کورونا کی وبا کے باعث کئی ہفتوں تک مقید رہنے والے لوگوں کے لئے مختلف پہلوئوں سے لکھ رہا ہوں۔ ان مشکل ، کٹھن دنوں کو کسی نہ کسی طرح گزارنا ہے۔ تمام تر طبی احتیاط کے بعد بہترین طریقہ یہ ہے کہ توبہ، استغفار، تلاوت میں وقت گزارا جائے۔تسبیحات کو بھی اپنی زندگی میں اہمیت دینی چاہیے کہ اللہ کا ذکر اور مسنون دعائیں بھی تھراپی کا ایک حصہ ہیں۔رب کریم سے گفتگو کر کے ، اپنی معروضات پیش کرکے جو سکون ملتا ہے، اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اپنے فراغت کے لمحوں کا ایک حصہ کتابیں پڑھنے میں صرف کریں۔ مطالعہ کی عادت ان دنوں میں بنی تو آئندہ زندگی میں کام آتی رہے گی۔ برسوں پہلے ایک صاحب مطالعہ شخص کی بات سنی تھی کہ اب زیادہ تر نان فکشن کتابیں پڑھتا ہوں، فکشن پڑھنے کے بجائے بڑے ناولوں پر بنی فلمیں دیکھ لیتا ہوں۔اس کے بعد دلچسپی پیدا ہوئی کہ بڑے ناولوں پر فلمیں دیکھی جائیں۔تجربہ ناقابل فراموش رہا۔ فلموں کے حوالے سے ابتدا میں ہمارا ذوق سطحی تھا۔ کالج کے زمانے تک گھر میں ٹی وی تک نہیں تھا۔تعلیم سے فراغت کے بعد ڈراموں ، فلموں سے شناسائی ہوئی۔چھوٹے شہر کے رہائشی ، کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں تھا۔ جو فلم مشہور ہوتی، وہ دیکھ لیتے۔جب لاہور ملازمت کے لئے آئے اور ہاسٹلز میں رہنا پڑا تب سینما میں جا کر فلمیں دیکھنے کا موقعہ ملا۔ان دنوں ہر فلم اچھی لگتی تھی۔ آج ان میں سے کسی کو دوبارہ دیکھنا پڑے تو حیرت ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے 1995-96ء میں’’ Desperado ‘‘ نام کی ایک فلم آئی تھی، جس میں معروف ایکشن ہیرو انتونیو بیندریس نے کام کیا تھا، ان کا ہیرسٹائل ان دنوں بڑا مقبول ہوا، سلمیٰ ہائیک ہیروئن تھی۔دوتین بار دیکھی تھی۔ ابھی سال دو پہلے وہی فلم Hboپر لگی تھی، بڑے شوق سے اہلیہ کو متوجہ کیا کہ دیکھو یہ فلم میں نے سینما جا کر دیکھی تھی، بڑا مزا آیا۔ وہ ساتھ دیکھنے بیٹھ گئیں۔ کچھ ہی دیر بعد مجھے باقاعدہ خفت ہوئی کہ ایسی چھوڑو قسم کی بچکانہ فلم کی کیا توجیہہ پیش کی جائے، یہی حال چارلیز اینجلز کے ساتھ ہوا۔ اب تو ایسی فلموں کا نام لیا جائے توہم صاف مکر جاتے ہیں کہ یہ کون سی فلم ہے ، اچھا …کیا اس زمانے میں لگی تھی، یاد ہی نہیں ۔سوچ کا یہ ارتقا ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ نہ ہو تو تشویش ہونی چاہیے۔ لاہور میں اپنے ابتدائی برسوں میں ایک بڑے باذوق فلم بیں دوست بنے۔ آج کل نیوجرسی، امریکہ ہوتے ہیں، ان دنوں علامہ اقبال میڈیکل کالج کے جس ہاسٹل میں خاکسار آئوٹ سائیڈر کے طور پر دن گزار رہا تھا، وہ بھی کم وبیش ویسی صورتحال سے دوچار تھے۔ فرق صرف یہ کہ ہمارا طب سے دور دراز کا تعلق نہیں جبکہ مجید انجم ڈاکٹر تھے، مگر کنگ ایڈورڈ سے فارغ التحصیل۔ڈاکٹر مجید نے ہمیں گلزار، کمل ہاسن اور دیگر معروف بھارتی آرٹ ڈائریکٹرز سے متعارف کرایا۔ طریقہ کار ان کا دلچسپ تھا۔تب وہ ہاسٹل سے اپنے بھائی کے گھررحمان پورہ شفٹ ہوچکے تھے۔