یہ کراچی ہے،امن و محبت کے پیام بر لطیف سرکار ؒکے سندھ کا دارالحکومت ۔یہیں کہیں 712عیسوی میں دیبل کی بندرگاہ پر عرب فوجوں کا ایک جہاز لنگر انداز ہوا تھا، ان فوجوں کا سپہ سالار ایک جواں سال جرنیل محمدبن قاسم تھا۔ سندھ میں اسیر ایک مظلوم مسافر خاتون نے مسلمانوں کے خلیفہ وقت کومدد کے لئے پکارا تھا تو اس کی فریادپرحجاج بن یوسف جیسا سخت گیرکمانڈربھی تڑپ اٹھا،اس نے اس لڑکی کی پکار پر لبیک کہا اورپھر اس کے فرمان پراس کا سترہ سالہ داماد محمد بن قاسم دیبل کے ساحل پراترا اور سندھ کو فتح کر کے پکارنے والی خاتون کے آنسو پونچھ کر انصاف کی وہ مثال قائم کی جس کی کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ آج1310برس بعد2022ء میں سندھ کی ایک اور مظلوم بیٹی کی چیخ نے بام ودرتک کو ہلا ڈالا ہے لیکن یہ چیخ پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی کے کروڑوںشہریوں اور نہ ہی حاکم وقت کوسنائی دی ۔ یہ شہرجو غریب پرور کہلاتا ہے لیکن تین کروڑ کی آبادی اورروشنیوں کا یہ شہر سندھ کی ایک غریب بیٹی شیریں جوکھیوکے زخموں پر مرہم رکھ سکا اور نہ ہی اس کے آنسو پونچھ سکا۔شیریں جوکھیو کے شوہر اور کمیونٹی جرنلسٹ ناظم جوکھیو کو 3 نومبر2021ء کو پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے جوکھیو سرداروں نے ذرا سی لغزش پرجام گوٹھ ملیر میںموت کے گھاٹ اتار دیاتھا، اس کا قصور بس اتنا تھا کہ اس نے اپنے علاقے میں غیر ملکیوں کو تلور کے شکار سے روکنے کی کوشش کی تھی۔اس جسارت پر وہ اپنے ہی جوکھیو قبیلے کے سرداروں کے ہاتھوںبے دردی سے مار دیا گیا اورقاتلوں نے لاش جھاڑیوں میں پھینک دی ۔ ناطم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو کاسہاگ اجڑا تو وہ چیخ اٹھی۔ جس لڑکی نے کبھی اپنی دہلیز سے باہر قدم نہیں رکھا تھا، انصاف کے لئے گھر سے نکل کھڑی ہوئی۔ اس نہتی لڑکی کی دردناک چیخوں پرنہ تو حکمرانوں کے کانوں پر کوئی جوں رینگی اور نہ ہی کہیں سے کوئی محمد بن قاسم اس کی مدد کے لیئے لپکا۔ دو معصوم بچوں اور ان کی ماں کی زندگی دن دہاڑے اجاڑ دی گئی ، سب تماشا دیکھتے رہے۔ معاملہ عدالت میں پہنچا تو پولیس ، وڈیروں اورسماج کے بے رحم تھپیڑوں نے مل کر ایک قتل کو حادثہ اور مقتول کوہی ملزم ٹھہرا کر ایک ایسی دستاویز رقم کر دی ہے جو ہمارے خود غرض معاشرے کے منہ پر طمانچہ ہے ۔چند روز قبل اسی غریب پرور شہر کی ایک عدالت کے بلند وبالا ایوانوں میں دن کے اجالے میں انصاف کے لئے در بہ دربھٹکتی بے کس اورزندہ لاش شیریں جوکھیو ہار گئی ، وڈیرہ شاہی اور اندھا قانون جیت گیا۔ دن کی روشنی میں ایک بے گناہ سوشل ایکٹیوسٹ ناظم جوکھیو کا خون رائیگاں گیا جس نے اپنی دھرتی پر غیر ملکی پرندوں کے غیرملکیوں کے ہاتھوں شکار کے خلاف آواز اٹھائی تھی لیکن طاقت ور لوگوں نے اس آواز کاگلابے پناہ طاقت کے ساتھ دبا کراسے ہمیشہ کے لئے خاموش کرادیا۔ جوکھیو خاندان کے ایک عام نوجوان کے گھر کی خوشیاں جوکھیو قبیلے کے خود سر اور سرکش سرداروں کے پائوں تلے کچلی گئیں۔ معصوم بچے باپ کے تشدد زدہ لاشے سے لپٹ کربلکتے رہ گئے، بیوہ خون کے آنسو روتی رہی لیکن نہ تو آسمان سے کوئی قہر ٹوٹااور نہ ہی زمین پھٹی کہ شیریں جوکھیو اور اس کے بچے باپ کے ساتھ ہی زمین میں گڑ جاتے۔ ’’ناظم جوکھیوقتل کیس‘‘ میںجس طرح کا چالان پولیس نے عدالت کے روبرو پیش کیا ہے وہ ناظم جوکھیو کے قتل پر مٹی ڈالنے کی سوچی سمجھی سازش کے سواکچھ بھی نہیں۔ اتنے کھلے قتل پر نہ تو کوئی’’ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم‘‘ بنی، نہ کسی نے اس دل خراش واقعہ کا نوٹس لیا اور نہ ہی سندھ حکومت کا ضمیر جاگ سکا۔ اسلام آباد سے کراچی تک ایک پر اسرار سی خاموشی چھا گئی۔ ہماری پولیس بھی اندھی، گونگی اور بہری ہے۔ان کے گھروں میں شاید بہوبیٹیاں نہیں ہوتیں، ورنہ تفتیشی ٹیم کے ارکان آگے بڑھ کرسندھی روایات کے مطابق ایک بے وسیلہ بیوہ لڑکی کے سر پر چادر ڈال کر اسے احساس دلاتے کہ دیکھوبیٹا ،تم رونا نہیں ، ہم تمہارے بھائی ہیں ، ہم تمہارے وارث ہیں، ہم ایسی تفتیشی رپورٹ بنائیں گے کہ ان ظالموں کی نسلیں یاد رکھیں گی ۔