تقریباً سبھی دوست پودوں پھولوں سے میرے عشق کو جانتے ہیں اس لئے شجر کاری کے لئے مشورہ لیتے ہیں‘ملک سلمان اور شہباز کے ساتھ ناشتہ رینالہ خورد میں تعینات سول جج مجیب الرحمن کے ہاں کیا‘نوتعمیر رہائشی کالونی میں شجر کاری کی بہت گنجائش ہے۔میں نے بتایا کہ کس جگہ کون سے پودے لگائے جائیں، مجیب الرحمن ایک جوگنگ ٹریک اور اس کے ساتھ پھول لگانے کی بابت بتا رہے تھے ۔میں نے کہا کہ بجلی کی تاروں کے نیچے آنے والی دھریکوں کو ختم نہ کریں دوسری جگہ لگا دیں۔ واپسی پر گاڑی رائے ونڈ مانگا روڈ پر ڈال دی۔ اس روڈ پر گیارہ سال بعد آنا ہوا تھا ۔ حافظے میں شیخ محبوب کا چہرہ ابھر آیا۔ شیخ محبوب سے تین ملاقاتیں رہیں۔ ایک روز دفتر بیٹھا تھا کہ تقریباً 80برس کے شیخ محبوب مجھے ڈھونڈتے آ گئے۔ استقبالیہ سے کہا اندر بھیج دیں۔ سفید ریش‘فربہ بدن‘ نظر کی عینک لگائے شیخ صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ کہنے لگے دو سال پہلے آپ کی کتاب ’’پاکستان میں گلاب‘‘پڑھی‘ تب سے ڈھونڈ رہا ہوں۔ بس اتنا معلوم تھا کہ آپ صحافی ہیں اس لئے کئی اخبارات کے دفتروں میں گیا۔ ایک جگہ کسی نے بتایا کہ آپ ’’دن‘‘ اخبار میں ہوتے ہیں۔ کچھ دیر بیٹھے۔ بتایا کہ گلبرگ میں رہائش ہے۔حسین چوک کے پاس شاید گارمنٹس کا کاروبار تھا۔ پھر بتایا کہ رائے ونڈ مانگا روڈ پر 53ایکڑ رقبہ ہے۔ میرے ہاتھوں شجر کاری چاہتے ہیں۔ میں نے ہفتہ وار چھٹی کے دن ساتھ جانے کی حامی بھر لی۔ شیخ محبوب مقررہ دن گھر آ گئے‘ہم سیدھے پتوکی گئے‘ کچھ نرسری والے واقف تھے۔ میں نے گھچوں کی شکل میں پھول دینے والے فلوری بنڈاگلاب‘ خوشبو والے سینٹی فولیا۔ گلابی ‘ پیلے اور سفید رنگ والے گلاب کی بیلیں اور پھر دس فٹ تک کا منی درخت بن جانے والے سٹینڈرڈ روز کے مجموعی طور پر 400پودے لئے۔ فارم پر آ گئے۔ شیخ صاحب نے وہاں ایک چھوٹا سا ڈیرہ بنا رکھا تھا۔ بیٹا تبلیغی جماعت سے منسلک تھا۔ ہمارے پہنچنے سے قبل ملازمین نے بکرا ذبح کر رکھا تھا۔ شیخ محبوب کے فرزند نے خود گوشت بنایا اور ایک دیگچے میں پکنے کو رکھ دیا۔روٹیاں تنور سے آ گئیں ۔فارم کے تازہ امرود بھی دستر خوان کا حصہ تھے ۔ مین روڈ سے اترتے ہی کچی سڑک ان کے رقبے میں داخل ہورہی تھی۔ دائیں بائیں امرود کا باغ‘ راستے کے دونوں طرف سفیدے کے درخت۔ ڈیرے کے پاس بیری کے چند تناور درخت۔ کیسی اچھی اور موقع کی جگہ۔ ہم کھانا کھا رہے تھے کہ خریدے ہوئے پودے پہنچ گئے ۔میں نے شیخ محبوب،ان کے فرزند ،تبلیغی جماعت کے تین کارکنوں اور امرود کے ٹھیکے کی بات کرنے کے لئے کے پی کے سے آئے دو حضرات کو شجر کاری کی سائنس سمجھائی۔ بتایا کہ ایسے درخت لگائے جائیں جن کے پھل چھوٹے ہوں تاکہ پرندے انہیں کھانے کے لئے دور دور سے آئیں۔ درخت ہمیشہ دیسی ہونے چاہئیں تاکہ مقامی ماحول ان کی چھائوں ‘ لکڑی‘ پتوں‘ چھال‘ پھولوں اور پھل سے فائدہ اٹھا سکے۔ فارم کو آنے والی کچی سڑک کے دونوں طرف میں نے سٹینڈرڈ روز لگانے کی ہدایت کی۔ شیخ محبوب احمد نے ایک پیلے رنگ کے پھول والا پودہ میرے ہاتھوں سے لگوایا‘ ڈیرے کے اطراف گلاب کی بیلیں لگائی گئیں۔ باقی پودے کھیتوں کے کنارے لگانے کا کہہ کر ہم نکل آئے۔ چند روز بعد شیخ محبوب پھر دفتر تشریف لائے اور شکریہ ادا کیا۔یہ تیسری ملاقات تھی۔ میرے پاس ان کے گھر کا نمبر تھا۔ دو چار بار فون کیا تو ملازمہ بتاتی: بابا جی سو رہے ہیں‘طبیعت خراب ہے۔ پھر رابطہ نہ کر سکا اور نمبر بھی کہیں گم ہو گیا۔ گاڑی فارم میں داخل ہو چکی تھی۔ امرود کا باغ جانے کب سے کٹ چکا تھا۔ برسیم لگی تھی۔ کچی سڑک پر دھول اڑ رہی تھی‘ بیری کے درخت ویرانیوں کی گھنی داستان بنے کھڑے تھے۔ ڈیرے کے اندر ملازمین کی رہائش گاہیں بن گئی تھیں۔ میں گلاب کے پودوں کو ڈھونڈ رہا تھا‘ کہیں پر ایک پودا بھی نظر نہ آیا۔ ہارن دیا لیکن کوئی باہر نہ نکلا‘گاڑی فارم کے آخری کونے تک لے جانے والی ادھڑی ہوئی کچی سڑک پر ڈال دی۔ آٹھ دس امرود کے پودے نظر آئے۔ دور چند جامن دکھائی دیے۔ باقی رقبے پر صرف برسیم تھی۔ برسیم کے پھول ابھی نہیں نکلے‘ پھولوں سے پہلے اس کی قربت میں ایک ٹھنڈک اور چارے کی مخصوص باس مجھے لپٹا لیا کرتی ہے‘ ایک بار تو میں ایسے ایک کھیت میں بانہیں پھیلا کر لیٹ گیا تھا۔ آج برسیم جانے کیوں اجنبی سی لگ رہی تھی۔ سبب میں جان چکا تھا۔ بس تصدیق چاہتا تھا۔ گاڑی واپس موڑی تو ڈیرے سے ایک دبلے پتلے بزرگ نمودار ہوئے۔ ہمیں استفہامیہ نظر سے دیکھنے لگے۔ میں نے پوچھا یہ شیخ محبوب صاحب کا فارم ہے‘وہی جن کے فرزند تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں، جو گلبرگ لاہور میں رہتے ہیں۔ بزرگ نے اثبات میں سر ہلایا۔’’شیخ صاحب تو کئی سال ہوئے انتقال کر گئے‘‘۔مجھے چند لمحے قبل سلمان سے کہے اپنے الفاظ یاد آ گئے ’’ویرانی بتاتی ہے بابا فوت ہو گیا‘‘۔میں نے اپنا کارڈ بزرگ کو تھمایا کہ شیخ صاحب کے فرزند کو دے دیجیے گا۔بتایئے گا کہ آپ کے والد کے جاننے والے ہیں۔ برسوں سے میں اس فارم پر شجر کاری کا قصہ دوستوں کو سناتا رہا۔لوگوں کو تلقین کرتا کہ شیخ صاحب کے فارم پر میری شجر کاری ضرور دیکھیں۔معلوم نہیں کوئی میرے کہنے پر کبھی ادھر آیا بھی یا نہیں۔ سوچا کرتا کسی دن ادھر سے گزرا تو درختوں پر طیور کے جھنڈ دیکھوں گا۔بچوں کو شہتوت اورجامن توڑتے دیکھوں گا، 20اقسام کے گلابوں کا حسن آنکھوں میں اتاروں گا۔یہاں تو سب خاک میں اترا پڑا تھا۔