جس قصبے میں ہمارے والد قبلہ کا پیر خانہ تھا وہ اس نسبت سے اب بھی ہماری محبت کا مرکز ہے۔ جس ہستی کے ہاتھ پر والد قبلہ نے بیعت کی تھی وہ ہمارے دادا مرشد بھی ہوئے۔ اس قصبے سے ہمیں دلی عقیدت ہے۔جب بھی موقع ملتا ہے اپنے دادا مرشد کے مزار پر حاضر بھی ہوتے ہیں اور ان کے جد امجد میراں سبحان کے دربار پر بھی جانا اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ بھیرہ ہمارے گاؤں سے پچیس تیس کلومیٹر دور ہے۔ بھیرہ کے قریب پھلروان کے قصبے سے ایک بزرگ ہمارے گھر آتے جاتے رہتے تھے۔عموماً سائیکل پر سوار ہوتے۔باذوق آدمی تھے۔ اسی لیے ہمارے یہاں ان کا آنا جانا تھا۔ ان کی ایک بہن ہمارے دادا مرشد کے صاحب زادے کے عقد میں آئیں تو تعلق دوگونہ ہو گیا۔شعر کہتے تو نہ تھے البتہ سخن فہم تھے۔ فارسی اردو اور پنجابی تین زبانوں پر مشتمل ایک نظم لہک لہک کر سناتے تھے دیدم کہ ایک شخصے سائیکل چڑھیدہ بودہ ٹوپی تھی اس کے سر پر مونچھیں کشیدہ بودہ میں نے جو پوچھا ان سے صاحب کہاں ہو جاتے بولے وہ تنگ ہو کر شاید رنجیدہ بودہ وہ بزرگ تو یہ نظم سناتے کچھ دیر رکتے جو ماحضر ہوتے وہ ہم حاضر کر دیتے۔ جو نان جویں ہوتا وہ تناول فرماتے اور رخصت طلب کرتے۔شاید اس وقت تک سیاست دانوں نے وہ کام ابھی نہیں شروع کیا تھا جس کی وجہ سے وہ آج کل بدنام بھی ہیں اور مشہور بھی۔آج کل معاملہ الٹا ہے ایسا نہیں کہ کچھ بھی نہیں چاہیے میاں درویش کو بھی نان ِجویں چاہیے میاں (ویسے سچی بات ہے کہ شاعری میں ہم اس میاں کے استعمال پر سخت شاکی ہیں۔سیاست میں جو میاں ہے وہی کافی ہے۔شاید یہ جون ایلیا نے میاں کا استعمال شروع کیا تھا مگر اب تو جیسے اس کی بہتات ہے۔جو بھائی بھی تھوڑی سی خود نمائی کا اظہار چاہتا ہے ایک دم شعر میں میاں گھسیڑ دیتے ہیں۔ویسے ہی جیسے اسٹیبلشمنٹ نے ایک نہیں دو میاں صاحب کو سیاست میں گھسیڑا تھا) سیاست میں گھسڑم گھسیڑ کی کہانی یوں تو بہت پرانی ہے مگر بہت سوں نے تو ہمارے سامنے جنم لیا۔نوے کے انتخابات میں مقتدرہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ایک اتحاد کی پشت پر تھی۔نہ وہ اتحاد اسلامی تھا نہ جمہوری مگر وہ پکارا اسی نام سے جاتا تھا اور اب بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔لاؤ لشکر کی تشریح کی اجازت نہیں ہے اور نہ یارا۔ذرا سا انقلابی بننے کا شوق درپئے آزار ہو جاتا ہے۔ اتنا کہنے میں بہر حال کوئی مضائقہ نہیں کہ اس لاؤ لشکر میں باقی اسلحے کے علاوہ بہت سارے قلم کی بازی لگانے والے بھی شامل تھے۔بازی ویسے سر دھڑ کی لگائی جاتی ہے مذکورہ لوگوں نے " قلم دھڑ " کی بازی لگا دی۔اسی بازی کے نتیجے میں وہ پاور سٹرکچر میں داخل ہوئے۔آج کل کروڑوں میں کھیلتے ہیں جیسے بچپن میںکینچے کھیلتے تھے۔ کینچے کھیلنا وہی کھیل ہے جسے ہم اپنی مادری زبان میں بنٹے کھیلنا کہتے ہیں۔یہ گروہ اقتدار میں کیا آیا ہر شے الٹ پلٹ ہو گئی۔اس گروہ نے مقتدرہ کو ایک انجانے خوف کا احساس دلا کر اپنا کام جاری رکھا۔آج کل تو کہا جاتا ہے کہ مقتدرہ اڑتی چڑیا کے پر گن لیتی ہے یہ سمجھنا دشوار ہے کہ آخر سندھ کے گروہ سے کیا پریشانی لاحق تھی۔لوگ باگ مقتدرہ سے لاڈ پیار میں عہدے طلب کرتے۔بچوں کی طرح ضد کرتے آخر کار بچوں کی ضد اسی لاڈ میں پوری کر دی جاتی۔اس گروہ نے دست شفقت رکھنے والوں کو ہمیشہ ایک خطرے کا احساس دلا کر اپنا کام چلایا ہے۔ نوے میں آئی جے آئی کے انتخابات میں جیت کے بعد اخباروں میں اسی اتحاد کی طرف سے ایک اشتہار چھپا تھا ۔کہا باطل کو شکست ہوئی ہے۔وہ لوگ جو آج بھی پنجے جھاڑ کر عمران کی مخالفت کرتے ہیں اس وقت بے نظیر کی کردار کشی پر مامور تھے۔انہوں نے ان کے خلاف اشتہار بازی کی۔گویا وہ عوام کو کہنا چاہتے تھے یہ حق اور باطل کی جنگ ہے۔یہ اشتہار جن صاحبان کی دماغی کاوش کا نتیجہ تھا آج بھی کسی احساس گناہ کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔البتہ فرق اتنا ہوا ہے کہ اس گروہ کو اب اسی بے نظیر کے بارے میں نہ صرف خاموش رہنا پڑتا ہے بلکہ بے نظیر کی تعریف میں قْلابے ملانے پڑتے ہیں۔ذرا قلاب کے معنی پر بھی نظر ہو جائے تا کہ اس گروہ کو جاننے میں اور آسانی ہو جائے۔قْلاب وہ آلہ ہے جس سے تندور سے روٹی نکالتے ہیں۔اب اس قلاب کو ذہن میں رکھیے اور اس کے روٹی پکڑنے کے عمل کو بھی دھیان میں لائیں تو اش اش کرنا بنتا ہے۔اس کو کنڈی کہتے ہیں۔بھلا ہو ہماری ماں بولی کا کہ ایک ایک لفظ پورے کالم پر بھاری لگتا ہے۔ عبدالحمید عدم صاحب نے کسی سے پوچھا کہ تم بھی ترقی پسند ہو۔دوست نے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں۔ اس پر ارشاد فرمایا: کام کے لوگ تو بصد دقت ہر زمانے میں چند ملتے ہیں ورنہ اس خوش نصیب دنیا میں سب ترقی پسند ملتے ہیں اور پھلروان کے بزرگ کے بقول ٹوپی تھی اس کے پر مونچھیں کشیدہ بودہ ضروری نہیں مونچھیں ہوں تو کشیدہ ہوتی ہیں نہ نظر مونچھیں جتنی چاہے کشیدہ کر لیں۔ بچپن میں ہم اس بزرگ کی مذکورہ اشعار سن کر ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی حالت سے دو چار ہو جاتے تھے اب ان اشعار کو یاد کر کے اسی حالت سے دوچار ہیں۔