اکثر ویک اینڈز پر رات کے کھانے پر مدعو کرتے، اچھر ہ کے کسی ہوٹل میں ہم کھابا اڑاتے اور پھر کڑک چائے پی کر رات کو کم از کم دو آرٹ فلمیں دیکھی جاتیں، صبح ناشتے کے بعد ان فلموں پر سیر حاصل گفتگو کی جاتی۔مجھے تو کبھی ایسے لگتا ہے کہ یہ بھی قدرت کی مہربانی تھی۔ ایک بونگے فلم بیں کو حقیقی فلموں سے متعارف کرانے، ذہنی تناظر وسیع کرنے کا کام ۔جو پیارے ڈاکٹر مجید انجم نے ادا کیا۔ احمد بشیر نے اپنے سدابہار خاکوں کی کتاب اپنے دوست ممتاز مفتی کے نام کرتے ہوئے لکھا ،’’ مفتی تمام زندگی مجھے جنون سکھاتا رہا اور میں اسے عقل ، دونوں ناکام ہوئے۔‘‘ خاکسار تو خیر اپنے دوست کو کیا سکھاتا، انہوں نے ہمیں بعض نہایت عمدہ آرٹ فلموں سے متعارف کرایا اوریہ سمجھایا کہ کمرشل سینما اورمتوازی سینما یا آف بیٹ فلموں میں کیا فرق ہے؟ کمل ہاسن کی خاموش تجرباتی فلم پشپک(Pushpak) ڈاکٹر مجید انجم کے ساتھ ہی دیکھی۔ بات فلموں کی ہور ہی تھی،ذاتی حوالے کی طرف چلی گئی۔فلمیں دیکھنے کے دو تین طریقے ہیں۔ سادہ یہی ہے کہ اپنے پسندیدہ یونرا(Genre)یعنی کیٹیگری میں گوگل کر کے ٹاپ ٹوئنٹی فلمیں نکال لیں اور انہیں یوٹیوب ، ٹورنٹ یا نیٹ فلیکس پر ڈھونڈکر دیکھنا شروع کر دیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ پچھلے برسوں میں آسکر ایوارڈ یافتہ فلمیں دیکھنے کا سلسلہ شروع کریں۔ نہایت آسانی سے گوگل کر کے آپ پچھلے ساٹھ ستر برس کی شاہکار آسکر ایوارڈ جیتنے والی فلمیں تلاش کر سکتے ہیں۔آسکر ایوارڈ میں مختلف کیٹیگریز ہیں، بہترین ڈائریکٹر، بہترین اداکار، اداکارہ، سپورٹنگ اداکار، سپورٹنگ اداکارہ وغیرہ، ایک بہترین فلم کی کیٹیگری بھی ہے۔اس پر توجہ دیں۔ جیسے پچھلے سال جنوبی کوریا کی فلم پیراسائیٹ(Parasite) کو بہترین فلم کے ساتھ دیگر اہم ایوارڈ بھی ملے۔ 2018ء میں گرین بک Green Book اور 2017 میں The Shape of Waterکو بیسٹ فلم کا آسکر ایوارڈ ملا۔دو ہزارسولہ میں مون لائیٹ، دو ہزار پندرہ میں سپاٹ لائٹ جبکہ دو ہزار چودہ میں برڈ مین(Birdman)کو یہ اعزاز ملا۔دو ہزار تیرہ میں 12 Years a Slaveجبکہ اس سے ایک سال پہلے Argoکو ایوارڈ ملا۔اس کیٹیگری میں بہت سی مشہور فلمیں آتی ہیں، ان میں سے جو دیکھ رکھی ہیں، صرف ان کے نام لکھ رہا ہوں، باقی تفصیل آپ نیٹ سے دیکھ لیں۔ممبئی کی جھونپڑ پٹی پر بنی فلم سلم ڈاک ملینئر نے2008 میں جبکہ 2006 میں جیک نکولسن اور میٹ ڈیمن کی فلم The Departed، دو ہزار چار میں کلنٹ ایسٹ وڈ کی ملین ڈالر بے بی ،دو ہزار تین میں لارڈ آف دی رنگ سلسلے کی آخری فلم نے آسکر جیتا۔ دو ہزار ایک میں ایک نوبیل انعام یافتہ ریاضی دان کی سچی کہانی پر بنی دلکش فلم A Beautiful Mind نے ایوارڈ جیتا، رسل کرو نے یہ شاندار کردار ادا کیا۔رسل کرو نے ایک سال پہلے اپنی شہرہ آفاق فلم گلیڈایٹر Gladiator میں کام کر کے بہترین اداکار کا ایوارڈ بھی جیتا تھا۔1997ء میں یہ اعزاز مشہور فلم ٹائٹینک Titanic اور 1995میںBraveheart کو ملا، جسے میل گبسن نے اپنی اداکاری سے امر کر دیا۔1994ء میں ٹام ہینکس نے Forrest Gump میں چونکایا ، اس سے ایک سال پہلے ہالوکاسٹ پر بنی فلمSchindler's List کو ایوارڈ ملا۔