پاکستانی سیاست میں طاقت ور طبقات اور حکمران اتحاد یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اقتدار کا سرچشمہ عوام ہیں۔شفاف الیکشن ہی کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت ملک میں سیاسی استحکام کی ضمانت فراہم کرسکتی ہے ۔مقتدر قوتوں کی سرپرستی میں قائم ہونے والی حکومت پہلے ہی دن سیاسی ساکھ کھودیتی ہے۔ لوگ اسے جائز اور نمائندہ حکومت تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قائم موجودہ حکومت کا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت طرح المیہ یہ ہے کہ یہ حکومت اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ مستعار لی گئی بیساکھیوں کے سہارے قائم ہے۔ موجودہ حکومت کی بقا کا کلی انحصار طاقت ور اداروں کی آشیرباد کے سوا کچھ اور نہیں۔پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتیں ٹوٹ چکی ہیں اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت موجود ہی نہیں۔بدقسمتی سے یہ فیصلہ عوام نہیں کرتے کہ کس اس مرتبہ کس جماعت یا سیاستدان کو حکومت کرنے کا موقع دینا ہے۔ہمنوا جماعت کے حق میں سیاسی فضا سازگار بنانے کے لیے دھونس دھاندلی سے لے کر ہر حربہ استعمال کیا جاتاہے۔ میڈیا کو امیج سازی کے لیے بے دریغ استعمال کیا جاتاہے ۔ الیکٹیبلز اس جماعت کے گرد اکھٹے ہونے لگتے ہیں۔ جیسے کہ آج کل پیپلزپارٹی پر قسمت کی دیوی مہربان نظر آتی ہے۔ عوامی مقبولیت کی پاکستان میں کوئی اہمیت نہیں ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو عمران خان کو اس قدر مخاصمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ عوامی آراء جاننے کے حوالے سے معروف ادارے گیلپ پاکستان نے چند دن قبل ایک سروے جاری کیا ۔ سروے کے مطابق 61 فیصد شہریوں نے عمران خان کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا جبکہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 36 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پرہیں۔گیلپ پاکستان ایک آزاد ادارہ ہے۔ اس کے سربرہ جناب اعجاز شفیع گیلانی کا پی ٹی آئی کی طرف رتی بھر جھکاؤ بھی نہیں ۔ مطلب یہ ہوا کہ آج کی تاریخ میں الیکشن ہوں تو عمران خان جس گھوڑے پر شرط لگائے گا وہ فتح کے جھنڈے گاڑے گا۔مقبولیت کی لہر پر جب کوئی لیڈرسوار ہوتاہے تو سیاسی حرکیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس لیڈرکے نام پر ہر حلقے میں دس سے پندرہ فی صد ووٹ پڑتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تمام تر دباؤ اور ترغیبات کے باوجود کوئی پی ٹی آئی چھوڑ کر جانے کو تیار نہیں۔اس قدر عوامی پذیرائی کے باوجود عالم یہ ہے کہ عمران خان پر ستر سے زیادہ مقدمات ملک کے دور دراز علاقوں میں قائم ہوچکے ہیں۔بلوچستان پولیس بھی انہیں گرفتار کرنے لاہور پہنچ چکی ہے۔ اس طرح کے مقدمات ہر اس سیاست دان یا شخصیت کے خلاف اچانک قائم ہونے لگتے ہیں جو ــ’’آؤٹ آف فیور ‘‘ ہوجاتاہے۔ماضی میں بے شمار سیاستدانوں، صحافیوں اور کاروباری شخصیات کے خلاف غیر معروف لوگ ایف آئی آر درج کراتے رہے ہیں۔ ان لغو ایف آئی آرز کی بنیاد پر پولیس گرفتاری کے درپے ہوجاتی ہے۔عدالتوں کے دھکے کھاتے کھاتے بالاخر لوگ سودے بازی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں یا پھر مقابلہ کرتے کرتے، تھک کر ڈھیر ہوجاتے ہیں۔یہ کوئی نیا پیڑن نہیں بلکہ گزشتہ کئی عشروں سے ـ’’ایف آئی آرز کا کارخانہ‘‘ چل رہاہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی اس طرح کے جھوٹے پرچے کاٹے جاتے تھے۔حتیٰ کہ ایک طاقتور میڈیا ٹائیکون تک کو بھی نہ بخشا گیا۔ گلگت تک کی عدالت نے ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔اقتدار کے سنگھاسن پر آج شہباز شریف اور آصف علی زرداری فائز ہیں۔ جھوٹے مقدمات آج بھی قائم ہورہے ہیں۔ سیاسی لوگ گرفتار ہوتے ہیں اور ان پر دہشت گردی کی دفعات لگتی ہیں۔ احتجاجی مظاہروں یا الیکشن ریلیوں پر لاٹھی چارج ہوتاہے۔ نگران حکومتیں پارٹی بن چکی ہیں۔ پنجاب پولیس اور انتظامیہ پاکستان تحریک انصاف کو کچلنے کے لیے کمر بستہ ہے۔ ان کا طرزعمل آئین اور سیاسی روایات کے مغائر ہے۔ نگران حکومت کا کام شفاف الیکشن کرانے میں الیکشن کمیشن کی مدد کے سوا کچھ نہیں ۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ پنجاب حکومت تاریخ میں اپنا نام ایک سخت گیر اور پی ٹی آئی مخالف نگران دورکے طور پر لکھوانا چاہتی ہے۔ غالباًوہ یہ بھول گئے ہیں کہ نگران اقتدارچندماہ کا مہمان ہے۔حکومت چاہے تو اچھی سیاسی روایات قائم کرسکتی ہے لیکن اس نے نگران حکومتوں کے قیام کا مقصد ہی فوت کرادیا ہے۔اب لوگ نگران حکومتوں کو مقتدر قوتوں کا آلہ کار قراردیتے ہیں جو شفاف الیکشن کرانے کم ،چرانے کی زیادہ کوشش کرتی ہیں۔ ملک میں جو سیاسی عدم استحکام ہے اس کی جڑ کمزور سیاسی جماعتیں ہیں۔سیاسی جماعتوںکا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بطور سیاسی ادارے کے کام نہیں کرتیں۔ برسراقتدار آنے کے بعد وہ اپنی جماعت اور کارکنان کویکسر فراموش کردیتی ہیں۔ تحریک انصاف نے جماعت کو منظم کرنے ، کارکنان کی تربیت کرنے اور کمیونسٹ پارٹی آف چین یا بھارتیہ جنتاپارٹی کی طرح کروڑوں کارکنان پر مشتمل پارٹی تشکیل دینے کے بجائے اداروں پر انحصار کیا جس کا خمیازہ آج اسے بھگتنا پڑ رہاہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت سحر انگیز تھی۔ لوگ ان سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔ برسراقتدار آئے تو بیوروکریسی اور خوشامدی لیڈروں نے انہیں قائد عوام اور فخر ایشیا کا خطاب دیا۔رفتہ رفتہ بھٹو کا عوام سے رابطہ کٹ گیا۔ وہ تنہا ہوتے گئے۔ سرکاری افسروں پر ان کا انحصار بڑھ گیا۔ایک تاریک شب انہیں راولپنڈی جیل میں موت کے گھاٹ اتاردیاگیا ۔ ہمالیہ رویا اور نہ جنرل ضیا ء الحق کے خلاف کوئی موثر احتجاج ہوا۔ اگرپارٹی مضبوط ہوتی تو فیصلہ کن مزاحمت ہوتی۔ نون لیگ کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ نوازشریف نے پارٹی کو بار بار آزمایا۔ہر بار پارٹی نے انہیں مایوس کیا۔ وہ حکومت سے نکالے گئے تو پنجاب اور مرکز میں حکومتیں ہونے کے باوجود پارٹی موثر احتجاج نہ کرسکی۔ لندن سے لاہور گرفتار ی دینے ایئرپورٹ اترے۔ بقول خواجہ آصف کے چند سو لوگ بھی نہ جمع ہوسکے۔کیونکہ نون لیگ کارکنوں کی نہیں لیڈروں کی جماعت ہے جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنے سیاسی قبلے کا تعین کرتے ہیں۔پاکستان کی سیاست دہائیوں سے شخصیات یعنی بڑے لیڈروں اور مقامی سطح کے الیکٹیبلز کے گرد گھومتی ہے۔سیاسی جماعتوں کو جب بھی موقع ملا انہوں نے پارٹی کو منظم کرنے ، کارکنان کی آواز سننے کے بجائے بیوروکریسی اور ایجنسیوں کے ذریعے حکومت کرنے کو ترجیح دی۔ مقامی حکومتیں جو جمہوریت کو پروان چڑھانے کی نرسری ہیں انہیں چڑپکڑنے نہیں دیاگیا۔چنانچہ مقامی سطح کی لیڈرشپ ابھری اور نہ ہی روایتی سیاسی خانوادوں کو کوئی سنجیدہ چیلنج درپیش ہوا۔ یہ وقت بھی گزرجائے گا لیکن ملک کی مقبول سیاسی جماعت اور لیڈر کو دیوار سے لگانا پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہیں۔عقل کا تقاضہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کے درمیان ورکنگ ریلیشن قائم کرانے کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات کیے جائیں تاکہ ملک میں سیاسی استحکام قائم ہو۔ شفاف اور قابل بھروسہ الیکشن ہوں نہ کہ جھوٹے مقدمات میں انہیں الیکشن کے عمل سے باہر کرنے کے حربے اختیار کیے جائیں۔ عوام کو اپنی مرضی کے حکمران چننے دیئے جائیں۔کٹھ پتلی تماشہ ابھی ختم ہونا چاہیے ۔ بہت ہوگیا۔