بھی ہمارے سامنے ہے۔ عالمی نکتہ نظر اور حق و انصاف کی بات ایک طرف اور زبردست کا ڈنڈا ایک طرف۔ اسرائیل کس اصول، ضابطے اور قانون کے تحت فلسطینیوں کو ان ہی کی زمین سے بیدخل کررہا ہے؟ لیکن کیا کوئی اسے روک سکا؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد مذاکرات صرف میدان جنگ کی کامیابیاں سمیٹنے اور فاتحین کی مرضی مسلط کرنے کے لیے ہوئے۔ پاکستان جب کمزور حیثیت میں بار بار یہ گردان کرتا ہے کہ مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل ہونا ہے تو دشمن اور دوست سب کو یہ پیغام ملتا ہے کہ اس معاملے پر زبانی جمع خرچ کے علاوہ ہم نے کچھ اور نہیں کرنا۔ پاکستان کے اس غیرحقیقت پسندانہ بیانیے نے بھارت کی ہندو انتہاپسند قیادت کو یہ حوصلہ دیا کہ وہ بزور طاقت کشمیر کی علامتی خود مختاری ختم کرکے اسے بھارت کا حصہ بنا لے۔ کشمیریوں کی جذبہ حریت کو سلام کہ وہ نامساعد ترین حالات کے باوجود بھارت کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں، لیکن تنہا وہ کب تک لڑ سکیں گے؟ 5 اگست کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جو اقدامات کیے اگر ان کا توڑ نہ کیا گیا، تو کشمیری اپنی ہی دھرتی پر جلد اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے اور وہاں بھارتی تسلط کا خواب پورا ہوجائیگا۔ پاکستان کی طرف سے بھارت کی اس غیراعلانیہ جاری جنگ کا کیا ممکنہ جواب ہوسکتا ہے؟ اس کا آغاز سفارتکاری کی زبان سے ہے۔ یہ مضمون نگار وزیراعظم عمران خان کو طبل جنگ بجانے کا مشورہ نہیں دے رہا، لیکن خدا کے لیے دشمن کو یہ یقین بھی نہ دلوائیں کہ باتوں کے علاوہ اب ہم سے کچھ نہ ہوگا۔ قومی سلامتی کے مسلے پر اگر کوئی ریاست جنگ کو پہلے مرحلے میں ہی خارج از امکان قرار دے دے تو اس کا فائدہ دشمن ہی کو ہوتا ہے۔ سفارتکاری میں ابہام اکثر ضروری ہے۔ آپ یہ نہ کہیں کہ ہم جنگ کریں گے، لیکن یہ بھی نہ کہیں کہ ہم جنگ نہیں کریں گے۔ پاکستان کی طرف سے بار بار مذاکرات کی دعوت اور مقبوضہ کشمیر میں جاری مسلح مزاحمت پر معذرت خواہانہ روئیے نے دشمن کو حوصلہ دیا ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک ہماری قومی سلامتی کی ہر سرخ لکیر کو عبور کرتا چلا جائے۔ وزیراعظم کو پارلیمینٹ میں ایسا معصومانہ سوال کرنے کی ضرورت نہیں کہ کیا بھارت کے 5 اگست کے اقدام کے جواب میں بم دے ماروں؟ لیکن د شمن اور دنیا کو یہ پیغام دینے اور اس خدشے میں مبتلا رکھنے کی ضرورت یقیناہے کہ پاکستان کسی بھی قسم کی جوابی کارروائی کرسکتا ہے، یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ذلت آمیز امن اور کھلی جنگ کے درمیان بھی تصادم کی کئی منازل ہیں۔ سب کو خوش کرکے کبھی قومی سلامتی اور مفادات کا تحفظ نہیں کیا جاسکتا۔ صرف مذاکرات سے مسئلہ کشمیر کبھی حل نہیں ہوگا۔ اس فکری مغالطے کو جتنا جلد ہم اپنے ذہن سے کھرچ کر نکال دیں، اتنا ہی اچھا ہے۔