ستر کی دہائی میں جنم لینے والی پاکستانی نسل پاک چین دوستی کی لوری سن کرجوان ہوئی ہے۔ قراقرم ہائی وے کی تعمیر کے قصہ ریڈیو پاکستان پر سن کر چین کی اہل پاکستان کے ساتھ محبت کاگہرا نقش دل وماغ پر اس قدر پڑا کہ اب کوئی اور دوستی نگاہوں میں ججتی ہے نہ دل میں سموتی ہے۔پاکستان اور چین ان دنوں سرکاری سطح پر دوستی کے ستر برس پورے ہونے کی تقریبات منعقد کررہے ہیں۔21مئی1951کو دونوں ممالک کے مابین دوطرفہ تعلقات کا جو سفر شروع ہوا تھا کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ نہ صرف اسٹرٹیجک تعلقات میں بدلے گا بلکہ معاشی اور سماجی میدانوں میں بھی حیرت انگیز پیش رفت کا سبب بننے گا۔ یہ چین ہی تھا جس نے پاکستان کو دفاعی ساز وسامان میں خودکفالت اور خود انحصاری کے راستہ پر گامزن کیا۔ بھاری ہتھیاروں سے لے کر جدید جنگی طیاروں کی مقامی سطح پر تیاری میں نہ صرف مدد کی بلکہ اب پاکستان جے ایف تھنڈر کی برآمد بھی شروع کرچکا ہے۔ حال ہی میں نائجیریا کو تین لڑاکہ طیارے فروخت بھی کیے گئے۔جوہری ٹیکنالوجی کی فراہمی اور متعدد بجلی گھر بنانے میں بھی ناقابل فراموش معاونت فراہم کی۔ اس معاونت کا خمیازہ بھی چین کوبھگتنا پڑا۔ اسے عالمی نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی۔ یہ چین ہی تھا جو مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کی مدد کو آیا۔ ہنگامی بنیادوں پر توانائی کے 22 منصوبے شروع کیے۔ جن میں سے 9 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔بجلی کے یہ کارخانہ پانچ ہزار 320 میگاواٹ بجلی پیدا کررہے ہیں۔ ان منصوبوں میں 1320 میگا واٹ کا ساہیوال کول پاور پلانٹ، پورٹ قاسم پاور پلانٹ، چائنا حب پاور، 660 واٹ کا اینگرو تھر پاور منصوبہ اور 400 میگا واٹ کا قائداعظم سولر پارک شامل ہے۔ 4 ہزار 470 میگا واٹ کے 8 منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ کوہالہ، تھر اور آزادپتن سمیت توانائی کے پانچ منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان نے ماحول دوست توانائی کے حصول کیلئے 1100 میگاواٹ کے کراچی نیوکلئیر پاور پلانٹ یونٹ ٹو (K-2) کا افتتاح کیا۔کے ٹو پلانٹ کے افتتاح کے بعد ملک میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے تحت نیوکلیئر پاور پلانٹس کی تعداد چھ ہو گئی ہے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے تمام نیوکلیئر پاور پلانٹس کی پیداواری استعداد 2500 میگاواٹ ہوگئی ۔ سی پیک ایک غیرمعمولی تعاون اور شراکت داری ہے جس نے پاکستان کی معیشت کا پہیہ رواں کیا اور عام پاکستانیوں کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے جان چھڑائی۔چین نے پاکستان کا معاشی نقشہ بدلنے کے لیے جو تعاون کیا اس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ ریلوے نیٹ ورک دنیا بھر کے ملکوں کی ترقی میں ریڈھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتاہے۔ افسوس! اہل ہوس ریلوے کی وہ پٹریاں بھی بیچ کھا گئے جو انگریز بچھا کر گئے تھے ۔اب پاک چین اقتصادی راہ داری کے دوسرے فیز کے تحت کراچی سے پشاور 872 1کلومیٹر کے ریلوے ٹریک کو دو رویہ اور اپ گریڈکیا جائے گا ۔7.2 ارب ڈالر کی لاگت سے مکمل ہونے والے اس منصوبے کو ایم ایل ون کا نام دیا گیا جس کی نوے فیصد فنانسنگ چین کرے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کی کوشش ہے کہ چین پاکستان کے نچلے طبقے کو اوپر اٹھانے کے لیے مدد کرے۔ وزیراعظم کا ہدف خط غربت سے نیچے رہنے والے وہ پچیس فی صد پاکستانی شہری ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی دستیاب ہے اور نہ پینے کاصاف پانی۔ چین نے کامیابی سے غربت کا خاتمہ کیا ہے۔ پاکستان نہ صرف اس کے تجربات سے سبق سیکھنا چاہتاہے بلکہ اس ٹیکنالوجی سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتاہے جس کی مدد سے چین نے زراعت اور چھوٹی صنعتوں کے میدان میں تحیر انگیز ترقی کی۔چنانچہ سی پیک کے تیسرے مرحلے میں پاکستان چین کے تکنیکی ماہرین کی مدد سے کم پیداوار کے مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہتاہے ۔ حکومت پاکستان چاہتی ہے کہ دونوں ممالک کے ماہرین مشترکہ طور پر ایسا بیج تیار کریں جو کپاس، پھلوں، چاول اور گندم کی زیادہ پیداوار دے سکیں ۔اسی پس منظر میں سی پیک کی ترجیحات میں صنعتی، زراعی، اقتصادی ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں مشترکہ منصوبوں پر کام شامل کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ جس طرح چین نے انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبوں میں سبک رفتاری سے پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی، وہ مندرجہ بالا شعبہ جات میں بھی دست تعاون دراز کرے گاتاکہ پاکستان روایتی اسٹرٹیجک فکر کے دائرے سے نکل کر معاشی میدان میں بھی اپنا لوہا منواسکے۔ عالمی سطح پر بھی چین نے پاکستان کی بھرپور سفارتی مدد کی۔ فیٹیف سے نکلنا ہو یا مسئلہ کشمیر‘ ہر مشکل گھڑی میں چین پاکستان نے ساتھ ڈٹ کر کھڑا رہا۔خاص طور پرچین نے مسئلہ کشمیر پر لگی لپٹی رکھے بغیر پاکستانی موقف کی تائید کی۔ اس کی تازہ ترین مثال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تین اجلاسوں کا انعقاد ہے جن میں پانچ اگست 2019کو بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ جموںو کشمیر کی داخلی خودمختاری کے خاتمہ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں ممالک کی دوستی جس کا آغاز پچاس کے عشرے میں ہوا تھا آج ایک تناور درخت بن چکی ہے۔ دونوں ممالک کی نئی نسل اس دوستی اور شراکت داری پر فخر کرتی ہے۔دہشت گری،منفی پروپیگنڈہ اور عالمی دباؤ کے باوجود دونوں ممالک کی لیڈرشپ اور رائے عامہ ان تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔عوامی سطح پر اس کا اظہار حال ہی میں مقبول گلوکار علی ظفر اورنوجوان چینی گلوکارہ ژیانگ منکی کی طرف سے جاری کردہ ۔’دل چرایا تم نے‘ کے عنوان سے جاری کیے گئے گانے سے ہوتا ہے۔اس گانے میں دونوں ممالک کی سمندر سے گہری دوستی کو میوزیکل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔لاکھوں پاکستانی اور چینی شہریوں نے اس گانے کو سراہا۔