ہم ان طاقت ور لوگوں کو قانون کے شکنجے میں جکڑ کر تمہیںانصاف دلائیں گے اور یہ انصاف ایسا ہوگا کہ لوگوں کوہوتا ہوا بھی نظر آئیگا۔ میرا اندیشہ درست ثابت ہوا ، ناظم جوکھیوقتل کیس میںپولیس طاقت کے روایتی اتحاد کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی ، پولیس کے پیش کیے ہوئے مقدمے کا چالان چیخ چیخ کر یہی کہہ رہا ہے کہ اس قدر کم زور تفتیش کے بعد عدالت کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہو گا کہ وہ قتل عمد میں ملوث بااثرملزمان کو باعزت بری کردے۔ اب تو میرا گمان یقین میں بدلتا جا رہا ہے کہ غریب کمیونٹی جرنلسٹ ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیوکے آنسوئوں کا کہیںنہ کہیںسودا ہو گیاہے، اپنے سہاگ کے لٹ جانے پر اس کی معصوم آنکھوں سے ٹپکنے والے لہورنگ آنسو خاک میں مل گئے۔جس نے اپنے معصوم شوہر کی لاش پر کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ وہ ناظم جوکھیو قتل کیس میںقاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے زندگی کی آخری سانس تک، آخری حدوں تک جائے گی۔ وہ غم زدہ تھی لیکن پورے نظام کی طاقت کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوگئی۔ اس نے جھکنے اور بِکنے ، کوئی قصاص یا خوں بہا لینے سے انکار کردیا۔ شیریں جوکھیو کے دیورافضل جوکھیو نے مجسٹریٹ کے سامنے 164 کا بیان ریکارڈ کروایا تھا جس میں اس نے رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم بجار جوکھیو اور رکن سندھ اسمبلی جام اویس بجار خان جوکھیو سمیت دیگر سب ملزمان کو بھائی کے قتل پر مورد الزام ٹھہرایاتھا۔ لیکن اب اگلے مرحلے میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو نے مرکزی ملزم کو بے قصور قراردے دیا ہے، یہ سچ ہے کہ کوئی غریب محنت کش سماج کے ان ٹھیکے داروں سے نہیں لڑ سکتا۔ دھونس ،دھاندلی، دبائو اور دھمکی کے سامنے ٹھہرنا افضل جوکھیو کے بس میں نہیں تھا، ورنہ وہ بھی شہید بھائی کی طرح غیر ملکیوں اور غیروں جیسے اپنوںکے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جاتاتو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ مقتول ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیونے دیور افضل جوکھیو کے بیان پر تحفظات کا اظہار کردیاہے لیکن یہ بھی کہا ہے کہ افضل جوکھیو پر دباؤ ہوگا، ڈرا دھمکا کراس سے یہ بیان لیا گیا ہوگا۔ ہمارے اس سماج میں کچھ بعید نہیں ہے، جنہوں نے ایک بھائی کو پار کیا ہے، وہ دوسرے کو بھی حق گوئی کا مزہ چکھا سکتے ہیں۔اپنے ویڈیو بیان میں مقتول ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو کا کہنا ہے کہ میں قاتلوں کو کبھی معاف نہیں کروں گی ۔ جوکھیو کراچی اور سندھ کے بیٹے ہیں، یہ قبائل صدیوں سے کراچی سے ٹھٹھہ تک لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں۔ ناظم جوکھیواس قبیلے کا ایک جری بیٹا تھا اور اس کے مبینہ قاتل اسی قبیلے کے سردار ہیں۔سندھ کے قدیم جوکھیوقبیلے کے غریب گھر کا مظلوم نوجوان ناظم جوکھیو اپنے ہی سرداروں کی دی ہوئی موت کی چادر اوڑھ کرقبر میں اتر گیا ہے،مبینہ قاتل جو انتہائی طاقت ور لوگ ہیں، وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔ اس مملکت زندہ باد میںیہ ہتھ کڑیاں،یہ جولان، یہ زندان صرف خاک نشینوں کی تقدیر ہیں۔ اس ملک میں استاد کو ہتھ کڑیاں ڈال کر عدالت میں لایا اوراسے زمانے بھر میں رسوا کیا جاتاہے لیکن نامزداور ملوث قاتل عدالتوں میں ہتھ کڑیوں کے بغیر بڑی شان سے ایسے پیش ہوتے ہیں کہ جیسے عدالت میں قتل کا حساب دینے نہیں، اپنے حلقے سے انتخاب لڑنے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے آئے ہوں۔ یہ ہے وہ مٹھی بھر آزادی جو صرف ایسے ہی طاقت ور لوگوں کے حصے میں آئی ہے، ہمارے ہاتھ صرف ان طاقت ور لوگوں کے گلے میں ہار اور اپنے پیاروں کی قبروں پر مٹی ڈالنے کے لئے ہیں۔