مظفر آباد سے تعلق رکھنے والا خوبرو ڈاکٹر جو ایک اوریجنل شاعر بھی ہے کرکٹ کے بخارمیں مبتلا ہے۔ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ پوسٹیں اس کی ہوتی ہیں۔ اس کی پیش گوئیاں کچھ درست بھی ہوتی ہیں مگر پاکستان بڑے بڑے نجومیوں کی پیش گوئیوں پر خاک ڈال دیتا ہے۔ سری لنکا سے ہمارا میچ بارش کی نذر ہوگیا یہ بارش ویسٹ انڈیز کو بھی لے بیٹھی یہ معاملہ اگر ہمارے ہاں پیش آتا تو دنیا کیا کچھ کہتی کہ موسم کو ذہن میں کیوں نہیں رکھا اب معاملہ ان کاہے جن کے پاس محکمہ موسمیات کے جدید ترین آلات ہیں مگر انہوں نے دیدہ دانستہ یا غفلت سے ورلڈ کپ کرکٹ برباد کر دیا لوگ گھروں سے تیار ہو کر آتے ہیں منصوبہ بندی کرتے ہیں مگر بادل ان کی امیدوں اور تمنائوں پرپانی پھیر دیتے ہیں کرکٹ کی پوسٹوں کے درمیان کاشف رفیق نے دو شعر لگا دیے: تمہاری یاد کا اب تک چراغ جلتا ہے عجیب شدت غم ہے کہ داغ جلتا ہے خدا کے واسطے روکو نہ مجھ کو رونے دو وگرنہ شعلۂ دل سے دماغ جلتا ہے کرکٹ کا رومانس ہو یا دوسرا‘ کیفیتیں چھپائے نہیں چھپتیں۔ کل ڈاکٹر ناصر قریشی پوچھ رہے تھے کہ محبت گرمی سے یا ٹھنڈک۔ میں نے کہا کہ گرمیوں میں یہ ٹھنڈک ہے گھنے سائے کی طرح اور سردیوں میں یہ گرمی ہے چمکتی دھوپ کی طرح۔ تبھی ہم نے بھی کہا تھا’’سردیوں کی اس دھوپ میں جانا کون کلاسیں پڑھتا ہے‘‘ استاد نے بھی تو کہا تھا’’بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھائو گھنی ہوتی ہے‘‘ دوسری جانب کی بات بھی تو ہو سکتی ہے: اتنے حساس ہیں سانسوں سے پگھل جاتے ہیں بجلیاں ہم پہ گرانے کی ضرورت کیا تھی معزز قارئین: آپ بھی سوچتے ہونگے کہ میں کرکٹ سے کسی اور طرف نکل گیا یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض کھلاڑی بائونڈری پر کیچ لے کر گرائونڈ ہی سے باہر نکل جاتے ہیں بعض بیٹسمین چوکا مارتے ہوئے بلاوکٹوں کو مار دیتے ہیں۔ ایک مزیدار واقعہ شیئر کر کے سیاست کی طرف آتے ہیں۔ ہمارا دوست گگن بڑا مزے کا آدمی تھا بائونڈری پر وہ فیلڈ کر رہا تھا ۔ایک اوورایسا آیا کہ بیٹسمین نے اکٹھے پانچ چھکے جڑ دیے۔ کپتان پریشان ہو گیا اس کی نظر بائونڈری سے باہر گئی تو گگن صاحب باہر کھڑے ریڑھی سے دہی بڑے کھا رہے تھے۔ کپتان نے نہایت غصے سے خون آلود آنکھوں سے گگن کو دیکھا اور کہا کہ ’’تم یہ فیلڈ کیوں نہیں کر رہے‘‘۔ زاہد حیات گگن تھتھلاتا تھا کہنے لگا ’’چ چ چن جی!مومومجھے فیلڈنگ کے لئے ہے ہیلی کاپٹر لے دو۔ گرائونڈ میں تو گے گے گیند گر ہی نہیں رہی‘‘ اب بتائیے اس بات کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ کچھ ایسی ہی صورت حال اس وقت ہمارے ہاں بنی ہوئی ہے نیب چھکے پر چھکے لگا رہی ہے۔ گیند کو کون کیچ کرے۔ زرداری صاحب گرفتار ہو چکے ہیں۔ اگرچہ یہ بات کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی انہونی بات ہے مگر انہیں ہیرو بنا کرگرفتارکیا گیا۔ وہ بار بار وکٹری کے نشان بناتے رہے کہ شاید یہ ان کی فتح ہے اور اب پیپلز پارٹی کے مردہ گھوڑے میں جان پڑ جائے گی۔ سزا بھگتنے کے حوالے سے پہلے ہی ان کے پاس کئی القابات ہیں۔ خاص طور پر مجید نظامی صاحب کا انہیں مروجہ کہنا کس کو بھولا ہو گا۔ وہ بڑے اہتمام کے ساتھ زرداری ہائوس سے گرفتار ہوئے۔ بیٹی نے رخصت کیا بلاول نے بھی بوسہ لیا۔ بڑا جذباتی سین تھا کہ جیسے زرداری صاحب کسی اعلیٰ مقصد کے لئے کسی مہم پر جا رہے ہیں۔ پورا میڈیا ان کی کوریج میں دبلا ہوا جا رہا تھا۔ بہرحال افہام و تفہیم کے بعد وہ نیب کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ان پر منی لانڈرنگ اور جعلی اکائونٹس کے علاوہ بھی کئی مقدمات ہیں۔ فریال تالپور کو مصلحتاً ابھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ میں نماز پڑھ کر نکلا تو ہمارے ایک چودھری صاحب کہنے لگے۔ کچھ فائدہ نہیں گرفتاری کا۔ ایک دو روز میں اس کے پروڈکشن آرڈر آ جائیں گے اور وہ رہا ہوجائے گا۔ ان کے بقول یہ سب ڈرامہ ہے۔ ویسے شہباز شریف نے تو اپنی تقریر میں جناب سپیکر سے دست بستہ اپیل کی کہ وہ زرداری صاحب کے پروڈکشن آرڈر جاری کریں اور پھر شہباز شریف نے زرداری صاحب کے لئے جس جذبے کا اظہار کیا وہ ان کی بدل بولی سے ٹپکا پڑ رہا تھا۔ مجھے وہ ریلی یاد آ رہی تھی جس میں وہ انہیں کھمبے سے الٹا لٹکا رہے تھے اور سڑکوں پر گھسیٹ رہے تھے: بے ربط کر کے رکھ دیے اس نے حواس بھی جتنا وہ دور لگتا ہے اتنا ہے پاس بھی کچھ باتیں شہباز شریف کی پرلطف بھی تھیں۔ انہوں نے عمران خان کے ٹویٹ پر کہ جو انہوں نے اپنے وزیر کو کیا تھا کہ اس مرتبہ رمضان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوئی تو مبارک ہو‘کہا کہ یہ خان صاحب نے صدی کا سب سے بڑا جھوٹ بولا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نواز شریف نے ختم کی۔ گیارہ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی۔ اس پر سپیکر اسد قیصر نے اعتراض کیاکہ یہ الفاظ نہیں چلیں گے۔ میں حیران رہ گیا کہ جھوٹے اور دروغ گو میں کیا فرق ہے۔ صرف یہ کہ دروغ گو فارسی میں ہے جھوٹ بولنے والا شاید وہ زبان غیر سے شرح آرزو کے قائل نہ ہوں۔ شہباز صاحب نے فواد چودھری کے حوالے سے بھی سب کو محظوظ کیا۔ خاص طور پر چاند کے حوالے کہ انہوں نے کچھ کیمیائی فارمولے ایجاد کر لئے ہیں شاید وہ طبعی فارمولے چاہتے تھے۔ شہباز شریف نے سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر کی بات کی مگر گیم تو شاید کچھ اور چل رہی ہے۔ زرداری کے بعد حمزہ شریف کا نمبر بھی لگ گیا ہے زرداری کے حوالے سے تو عمران خان پہلے ہی اپنی تقریر میں بتا چکے تھے کہ وہ جیل جا رہے ہیں۔ باقی بھی غلط فہمی میں نہ رہیں ۔ بات کرکٹ سے شروع ہوئی تھی تو کرکٹ پر ہی ختم کریں گے۔ ویسے بھی کرکٹ کا ایک ربط سیاست سے ضرور ہے۔ جنرل ضیاء الحق بھی کرکٹ کا میچ دیکھنے گئے تھے اور پھر بھارت کی فوجیں سرحدوں سے ہٹ گئی تھیں اب تو 92ء کا ورلڈ کپ اٹھانے والا عمران خان وزیر اعظم ہے۔ مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ عمران خان اپنی ٹیم کو بھارت کے خلاف کھیلتے ہوئے جارحانہ انداز اپنانے سے منع کر رہے ہیں کہیں یہ بھی ہماری ڈپلومیسی تو نہیں۔ جیسے ایک زمانے میں مسٹر ٹک ٹک نے اپنا کام سرانجام دینے کے بعد چھکے لگا کر بھی دکھائے تھے مگر وہ بعداز جنگ گھونسوں کی طرح تھے جو اپنے منہ پر لگتے ہیں۔ پاکستان کو جارحانہ ہی کھیلنا ہو گا۔بھارت کی ٹیم یقینا مضبوط اور ساڑھے تین سو سکور کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ آخر میں فیصل ندیم فیصل کا شعر زرداری صاحب کے لئے: ہزاروں مسئلے تھے زندگی میں اگر میں دل پہ لیتا مر ہی جاتا