امریکاآج کل ایک تباہ کن ،بدترین اورمشکل بحران کی جکڑ میں ہے ،ایک طرف کوروناوائرس ہے اوراس وقت تک جب یہ سطورحوالہ قلم کررہاہوں ایک لاکھ دس ہزار سے زائدامریکی کوروناوائرس سے ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ انیس لاکھ امریکی کوروناسے متاثرہوچکے ہیں۔کورونا سے ہلاکتوں اورمتاثرین کی یہ سب سے زیادہ شرح اوراعدادوشمارہیں۔دنیاکے 200ممالک میں کوروناسے ہوئی اموات کی یہ ایک تہائی بنتی ہے!کوروناسے امریکی معیشت بدترین جمود کا شکار ہو کر برباد ہوچکی ہے اورگزشتہ دوماہ سے اب تک امریکی معیشت کو5 ہزارارب ڈالرسے زائد کا نقصان ہوچکاہے جبکہ اس دوران اب تک 4کروڑ سے زائد امریکی بیروزگارہوچکے ہیں۔ دوسری طرف سفیدفام امریکی پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ایک سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی ہلاکت پرغصے میں بے قابوہوکرلاکھوں سیاہ فام امریکی سڑکوں پر نکل آئے ہوئے ہیں اورتادم تحریرگزشتہ سات یوم سے زورداراحتجاج کررہے ہیں،اس احتجاج کی شدت اورحدت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اسکے باعث 26 ریاستوں اور واشنگٹن سمیت 40 بڑے شہروں میں کرفیو نافذ کردیاگیاہے ،لیکن کرفیو کو توڑ کرسیاہ فام ایک آندھی کی طرح تباہی مچائے ہوئے ہیں۔ دنیا میں اس سے زیادہ نفرت انگیز ملک اس وقت اور کوئی نہیں۔امریکہ پوری دنیاپراپنی چوہدراہٹ قائم کرنے،اپنی دھاگ بٹھانے اوررعب جمانے کے خناس میں مبتلاہے۔لیکن اس کی ظالمانہ اور غیر منصفانہ پالیسیوں کی بدولت پوری دنیا اسے ناپسند کرتی۔ اس کی خارجہ پالیسی سے حقیقی معنوں میں ظلم کی گھن آرہی ہے۔ اس کے حکمرانوں کی سوچ کی محدودیت، بدتمیزی کی حد کو پہنچی ہوئی ہے۔امریکی قیادت کے حوالے سے انسانی ہمدردی، مروت، غمخواری ،دلجوئی ،ترحمی ،عدل وانصاف جیسے الفاظ ایک مضحکہ خیز عجوبہ خیال کیا جاتا ہے۔ غرضیکہ پوری دنیا میں امریکہ کا شخصی تاثر متوحش اورتنفر کا ایک چکرا دینے والا مجموعہ ہے، اور اگر دنیا میں امریکہ کے بارے میں رائے پوچھی جائے کہ امریکہ اچھاہے یابراتوسب اسکے خلاف نفرت پرمبنی رائے پیش کریں گے۔اس حقیقت کا کچھ اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1990 ء کی مردم شماری میں صرف 6 فیصد امریکیوں نے اپنا نسلی نسب صرف امریکی کے طور پر درج کیا۔ بقیہ چورانوے فیصد کا تعلق مختلف نسلوں اور گروہوں سے تھا جو گزشتہ دو سو سال کے دوران دنیا کے مختلف خطوں سے نقل مکانی کر کے، ایک نئی زندگی کی تلاش میں امریکہ آئے اور ہمیشہ کے لئے یہیں کے ہو کے رہ گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1820 ء سے لے کر اب تک ساڑھے چھ کروڑ تارکین وطن امریکہ کی شہریت حاصل کر چکے ہیں اور صرف 1998 ء میں 6 لاکھ 60 ہزار افراد نے اس مد میں امریکی آبادی کے حجم میں اضافہ کیا۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی آبادی اس وقت 32.8.2ملین یعنی لگ بھگ 33کروڑ ہے اور آبادی کے لحاظ سے چین اور بھارت کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ ٹرمپ نے سیاہ فام احتجاجی مظاہرین پر الزام لگاتے ہوئے کہاکہ یہ پیشہ ورانہ شر پسندوں اور فاشسٹ مخالف گروہ اینٹیفا (ANTIFA)کے دہشت گردہیںجوامریکہ کی تباہی چاہتے ہیںاور اتوار 31مئی کوٹرمپ نے اینٹیفا کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ یہ تنظیم 1920 ء کی دہائی میں اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی کے خلاف قائم ہوئی تھی۔ پھر اس کا دائرہ دیگر یورپی ممالک اور امریکہ تک پھیل گیا۔ تاہم چند سال میں ہی اس کا وجود ایک طرح سے ختم ہو گیا۔ 1960ء میں یہ تنظیم یورپ میں ایک بار پھر منظرعام پر آئی اور 1970 ء کی دہائی میں امریکہ پہنچ گئی۔ اس تنظیم سے وابستہ لوگوں کی اکثریت سوشلسٹوں اور کمیونسٹسوں پرمشتمل ہے جو خود کو جبرکے خلاف انقلابی کہتے ہیں۔اینٹی فسطائیت کے خلاف جنم لینے والی ایک احتجاجی تحریک ہے جو نازی خیالات، سفید فام نسل پرستی کی بالا دستی کے پیرو کار اور نسل پرستانہ رویے کے خلاف مظاہرے کرتی ہے۔اس تحریک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسکا کوئی مرکزی رہنما نہیں ہے اور وہ آزادانہ طور پر کام کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تحریک تارکین وطن اور مسلمان مخالف پالیسیوں کے خلاف بھی احتجاج کرتی ہے جو صدر ٹرمپ کے دور میں نافذ کی گئی ہیں۔حکومت مخالف اور سرمایہ دارانہ نظام مخالف خیالات رکھنے والی تحریک کے اراکین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتشار پسندوں سے زیادہ متاثر ہیں بجائے بائیں بازو کی جماعتوں کے۔اس تحریک کا ذکر امریکہ میں بڑے پیمانے پر دوبارہ تین سال قبل اس وقت سامنے آیا جب انھوں نے ریاست ورجینیا کے شہر شارلٹسول میں سفید فام نسل کی بالادستی کے لیے نکالی جانے ریلی کی مخالفت کی تھی۔ ہیلری کلنٹن کے بیان کا مختصر ذکر ضروری ہے جس سے امریکی معاشرے کے تلخ حقائق کی تصدیق بھی ہوتی ہے اور ہمیں امریکی معاشرے کی مضبوطی کا پہلو دیکھنے میں مدد ملتی ہے۔ ہیلری کا بیان یوں ہے ہم ایک بار پھر سیاہ فام امریکیوں کے چرچ سے لاشیں اٹھا رہے ہیں ایک بار پھر نسلی امتیاز کے حامیوں نے اسے نسلی تشدد میں تبدیل کردیا ہے۔یہ ہماری وہ تاریخ ہے جو ہم پیچھے چھوڑ کر آگے جانا چاہتے تھے مگر ہم امریکہ میں انقلاب اور نسل کے بارے میں حقائق کو نہیں چھپاسکتے ہمیں اس کی ذمہ داری لیکر اسے تبدیل کرنا ہوگا۔ آج بھی کالے امریکیوں کے مقابلے میں گورے امریکیوں کو مکانات کیلئے قرضے تین گنا زیادہ ملتے ہیں۔ آج بھی ہمارے اسکول 1960 ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ نسلی امتیاز کا شکار ہیں اور آج بھی ایک گورے بچے کے مقابلے میں 500 سیاہ فام بچوں کی سانس کی بیماری سے موت کی تلخ حقیقت موجود ہے۔ بطور قوم ہمیں اس حقیقت پر نظر ڈالنا چاہئے۔ہیلری کلنٹن ، باراک اوباما اس انداز فکر میں اکیلے نہیں بلکہ ان امریکی ریاستوں میں مضبوط اور حکمراں ری پبلکن پارٹی کے سابق صدارتی امیدوار مٹ رومنی ، ریاست اوہائیو کے گورنر جان رسک سمیت کئی درجن نمایاں لیڈر بھی نسلی امتیاز کی علامت کنفیڈریٹ فلیگ کو ہٹانے اور نسلی مساوات کیلئے آواز اٹھا کر نقصان اٹھا چکے ہیں مگر اپنا موقف رکھتے ہیں۔