یہ ٹک ٹاک کیا ہے۔ اللہ رکھے اب تو قومی سطح پر ٹک ٹاک سٹار کے چرچے بھی ہونے لگے ہیں۔ ضرور کوئی بڑی چیز ہو گی جس کے سٹار بھی بن گئے ہیں اور آسمان شہرت پر جگمگا رہے ہیں۔ میں ان باتوں کو سرسری نہیں لیتا۔ نظرانداز کر کے دیکھ لیا ہے۔ یہ تو سر پر ہی چڑھتے جا رہے ہیں پہلی بار جب میں نے یہ لفظ سنا تو اس کے صوتی آہنگ سے اس کا ایک تصور باندھ لیا، مگر زیادہ توجہ نہ دی، بلکہ اہمیت نہ دی۔ ہمارے ہاں ایک ڈش ہے جو پہلی بار ہم نے طالب علم کے طور پر لاہور کے لکشمی چوک میں دیکھی تھی۔ شاید یہیں کی ایجاد ہو، اب تو یہ عام نام ہے، ٹکا ٹک، ایک تو اس کی آواز جیسے وہ تیار کی جاتی ہے، دوسرا وہ عمل جو بکرے کے اعضاء کو کاٹ پھینٹ کر قیمہ بنا دیتا ہے۔ خیال ہوا کہ اس کا یہ نام اسی لیے پڑا ہے۔ چرسی تکا، چپلی کباب، کڑاہی گوشت یہ نام کچھ ایسے ہی تلازمات سے بنے ہوں گے۔ اس لیے ٹکا ٹک اسی طرح کی چلبلی، نخرے بازی ہی نظر آئی۔ مگر پتہ چلا کہ اس کے ہاتھ ہمارے دفتر خارجہ میں وزیر اعظم کی کرسی تک جا پہنچے ہیں۔ ایک خاتون وہاں تک ٹہلتے ہوئے پہنچی ہیں اور ان کا یہ اقدام ٹک ٹاک سٹارڈم کا ایک بڑا معرکہ گنا گیا ہے۔ کوئی سوال نہیں اٹھا رہا یہ سکیورٹی کا مسئلہ ہے، کوئی نہیں کہہ رہا کہ یہ جاسوسی کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایسی ہی چلبلی خواتین دشمن نے پال رکھی ہوتی ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا یہ اگر کوئی کھیل ہے تو وہ کیا کھیل ہے۔ بس بتایا جا رہا ہے یہ ٹک ٹاک سٹار ہیں اور دھمکی دے رہی ہیں کہ مجھے چھیڑو تو ریحام خان سے بھی زیادہ خطرناک ہوں۔ پھر تو یعنی یہ سمارٹ موبائل کا کرتب نہ ہوا، کچھ بہت ہی سنجیدہ بات ہوئی۔ ان کی ایک ساتھی کو بھی میڈیا نے پیش کیا، وہ بھی کچھ فرما رہی تھیں۔ کچھ ان کا تذکرہ کیا کہ یہ کہاں کہاں موجود رہتی آئی ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ اور یہ سٹارڈم کیا ہے؟ ہم نے اپنے معاشرے میں ایسی بہت سی بلائیں پال رکھی ہیں۔ کبھی کبھی لکھتا بھی رہتا ہوں۔ گزشتہ دنوں می ٹو کا واویلا ہوا تو عرض کیا کہ یہ سب کس سمت کا سفر ہے۔ اب آواز آئی ہے کہ مردوں کو بھی می ٹو کا حق ہونا چاہئے۔ اندازہ ہے آپ کو اسی سے ہماری تہذیب و معاشرت کیسے تلپٹ ہو رہی ہے اور اس کے کیا ممکنہ اثرات ہو سکتے ہیں۔ ایک نہیں بے شمار چیزیں ہیں۔ میں سب کا تذکرہ کر کے ان کی مشہوری نہیں کرنا چاہتا۔ صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نہ صرف ایک غارت گر تہذیب عمل سے گزر رہے ہیں بلکہ ایسے احساسات کو بہت اتھلا،سطحی اور مصنوعی بناتے جا رہے ہیں۔ اس کے اندر جو خطرات مضمر ہیں، وہ اپنی جگہ مگر خود اس نوعیت کے افعال کو اسٹارڈم کا درجہ دینا ایک بہت ہی کھوکھلی زندگی کو فروغ دینا ہے۔ ہم نے نئے ہیرو بنا لیے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک صاحب کا تذکرہ ہمارے میڈیا پر آ رہا تھا۔ ایک سنجیدہ معاملے پر ان کی رائے کو بہت نمایاں کیا گیا۔ پوچھا، کون ہیں؟ ایک چینل نے ان کے نام کے ساتھ اداکار لکھا، دوسرے نے اینکر پرسن، تیسرے نے پولیٹکل ایکٹویسٹ اور چوتھے نے شاید سوشل ورکر گنوایا۔ یہ بالکل ایک دوسری کلاس ہے جو اس ملک میں فروغ پا رہی ہے۔ آپ کون ہیں، سوشل ایکٹویسٹ اور رائے ایسے دیتے ہیں جیسے برٹنڈرسل ہوں۔ ایک فرانسیسی ادیب نے امریکی دانشوروں پر پھبتی کسی تھی کہ وہ چاہے نوم چومسکی ہوں ٹی وی سے یوں چمٹے رہتے ہیں جیسے دانش بانٹنے کا یہی راستہ ہو۔ یہ امریکی ہی ہیں جنہوں نے پبلک انٹیلکچوئل کی اصطلاح گھڑی ہے۔ ایک بار ہمارے ایک سیاستدان/قانون دان کو ہمارا نمبر ایک عوامی دانشور قرار دیا گیاتھا۔ کم بختوں نے دانش کو بھی ٹکے سیر کر دیا ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے، عمومی قوت دانش کی سطح بھی گر کر یہاں آنا تھی جہاں ہم کسی ٹک ٹاک سٹار کو سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔ کسی سوشل ایکٹویسٹ کے سر پر کلغی سجائیں گے، انہیں اپنے مسائل کے حل کا مسیحا سمجھنے لگیں گے۔ تباہی ہی ہو گی نا تباہی۔ یہ جو سطحی اور مصنوعی دنیا ہے، اس نے علم کا بھی ناس مار رکھا ہے۔ کراچی میں ایک پنج ستارہ ہوٹل کی یخ بستہ فضائوں میں ایک سیمینار تھا۔ اشرافیہ کے کیا کیا توپ لوگ موجود تھے۔ ایک بہت ہی معتبر ادارے نے کرا رکھا تھا۔ (CSR)(سی ایس آر) کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی۔ یعنی بڑے اداروں کی سماجی ذمہ داری۔ مطلب یہی کہ یہ جو ہمارے معاشرت کے کمائو پوت ہیں وہ عام آدمی کے لیے بھی کچھ کریں۔ میں نے عرض کیا، چند روز پہلے ایک مضمون پڑھ رہا تھا۔ W.W.R.Dیعنی ڈبلیو ڈبلیو آر ڈی۔پلنگ سے اچھل پڑا کہ جا کر ڈکشنری میں دیکھوں یہ کیا ہے۔ پھر خیال آیا، ایسے لفظ انسانی ڈکشنریوں میں نہیں ہوتے۔ اچانک اس مضمون ہی سے سمجھ آ گیا کہ یہ مخفف ہے۔What Would have Regan done?یعنی ان حالات میں اگر ریگن ہوتے تو وہ کیا کرتے۔ ریگن اس وقت امریکیوں کے لیے ایک نظریاتی علامت بن چکے تھے۔ مجھے معلوم ہے یہ اصطلاح کہاں سے لی گئی ے کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو کیا کرتے۔ وہ اسے ریگن کی سطح پر لے آئے، عرض کیا یہ مخفات ایک گورکھ دھندہ ہے جس میں ہم اصل ایشو کو چھپا دیتے ہیں۔ ان دنوں بیجنگ 5کا بھی چرچا تھا۔ اس دن ایسی کئی مثالیں گنوائیں۔ پھر بتایا اچھے دن تھے جب ہم فلاحی کام کرتے تھے۔ برصغیر میں مخیر حضرات نے جتنا کام اس طرح رضاکارانہ طور پر کیا، وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پھر فلاحی اداروں کا تصور باقاعدہ یونیورسٹی کا ایک مضمون بن گیا جس کا نام ہم نے سوشل ورک رکھا۔ اس میں ماسٹر اور ڈاکٹریٹ ہونے لگی۔ یہ پھر بھی ایک اکیڈیمک تصور تھا۔ ایک قدم اور آگے بڑھ کر اب اسے سول سوسائٹی یا این جی او کا نام دے دیا گیا ہے۔ اب ہم ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے اسے CSRکا نام دے کر اس پر تقریریں کر رہے ہیں۔ یہ کارپوریٹ کلچر کا پھیلایا ہوا ایک جال یا پھندہ بن کر رہ گیا ہے۔ اس موضوع پر میں بہت لکھ چکا ہوں۔ اس وقت اس کی وضاحت نہ کر دی تو یہ نہ سمجھا جائے کہ میں موضوع سے چھلانگ لگا کر فرار اختیار کر رہا ہوں۔ اس وقت کہنا صرف یہ ہے کہ ہم نے علم کو بھی مصنوعی بنا دیا ہے، عقل و دانش کو بھی سطحی کر دیا ہے اور اچھے اچھے نیکی کے کاموں کو ایک چلبلی سی چھیڑ چھاڑ یا ایکٹوٹی میں بدل دیا ہے۔ ذرا غور کیجئے ہم کس سنجیدگی سے اس ٹک ٹاک کے کلپ دیکھ رہے ہیں اور اس سٹارڈم کا درجہ دے رہے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ اس میں سٹارڈم کا کیا پہلو ہے جس کی ستائش کی جائے۔ کبھی ہم نے غور کیا یہ خواتین ہی نہیں، مرد بھی اپنے کس ہنر کے بدلے اس تناظر میں شہرت حاصل کرتے ہیں اور ہمارے معاشرے کو کیا دیتے ہیں۔ میں اس وقت سکیورٹی، جاسوسی یا کسی سکینڈل قسم کے پہلو کو اجاگر نہیں کر رہا۔ یہ سب کچھ تو دب جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ کھیل ہے کیا، جس کو ہم نے اتنا اہم قرار دے دیا ہے۔ پھر کہتا ہوں کہ اتنا اہم کہ اس میں مشغول ہونے والے اب ہمارے سٹار ہیں۔ میں بار بار سلیبرٹی کے تصور کے خلاف خون کھولاتا رہا ہوں۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ صرف شوبز وغیرہ کے لوگ ہی ہمارے ہیرو ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ادیب ان کی پھبتی کستے تھے۔ دل کرتا ہے کہ اپنے استادوں کے دوچار مضمون نکال کر قندمکرر کے طور پر چھاپ دوں۔ ہم کس طرف نکلے جاتے ہیں۔ ہاں، ذرا دیکھنا، کہیں کھیل کھیل میں کوئی اور گیم تو نہیں کھیل رہا، بھاڑ میں جائے ایسی سٹارڈم، ذرا معلوم تو کیجئے، یہ سب کیوں ہو رہا ہے، کون کر رہا ہے یا کرا رہا ہے۔ صرف مری بات نہ سنئے کہ اس نے ہمارے کلچر کو سطحی اور مصنوعی کر دیا ہے۔ بلکہ اب تو کلچر کا لفظ ان معنوں میں مفقود ہو گیا ہے۔ اب تو اسے لائف سٹائل کہتے ہیں، لائف سٹائل، دیکھی آپ نے ٹک ٹاک لائف سٹائل۔ ذرا یہ بھی دیکھ لیجئے اس کی مار کہاں تک ہے۔