مولانا فضل الرحمن کے ممکنہ احتجاج اور دھرنے نے فضا کو انتہائی بوریت سے بھر رکھا ہے۔ ایک زاہد خشک کا سا مولویانہ سیاسی منظر نامہ ہے اور ممکنہ دھرنے کا سوچ کر تو اور بھی کوفت ہوتی ہے کہ آخر کو عوام کے بہلانے کے لئے ان کے پاس کیا ہو گا۔احتجاجی نعروں سے بھی آخر کب تک عوام انٹرٹین ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں کپتان کے دھرنے کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ سرشام ہی رنگین مناظر سے ٹی وی کی سکرینیں سج جایا کرتی تھیں۔ اور تبدیلی آئی ہے کے موسیقیت بھرے گیتوں پر تبدیلی کے آرزو مندوں کے مخلوط رقص ۔ حسینائوں کے جھرمٹ کو زوم ان کرتے کیمرے تفریح طبع کا سب سامان مہیا کرتے اور اس طرح کہ لوگ فلمیں ڈرامے دیکھنا بھول گئے۔ ایک ہی ٹکٹ میں سب میسر ہوتا ۔ پھر گلیمرس اور ہنڈسم کپتان کی آمد پر سازو آواز جلترنگ بج اٹھتے۔ عمران دے دھرنے وچ اج میرا نچنے نوں جی کردا اے‘ اور پھر رقص میں ہے سارا جہاں کے مصداق ہر خاص و عام جھوم اٹھتا تھا۔ ایسے رنگین و حسین دھرنے کے مقابل مولانا کا یہ ممکنہ مولویانہ دھرنا۔ سیاسی فضا کو ایک عجیب خشکی اور بوریت سے بھر ہی دیا تھا کہ زاہد خشک کا سا منظر اچانک ٹک ٹاک تبدیلی سے دوچار ہو گیا۔ ایک ویڈیو سامنے آئی کہ وزارت خارجہ کے عظیم الشان کانفرنس روم کا منظر ہے۔ فضا میں ایک سرکاری طنطہ اور دبدبہ موجود ہے۔ یہ بڑا کمرہ اور اس کے چہار جانب شاندار کرسیوں کی طویل قطاریں۔ ایک سرے پر آخر اختتام پذیر ہوتی ہوئی جہاں کرسی صدارت موجود ہے۔ جس کی شان ہی الگ ہے کہ اس کے اطراف ایک پاکستان کا جھنڈا ہے اور پس منظر میں بانی پاکستان کی تصویر ماحول کو ایک وقار اور شان عطا کرتی ہے۔ پھر اچانک اس سارے ماحول میں ایک ٹک ٹاک حسینہ دندناتی ہوئی آتی ہے اور کرسی صدارت پر عین بانی پاکستان کی تصویر کے سامنے بیٹھ کر ٹک ٹاک کی ویڈیو بنانے لگتی ہے اس کے بیک گرائونڈ میں مبینہ طور پر بھارتی گانا چل رہا ہے۔ یہ حسینہ کبھی کرسی پر بیٹھتی ہے پھر اٹھ کر خراماں خراماں حکومت پاکستان کے اس انتہائی اہم دفتر کے کانفرنس روم میں گھومتی ہے۔ یوں جیسے کسی فلم کے سیٹ پر ہو۔ اس ساری کارروائی کی خبر شاید کسی کو نہ ہوتی اگر وہ لڑکی اپنے سوشل میڈیا کے اکائونٹ پر یہ ویڈیو اپنے فالورز سے شیئر نہ کرتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ساتھ ہی اس نے ایک تصویر بھی شیئر کی جس میں وہ اس کرسی صدارت پر بیٹھی ہے۔ ساتھ پاکستان کا جھنڈا اور پس منظر میں بانی پاکستان کی تصویر۔ نیچے لکھا ہے وزیر اعظم حریم شاہ: لمحوں میں یہ ویڈیو وائرل ہو کر کارسرکار کا منہ چڑانے لگتی ہے۔ ہر شخص سوال کرتا ہے اور حیران ہوتا ہے کہ آخر یہ کون لڑکی ہے اور کیسے اس کی رسائی اتنے حساس ادارے کے کانفرنس روم تک ہو گئی۔؟ کس نے اس کو اس کمرے تک جانے کی اجازت دی؟ کون سی اہم سرکاری شخصیت اس ٹک ٹاک لڑکی کی پشت پر موجود ہے؟ اور پھر یہ کہ یہ ویڈیو صرف پاکستان ہی میں نہیں دیکھی گئی بلکہ دنیا بھر میں بشمول بھارت میں اس کو دکھایا گیا۔ ذرا سوچئے کہ پاکستان کے امیج کو کتنا نقصان پہنچا۔ پاکستان اور بھارت جنگ کے دھانے پر کھڑے ہیں کشمیریوں کو پاکستان کے نام پر بھارت سرکار نے ناقابل بیان اذیتوں سے دوچارکر رکھا ہے۔ وزارت خارجہ کے کمیٹی روم میں ایک لڑکی ٹک ٹاک کی ویڈیو بناتی پھرتی ہے جس کے پس منظر میں انڈین گانا چل رہا ہے۔ یہ سراسر پاکستانی قوم کی تضحیک اڑانے والی حرکت ہے۔ اب تو یہ کہنا بھی بیکار ہی لگتا ہے کہ ذمہ داران کو اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ انکوائری ہونی چاہیے۔ اس لئے کہ حکومت میں ایسی ہی غیر سنجیدگی پائی جاتی ہے جیسی ٹک ٹاک ویڈیو بنانے والوں میں۔ یقین نہیں آتا تو حکومت کے حالیہ ایک دو فیصلوں کو دیکھ لیجیے۔ فلم سنسر بورڈ کے چیئرمین کے تقرر پر متعلقہ کمیونٹی کے لوگوں کا احتجاج جاری ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی یوٹرن لے لیا جائے گا۔ جس طرح آج تک کوئی اس پراسرار فیصلے کی وجہ نہیں جان سکا کہ بزدار صاحب کے سر پر پنجاب کے وزارت اعلیٰ کے تاج کو سجانے کی کیا وجہ تھی۔ اس طرح قوم اس انوکھے فیصلے کی وجہ جاننے سے قاصر ہے کہ مہوش حیات کو کس کھاتے اور کون سی خدمات کے صلے میں ستارہ امتیاز دیا گیا۔ اس پر سوشل میڈیا پر خوب ہاہا کار مچی تبدیلی سرکار کی مگر تسلی پھر بھی نہ ہوئی تو اس کو پاکستانی لڑکیوں کی تعلیم کا سفیر مقرر کر دیا۔!حد ہو گئی کمال ہو گیا۔ یعنی پورے پاکستان میں مہوش حیات سے بہتر کوئی خاتون تبدیلی سرکاری کی نگاہ ناز میں جچی ہی نہیں! پاکستان کی پڑھی لکھی پروقار‘ اعلیٰ اخلاقی کردار واقدار کی حامل خواتین سکتے کے عالم میں ہیں: کڑی کمانوں کے تیر بے اعتبار ہاتھوں میں آ گئے ہیں دُعا نئی تھی سو اب یہ خمیازہ اثر بھی نیا نیا ہے یہی وہ ٹک ٹاک قسم کی تبدیلی تھی جس کے لئے تحریک انصاف صاف چلی اور شفاف چلی تھی اور تبدیلی کے آرزو مندوں نے ’’آئے گا عمران بنے گا نیا پاکستان کے آہنگ پر مخلوط رقص کئے تھے۔ میرے عزیز ہم وطنو! غم اور سکتے کی کیفیت سے باہر نکلو اور اس ٹک ٹاک تبدیلی کا خیر مقدم کرو!