مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو وہی جو کہتے ہیں ’’شوق دا کوئی مل نہیں‘‘ کچھ چیزیں ہوتی ہیں جن کے نتائج طے ہوتے ہیں۔ وہ جو غالب نے کہا تھا جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں‘ یہ ایک رویہ ہے ایک بے ساختہ پن اور خود کار سا عمل ہے جہاں بے خطر ہی کودنا پڑتا ہے۔ سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اس جذبے میں دکھائو نہیں اور نتیجے میں پچھتاوا نہیں: اک جذبہ مستانہ ایک جرأت رندانہ اس عشق و محبت میں اس زہر کے پینے میں ان باتوں کا خیال مجھے اس لئے آیا کہ پوری قوم ایک خاص جذبے سے سرشار ہے۔ اس لمحے کہ جب جنگ اس پر تھوپنے کی کوشش کی گئی اور پاکستان کو ترنوالہ سمجھنے کی جسارت کی گئی۔ نتیجتاً یہ ملک ان کے گلے کی پھانس بن گیا۔ مودی اس کا اندازہ نہیں کر سکتا کہ جہاد ایک سرشاری ہے جس میں آنے والا سو دوزیاں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ ایک بھارتی مسلمان لیڈر نے بڑی اچھی بات کی تھی کہ مسلمان ڈرتا نہیں اور جو ڈر گیا وہ مسلمان نہیں‘ اس عمل میں حیات و موت دونوں ثمر بار رہتے ہیں یہ بالکل درست ہے کہ ہم امن پسند اور آخری حد تک جنگ سے گریز کرتے ہیں کہ اس میں تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ مگر جب جنگ مسلط کر دی جائے تو پھر مرد میدان چٹان صورت کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مودی سرکار کو اس چیز کا ادراک نہیں۔ وہ محض مسلمانوں کی نفرت اور اپنی وزارت عظمیٰ سے محبت میں پاگل ہو گیا خود غرضی نے اس کی آنکھوں پر پردے ڈال دیے ہیں۔ مولانا روم یاد آئے: چون غرض آمد ہنر پوشیدہ شد صد حجاب از دل بوئے دیدہ شد جب اپنی غرض پیش نظر ہوتی ہے تو ہاتھ سے ہنر اور انصاف جاتا رہتا ہے۔ دل کے سو پردے آنکھوں پر آن پڑتے ہیں۔ مودی وہی کچھ دیکھنا چاہتا ہے جو اسے اس کا دل دکھاتا ہے۔ زمینی حقائق اس کی نفی کر رہے ہیں۔ کشمیر کے مسئلے پر وہ اتنا بوکھلایا کہ حد ہو گئی۔ پاکستان پر بے بنیاد الزام لگا کر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیر کا مسئلہ پوری دنیا میں زیر بحث آ گیا خود ہندوستان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے ہیں۔ آزادی کے متوالوں نے ایک نئی لہر اٹھائی ہے۔ مظفر وانی کی شہادت کے بعد حصول آزادی کی تحریک میں ایک نئی روح پھونکی گئی تھی قدرت نے ہمیں موقع فراہم کیا ہے کہ موجودہ سپرٹ اور جذبے کو بحال رکھیں۔ اپنے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور نبھانے کی طرف راغب ہوں۔ یہ بات درست ہے کہ ہمیں اپنے اندر عجز و انکساری پیدا کرنا چاہیے۔ جیسے کہ اظہار الحق صاحب نے لکھا کہ ہمیں بہت سنجیدگی کے ساتھ اپنے رویے کو دیکھنا چاہیے۔ یہی کہ مذاق اڑانا یا فقرے بازی نہیں کرنا چاہیے۔ ایک پوسٹ دیکھ کر تو میری بے ساختہ ہنسی نکل گئی اس میں ابھی نندن کی تصویر تھی جس میں اس کی گرتی ہوئی نمایاں مونچھیں تھیں۔ نیچے لکھا تھا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا یہ چیز رکھنے والی ہے؟ اچھا کیا بھارت والوں نے کہ اپنے اس ’’عظیم‘‘ ہوا باز کو گرائونڈ کر دیا اور بہانہ اس بیک بون کو بنایا کہ اس پر دبائو آ گیا ہے۔ دبائو تو پورے ہندوستان پر آ گیا ہے۔ اصل میں بھارت والوں کو معلوم ہے کہ اسے دوبارہ بھیجا تو یہ دوبارہ پکڑا جائے گا۔ میں جہاز گرانے والے حسن صدیقی کی گفتگو سن رہا تھا جس میں وہ اپنے سینئر کو بتا رہا تھا کہ ہم تو اپنے شکار کے منتظر ہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ بھارتی سورمائوں کے ساتھ جو انہوں نے کی ہے پوری رپورٹ نہیں ہوئی۔