لاکھ ملتے ہیں ہم بہانے سے پیار چھپتا نہیں چھپانے سے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا پھر تم نکالو ہمیں فسانے سے کیسی دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ وہ جنہیں ایک ایس ایچ او کی مار کہا جا رہا تھا کہنے والا یقینا خفت محسوس کر رہا ہو گا۔بہرحال ہمیں تو اس صلح سے بہت لطف آیا کہ اس کے ساتھ کئی شعر بھولے بسرے یاد آنے لگے: گلے سے لگتے ہی جتنے گلے تھے بھول گئے وگرنہ یاد تھیں ہم کو شکائتیں کیا کیا کوئی مانے نہ مانے ہمیں تو اس کا اندازہ تھا کہ معاملہ بغاوت کا ہے ہی نہیں یہ بھی اچھا ہوا کہ ن لیگ ٹریپ نہیں ہوئی وگرنہ وہ خاصی خراب ہوتی۔ میاں شہباز شریف اسے پی ٹی آئی کا اندرونی معاملہ کہہ کر طرح دے گئے یا دامن بچا گئے وگرنہ ناسمجھ تو للچا رہے تھے کہ بندھے بندھائے اتنے سارے ممبران اسمبلی جھولی میں آن گریں گے۔ سچ مچ یہ ہونا تھا عمران خاں کی انا اپنی جگہ قائم رہی مگر وہ جنہوں نے بیٹھے بٹھائے یتیم ہو جانا تھا کچے دھاگے سے بندھے آئے: جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار اے کاش جانتا نہ تری رہگزر کو میں بڑی دلچسپ باتیں سننے میں آتی رہیں کہ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ جہانگیر ترین کے پاس تو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا جو لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں وہ بہت پرخلوص اور بے غرض ہیں۔ ویسے جہانگیر ترین کنگز میکر ہیں اور ان کا دسترخوان بہت وسیع ہے اور پھر دسترخوان پر صرف طعام ہی نہیں ہوتا انعام بھی ہوتا ہے۔ تبھی تو یہاں سب قیام کرنا پسند کرتے ہیں۔ایک بات تو جہانگیر ترین کی درست تھی کہ ساری چینی اور آٹا مافیا بلکہ دوائی مافیا کو چھوڑ کر ان اکیلے کو ٹارگٹ کیا جا رہا تھا۔ ایسی ہی بات پانامہ میں نواز شریف اور ان کے حواری کہہ رہے تھے۔ مگر کیا کریں ہر شخص تو اس قابل نہیں ہوتا کہ اسے عبرت یا مثال بنایا جائے۔ منیر نیازی نے بھی امتیاز دکھایا تھا: مجھ میں ہی کچھ کمی تھی کہ بہتر میں ان سے تھا میں شہر میں کسی کے برابر نہیں رہا سچی بات یہ ہے کہ ہمیں تو جہاں سے بھی ایسی صورت حال مل جائے کہ تفریح کا سامان ہو‘ تو ہم نہال ہو جاتے ہیں۔آپ تنقید مت کریں بس لطف اٹھائیں کہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے، کسی کو حرف آخر نہ سمجھیں۔ یہ سیاست ہے سائنس نہیں۔ابھی ایک اور دلچسپ لڑائی مراد سعید اور قادر پٹیل کے درمیان میں دیکھ رہا تھا۔ ویسے پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل ہیں بڑے مزے کے آدمی۔ ایک تو ان میں سسنس آف ہیومر بھی بہت ہے۔ بہت بے لحاظ ہیں۔ ان کا خاص شکار مراد سعید ہیں۔ قادر پٹیل کے اسمبلی میں کئے گئے اشارے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی پارلیمنٹ کی زبان اور ادب کی اور۔ بہرحال اب کے قادر پٹیل کا ذوق سخن بھی سامنے آ گیا۔ ہوا یوں کہ مراد سعید نے قادر پٹیل کو مقابلے کا چیلنج دے دیا اور بری طرح پھنس گئے۔قادر پٹیل کو اللہ ایسا موقع دے۔ یہ ویسے بھی لائٹ ویٹ اور ہیوی ویٹ کا مقابلہ بن جاتا ہے جو درست نہیں۔قادر پٹیل نے بات تو کی مگر دو شعر کمال کے فٹ کئے: ہے کیا جو کس کے باندھے میری بلا ڈرے کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں حیران ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ہاتھ رکھوں نوحہ گر کو میں میرا کپتان ہمارے اپنے دو صد ارب ڈالر لائے گا۔ایک سو ارب ڈالر قرض دینے والے ملکوں کے منہ پر مارے گا اور دوسرا سو ارب عوام پر لگائے گا۔ کہتے ہیں انسان کے اندر کا بچہ جلدی نہیں مرتا۔ مزے مزے کی باتوں میں ہمارے سامنے بوم بوم شاہد آفریدی کا ایک دلچسپ سوال آ گیا۔ ویسے مجھے حیرت ہوئی کہ ان کے بھول پن میں ایک ذھانت کہ سادگی و پرکاری۔ بعض اوقات سیدھی سی بات میں کتنے بل ہوتے ہیں۔شاہد آفریدی تو نہایت آرام سے پوچھ لیا کہ جناب عمران بھائی!آپ نواز و زرداری کو چھوڑیں۔ بتائیں آپ کیا کر رہے ہیں‘اب بتائیے خان صاحب اس سوال کا کیا جواب دیں! وہی جو منیر نیازی نے کہا تھا: کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے ویسے جب سے صحافیوں نے شاہد آفریدی سے سیاست میں آنے کا پوچھا ہے وہ کچھ کچھ محسوس کرنے لگے ہیں اور ان کی گفتگو میں طرحداری آ گئی ہے۔ انہوں نے ایک اور پیاری بات بھی صاحب کے گوش گزار کی کہ بہتر ہے پہلے پہلا پاکستان ٹھیک کر لیں پھر نئے کا بھی سوچا جا سکتا ہے۔ مزیدار بات یہ کہ مہنگائی میں پسے ہوئے لوگ پوچھتے ہیں یہ کون سا پاکستان ہے؟یہ میرا پاکستان ہے نہ تیرا پاکستان ہے۔ بس ایک مرتبہ پھر اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں یعنی حکومت اور ہم خیال گروپ کی صلح۔آپ یوں سمجھ لیں کہ دونوں ہی یہ ہجر برداشت نہیں کر سکتے تھے۔اگرچہ وصال پر، ان پر انگلیاں اٹھنا تھیں اور وہ اٹھیں۔ مگر وہ لازم و ملزوم ہیں۔ان کے گروپ نمائندوں کو آپ بزدار سے ملاقات کرنا پڑی۔اب لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے۔ جو بھی ہے عثمان بزدار نے ان کی بات غور سے سنی اور ان کی ترقیاتی سکیموں کو بجٹ منصوبہ میں شامل کرنے کی یاد دہانی کروائی ہے۔ اس پر عمل نہ ہوا تو پھر بھی کچھ نہیں ہو گا۔ آخر میں وزیر اعظم کی سچی بات کہ چین سے بدعنوانی کے خلاف سیکھا جا سکتا ہے اور یہ کہ 23 سال گزر گئے نیب کرپشن پر قابو نہ پا سکا۔ مگر اصل بات تو یہ ہے کہ نیب انتہائی کامیاب ادارہ ہے کہ جس مقصد کے لئے بنا وہ مقاصد تو سب نے پورے کئے۔باری تو پھر سب کی آنی ہے۔ دوسری بات یہ کہ چین سے کیا سیکھنا ہے حضرت عمرؓ کا حوالہ تو آپ بھی دیتے ہیں۔کسی کی کیا مجال تھی کہ کرپشن کر جاتا بہرحال خطرہ ٹل گیا۔ حکومت محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ ایک شعر: عمر گزری ہے دربدر اپنی ہم ہلے تھے ذرا ٹھکانے سے