پاکستان تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اختلافات اب کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ فواد چوہدری اور شبلی فراز نے بروز اتوار چھٹی والے دن الیکشن کمیشن کے خلاف پریس کانفرنس کی اور خوب الزامات لگائے۔فواد احمد چوہدری کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اپوزیشن کا ترجمان بن چکا ہے۔ اس سے پہلے اعطم سواتی نے الیکشن کمیشن کے بارے میں بہت سخت زبان استعمال کی۔الیکشن کمیشن نے جواب میں ان وزرا کا نوٹس بھجوادیئے ہیں۔ حکومت ہر قیمت پر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو 2023ء کے الیکشن میں استعمال کرنا چاہتی ہے جبکہ الیکشن کمیشن اس حوالے سے تحفظات رکھتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک مشین پر 37 اعتراضات لگائے ہیں۔ اعظم سواتی جو وزیر ریلوے ہیں نے سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے رشوت لی ، اس ادارے کو جلا دینا چاہیئے جواب میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نمائندے نے میٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔اسی طرح ایوان صدر میں ہونے والی میٹنگ جو الیکٹرانک مشین اور ای ووٹنگ کے بارے میں تھی الیکشن کمیشن نے اس میٹنگ کا بھی بائکاٹ کیا۔ نادرا اور الیکشن کمیشن آف کے درمیان بھی خط و خطابت چل رہی ہے۔الیکشن کمیشن پاکستان نے نادرا کو متنبہ کیا ہے کہ جس طرح نادرا نے الیکشن کمیشن کو مخاطب کیا ہے وہ درست نہیں۔ پاکستان میں جو ادارے طاقت کا منبع جانے جاتے ہیں ان میں ملٹری اسٹیبلیشمنٹ، ایوان صدر، عدلیہ اور مقننہ ہے۔حکومتی تبدیلی کبھی مارشل لاء کی صورت میں ہوتی ہے۔جیسے سکندر مرزا، ایوب خاں، یحییٰ خاں ، ضیاالحق اور مشرف اقتدار میں آئے۔ کبھی ایوان صدر نے حکومتوں کو فارغ کیا جسے جونیجو، نواز شریف اور بے نظیر کو گھر بھیجا گیا۔ بھیجنے والے ضیاالحق، غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری تھے۔ اس طرح یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو عدالت نے گھر بھیجا۔ کبھی کبھی بازی پلٹ بھی جاتی ہے نواز شریف نے جنرل جہانگیر کرامت کو فارغ کیا اور جسٹس سجاد علی کو گھر بھیج دیا تھا۔ اب چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کا کردار ہے۔حکومتی ارکان کا الزام ہے کہ وہ اپوزیشن کی طرف داری کر رہے ہیں اور انتخابی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات بھی بہت زیادہ ہیں۔الیکشن کے انعقاد کے سلسلہ میں وہ مکمل اختیارات رکھتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر الیکشن پر بہت زیادہ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔اب جبکہ الیکشن کمیشن کے دو ممبران موجود نہیں ہیں اورصرف دو سندھ اور بلوچستان کے ممبر موجود ہیں ،پنجاب اور کے پی کے کے ممبران کا ابھی انتخاب نہیں ہوا۔ فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے دوسرے دو ممبران پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اختیارات استعمال کریں اور چیف الیکشن کمشنر کو حکومتی اقدامات میں مداخلت سے روکیں کیا حسین اتفاق ہے کہ چیف الیکشن کمشنر جناب سکندر سلطان راجہ کی تقرری پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کی تھی اور اب حکومت ہی سب سے زیادہ ان کی مخالفت کر رہی ہے۔بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بھی تازہ ہوگی کہ فواد چوہدری پہلے مشرف کے ترجمان تھے اور پھر ایک وقت میں یوسف رضا گیلانی کے اور اب وہ عمران خاں کی حکومت میں وزیر اطلاعات ہیں۔ وہ اپنے موقف کی وکالت بہت شدومد سے کرتے ہیں اور بعض اوقات حالات کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں۔ فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ 2023 ء کے الیکشن اصلاحات کے بغیر نہیں ہونگے ہم 2028ء تک کا انتظار نہیں کر سکتے۔ 2023 ء کے الیکشن میں دو سال کا عرصہ رہ گیا ہے اور حکومت اور الیکشن کمیشن کے اختلافات مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ اپوزیشن نے اپنا وزن چیف الیکشن کمشنر کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔مسلم لیگ نواز کی طرف سے وزرا کے خلاف توہیں عدالت کے اقدامات درج کروانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی وزرا کے موقف کی مخالفت کی ہے۔ حکومتی موقف اپنی جگہ،وزرا کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک خود مختار ادارہ ہے اسکی حرمت کا خیال ہر حال میں رکھا جانا چاہئے۔ اگر حکومت چیف الیکشن کمیشن سے مطمئن نہیں ہے تو وہ انکو آئینی طریقے سے ان کے عہدے سے الگ کر سکتی۔ اب وزرا کا موقف یہ ہے کہ ہم الیکشن کمیشن کے بطور ادارہ خلاف نہیں ہیں ہم چیف الیکشن کمشنر کے بطور فرد رویے کے خلاف ہیں۔ یہی بات جب مسلم لیگ نواز کرتی ہے کہ ہم بطور ادارہ فوج کے خلاف نہیں بلکہ فوج کے کچھ افراد کے مخصوص رویے کے خلاف ہیں۔حکومتی وزرا کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے سکندر سلطان راجہ صرف کسی فرد کا نام نہیں ہے اس وقت وہ چیف الیکشن کمشنر کو طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی قیادت کر رہے ہیں ان کی مخالفت بطور چیف الیکشن کمشنر کریں گے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے چیف الیکشن کمشنر کے پیچھے کھڑا ہو گا۔ اس وقت ملک جس نازک دور سے گزر رہا ہے ہم مزید محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔افغان صورتحال کی بنا پر امریکہ، برطانیہ، کنیڈا، اسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ہمارے خلاف صف آرا ہیں۔نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی عین وقت پر پاکستان سے واپسی اسی بات کا ثبوت ہے۔بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بھی ہو گی 1988ء میں جب روس افغانستان سے گیا تھا تو پاکستان میں پہلے جونیجو کی حکومت گئی اور بعد میں جنرل ضیاالحق زندگی سے گئے۔اب جب امریکی افغانستان سے جارہے ہیں تو پاکستان میں بھی کچھ تبدیلیاں آ سکتی ہے۔افغان حکومت قائم ہو چکی ہے یہاں پر حالات ایسے نہیں ہونے چاہئیں کہ یہاں کی حکومت چلی جائے۔حکومتی اراکین کو ہوش کے ناخن لینا ہو نگے ۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہا تھوں بہت تنگ ہیں اور حکومت کا مسئلہ اس وقت صرف الیکٹرانک مشین ہے جو ووٹ ڈالنے کے کام آئے گی اس سے پہلے دو سال ہیں جن میں عوام کو کچھ ریلیف ملنا چاہیے۔ ابھی تک حکومت کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ امن و امان سب سے پہلے اور کاروبار بعد میں۔ ابھی تک پولیس کی ریفارمز نہیں ہو سکیں۔ تھانہ کلچر ، سب کچھ وہی ہے۔محکمہ مال میں کمپیوٹر آنے سے صرف رشوت کا ریٹ بڑھا ہے باقی سب کچھ وہی ہے۔