ویسے مجھے ابھی نندن سے ہمدردی ہے ‘ اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے‘ ہمیشہ ہمیشہ کی شرمندگی اور بھارت کے لئے کلنک کا ٹیکہ اب بھارت اس نشانی کو کدھر چھپائے۔ بھارت میں تو ایک تماشا لگا ہوا ہے۔ وہی کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ بھارتی ایئر چیف کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ٹارگٹ پر حملہ کیا۔ لاشیں گننا ان کا کام نہیں۔ ویسے بھی لاشیں ہوتیں تو گنی جاتیں۔ دنیا جان چکی ہے کہ وہاں کوئی مدرسہ ہی نہیں۔ نوجوت سدھو نے درست کہا کہ کیا یہ سارا ڈرامہ درخت اکھاڑنے کے لئے تھا ویسے تو درخت اکھاڑنا بھی جرم ہے لوگ سائے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ وہی جو کہتے ہیں کہ برا وقت اکیلا نہیں آتا۔ ساری فضا ہی مودی کے خلاف چلی گئی۔ او آئی سی سے انہیں غیر وابستہ ہوا ملی ہے۔ کشمیریوں پر بھارت کے عزائم مزید کھل گئے ہیں۔ ہمارے ایسے دوست جو کبھی خود مختار کشمیر کا سوچتے تھے وہ بھی اب اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کا فطری الحاق پاکستان کے ساتھ ہی بنتا ہے اور یہ کہ ان کی پہلی اور آخری شناخت اور پہچان مسلمان رہ گئی عالمی برادری پر بھی واضح ہو گیا ہے کہ گجرات کے قتل عام کا ذمہ دار مودی اصل میں فسادی ہے اور ان کاموں کا عادی ہے۔ لیکن ہمیں غافل نہیں ہونا کہ مودی زخمی سانپ کی طرح ہے یا سپنی کی طرح۔ ہمارا لیڈر دلیر ہے ہمیں دلیری کے ساتھ ہوشیار اور بیدار رہنا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارا دشمن بہت مکار ہے۔ وہ بغل میں چھری اور منہ میں رام پر یقین رکھتا ہے۔ ہمیں اپنے اردگرد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اب مکار دشمن یہاں دہشت گردی کروا سکتا ہے حکومت کے کرنے کو بھی بہت کام ہیں لوگ مہنگائی کے باعث بوکھلائے ہوئے ہیں۔ وہ سوچتے تو ضرور ہیں کہ اس دور میں کرپشن نہیں ہو رہی۔ منی لانڈرنگ نہیں ہو رہی باہر سے بھی کافی امداد آئی ہے۔ مفت پٹرول بھی ملا ہے سب کچھ اچھا جا رہا ہے مگر اس کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہنچ رہے: ایسے لگتا ہے کہ آسودگی قسمت میں نہ تھی جل گئے سایہ دیوار تک آتے آتے عوام کو ابھی تک کوئی ریلیف نہیں ملا۔ آپ حج کا معاملہ ہی دیکھ لیں میں نے اپنے اور بیگم صاحبہ کے فارم جمع کروائے تو معلوم ہوا کہ اب فارم کم آ رہے ہیں تین دن مزید بڑھا دئیے گئے ہیں۔ پہلے تو اس لئے دن بڑھانا پڑتے تھے کہ فارم زیادہ ہوتے تھے اب کے کوٹہ زیادہ ہے۔ اصل میں جن بے چاروں نے مشکل سے تین لاکھ جمع کئے تھے وہ ڈیڑھ لاکھ کا بڑھنا افورڈ نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف لااینڈ آرڈر والا معاملہ کچھ زیادہ اچھا نہیں جرائم کے ختم ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود پولیس ہے۔ نظام کے کل پرزے تبدیلی نہیں چاہتے سب سے زیادہ مایوس کن حالت پولیس کی ہے لوگ چوروں اور ڈاکوئوں سے زیادہ انہیں شیلٹر دینے والوں سے خوفزدہ ہیں۔ اپنی خامیوں کو درست کرنے کا موقع ملا ہے تو کر گزریں بہرحال عمران خان پر قوم خوش ہے کہ ان کے اقدام ہی نہیں بیانات سلجھے ہوئے اور سنجیدہ ہیں نوبل انعام کے حوالے سے انہوں کتنی اچھی بات کہی ہے کہ نوبل پیس ایوارڈ تو اس کا بنے گا جو مسئلہ کشمیر حل کروائے گا۔ دوسرے لفظوں میں جو مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو ان کا حق آزادی دلوائے گا۔ آخر میں دو شعر: اک جھلک سی ہے کائنات اس کی ورنہ مخفی ہے سعد ذات اس کی ایک پتھر پہ پھول گرتے رہے کیا بتائوں نوازشات اس کی