بانوے میں کلنٹ ایسٹ وڈ کیUnforgiven، اکانوے میں انتھونی ہاپکنز کی The Silence of the Lambs اور انیس سو نوے میں کیون کوسنر کی شاہکار فلم Dances With Wolves نے بیسٹ پکچر کا آسکر جیتا۔اس فہرست میں بے شمار اے پلس کلاس کی فلمیں آتی ہیں۔ 1988 میں Rain Manآئی جسے ڈسٹن ہاف مین نے اداکاری سے امر کر دیا۔بیاسی میں گاندھی، 1979میںہاف مین اور میرل سٹریپ کی فلم Kramer vs. Kramer اور چھہتر میں روکی نے ایوارڈ لئے۔1975ء میں جیک نکولسن کی فلم "One Flew Over the Cuckoo's Nest نے تمام مین کیٹیگریز کے ایوارڈز جیت کر تہلکا مچایا۔چوہتر میں گاڈ فادر پارٹ ٹو جبکہ1972 میں گاڈ فادر جیسی لیجنڈری فلم کو ایوارڈ ملا۔ پاکستان میں گاڈ فادر ناول، اس پر بنی فلم اور یہ پھبتی جس سیاستدان پر چسپاں کی گئی، اسے کوئی نہیں بھول سکتا۔1962ء میں لارنس آف عریبیہ، 1959 میںBen-Hurاور ستاون میں The Bridge on the River Kwai جیسی کلاسیکل شہرت رکھنے والی فلموںکوآسکر ملا۔ آسکر کی فہرست پر اعتراضات بھی کئے جاتے ہیں۔ کئی بار زیادہ مستحق فلم کی جگہ نسبتا کم درجے کی فلم کو ایوارڈ ملا، مگر مجموعی طور پر آسکرکی فہرست میں شامل فلموں کا اپنا وزن اور کریڈیبلٹی ہے۔ فلمیں دیکھنے کا ایک طریقہ اپنے پسندیدہ اداکاروںکو فالو کرنا ہے۔ بڑے اداکار بڑے پراجیکٹس ہی میں کام کرتے ہیں ، ان کی فلمیں کی ایک خاص حیثیت ضرور ہوتی ہے۔ گاڈ فادر کے مارلن برانڈواور اسی فلم کے اداکارالپچینو ، ’’گڈ فیلاز‘‘ کے رابرٹ ریڈ فورڈ ، ’’گینگز آف نیویارک‘‘ کے ڈینئیل ڈے لیوس، ٹائٹینک کے ڈی کیپریو،’’اے فلیو اپان اے ککوز نیسٹ‘‘ کے جیک نکولسن ہوں یا ’’گڈ وِ ل ہنٹنگ‘‘ کے میٹ ڈیمن، گلیڈایٹر کے رسل کرو،’’ فارسٹ گمپ‘‘ کے ٹام ہینکس،’’سیون‘‘ کے بریڈ پٹ، ’’پرسوٹ آف ہیپی نیس‘‘ کے ول سمتھ، ٹریننگ ڈے کے ڈینزل واشنگٹن ہوں یا پھر اسی طرز کے کچھ اور بڑے فنکار، ان کی بیشتر فلمیں قابل دید اور عمدہ ہوتی ہیں۔ اس سے بھی بہتر طریقہ بڑے ہدایت کاروں کو فالو کرنا ہے۔ ایک شاہکار فلم بنانے والا ڈائریکٹر کبھی فارغ نہیں بیٹھے گا۔ ایسا نہیں کہ اس کا زرخیز ذہن ایک آدھ فلم کے بعد کچرا فلمیں بنائے۔ وہ کچھ اور شاہکار بھی تخلیق کرے گا۔ اس لئے بڑے ڈائریکٹرز کو فالو کرنا بھی ایک اچھا طریقہ ہے۔ الفریڈ ہچکاک،انگمار برگمین، سرجی لیون، فرانسس فورڈ کپولا،مارٹن سکورسیس،سٹیون سپیل برگ، جیمز کیمرون،سٹینلے کیوبرک، اکیرا کوروساوا، کلنٹ ایسٹ وڈ،رومن پولنسکی سے لے کر کرسٹوفر نولان، کوئنٹن ٹارن ٹینو تک جیسے ہدایت کاروں کے کام کا جائزہ لیا جائے تو بہت سی شاندار فلمیں مل جاتی ہیں۔ ایک دن فرصت کے چند گھنٹے اسی ادھیڑ بن میں لگائے اور ڈیڑھ درجن عالمی شہرت یافتہ ہدایت کاروں کی ایوارڈ یافتہ فلموں کی فہرست بنائی تھی۔ اگر قارئین اس میں دلچسپی لیں تو اگلے کسی کالم میں وہ شیئر کر دوں گا۔ اس کے لئے مگر دست طلب دراز کرنا پڑے گا۔ ای میل یا فیس بک میسج کی صورت میں دلچسپی ظاہر کی گئی تب ہی ایسا ہو پائے گا۔