جب ہر طرف مظلوم ہی مظلوم دکھائی دیں تو لا محالہ یہ سوال نوکِ زباں پر آ جاتا ہے کہ کیا دنیا انصاف سے خالی ہے؟ تاریخ سے یہ سوال پوچھیں تو دنیا انصاف سے تہی دامن اور ظلم سے بھری ہوئی دکھائی دیتی ہے مگر تاریخ انسانی میں ایسے ایسے پیوند بھی دکھائی دیتے ہیں جب ہرطرف عدل و انصاف کا بول بالا تھا اور ظلم منہ چھپاتا پھرتا تھا۔ انصاف کا سب سے اولیں حقدار مظلوم ہے۔ مظلوم کی دادرسی میں تاخیر ظلم کو طول دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔ ظلم سے داغدار تاریخ کے دامن پر ریاست مدینہ کے والی ؐنے انصاف کا پیوند لگایا اور فرمایا تھا کہ میرا انصاف سب کے لیے ہے تبھی تو غیر مسلم اپنے مقدمات والیٔ مدینہؐ کے پاس لاتے تھے اور اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر ایک طرف والیٔ مدینہ کی عزیز ترین متاع فاطمۃ الزھراء بھی ہو گی تو بھی انصاف کے ترازو میں کوئی جھول نہیں آئے گا۔ آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مسند خلافت سنبھالنے کے بعد جو پہلا خطبہ ارشاد فرمایا اس میں واضح کیا کہ تم میں سے سب سے کمزور شخص میرے نزدیک طاقتور ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق اس تک نہ پہنچا دوں اور تم میں سے انتہائی قوی شخص میرے نزدیک کمزور ترین ہے یہاں تک کہ میں اس سے مظلوم کا حق وصول نہ کر لوں۔ اس طرح کے سنہری پیوند ہمیں انسانی تاریخ کی قبائے سیاہ میں جا بجا دکھائی دیتے ہیں اور ہمیں امید دلاتے ہیں کہ دنیا ہمیشہ کے لیے انصاف سے خالی نہیں رہ سکتی۔ آج دو تین صدیوں کی تہذیبی ترقی پر نازاں مغربی دنیا جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی فراوانی پر فخر کرتی دکھائی دیتی ہے مگر اس کا انصاف اپنے پرائے کے لیے یکساں نہیں۔ یورپ و امریکہ کی مغربی دنیا میں داخلی طور پر کسی حد تک قانون کی حکمرانی ہے اور انسانی اقدار کی قدرومنزلت بھی ہے مگر دوسری قوموں کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے یہ ’’انصاف‘‘ بالعموم مظلوم کے لیے نہیں ظالم کے لیے ہوتا ہے۔ جمعۃ المبارک کے روز اقوامِ متحدہ کے سب سے طاقتور ادارے سلامتی کونسل کا بند کمرے میں ایک مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کے بعد کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اور نہ ہی کوئی قرارداد منظور کی گئی اور نہ ہی بھارت کو انسانی حقوق کی اتنی سنگین پامالی پر کوئی سرزنش کی گئی اور نہ ہی بھارت کی ظلم و زیادتی اور ایٹمی جنگ کے امڈتے ہوئے شعلوں کو ہوا دینے پر سلامتی کونسل کے کسی باقاعدہ اجلاس بلانے کا کوئی فیصلہ سامنے آیا ، لیکن ہم اتنی بات پر ہی خوش ہیں کہ کم از کم مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان وہاں سنی تو گئی۔ دوسری جنگ عظلم میں انسانی، مالی اور تہذیبی اثاثوں کی بے پناہ بربادی اور لیگ آف نیشنز کی ناکامی کے بعد انسانی سلامتی ایک نئے ادارے کی تشکیل کے لیے امریکہ کے پرسکون اور نہایت خوبصورت شہر سان فرانسیسکو میں 50ممالک کے نمائندوں کے 1945ء میں تقریباً دو ماہ تک مسلسل اجلاس ہوتے رہے جس کے بعد یو این او کے نام سے ایک نیا بین الاقوامی ادارہ قائم کیا گیا۔ آج پون صدی کے بعد اگر ہم یو این کے چارٹر پر ایک نگاہ ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنے حسین خواب کی کیسی بھیانک تعبیر دیکھنے کو ملی۔ یو این او کے یہ چار بنیادی نکات تھے۔ ٭…ہم دنیا کو جنگوں کی لعنت سے بچائیں گے۔٭…انسانی حقوق کا تحفظ اور انسانی اقدار کی قدر و منزلت کی جائے گی۔٭…مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہوں گے نیز چھوٹی بڑی قوموں کو برابری کا درجہ دیا جائے گا۔٭…عالمی عہد ناموں اور بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کی جائے گی۔ اس آئینے میں بڑی قومیں اپنی صورت دیکھ لیں۔ چھوٹی بڑی قوموں کو برابری کا درجہ دینے کے بعد 5ملکوں کے لیے ویٹو کا حق اس شق کی نفی کرتا ہے۔دنیا کو جنگوں سے محفوظ رکھنے والوں نے کیسی کیسی خوفناک جنگیں ویت نام، عراق، افغانستان اور شام پر مسلط کیں۔ ماضی کی باتوں کو تو چھوڑئیے آج بھارت انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر رہا ہے اور انسانی اقدار کی عزت افزائی کے بجائے ان کی پامالی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یو این کے چارٹر کے انسانی حقوق سے متعلقہ نکتے کی بدترین خلاف ورزی کرتے ہوئے گزشتہ چند سالوں میں بھارت نے 3لاکھ کشمیریوں کو قتل اور کم و بیش اتنے ہی لوگوں کو زخمی اور ہزاروں کو اندھا کر چکا ہے اور ہزاروں کو پابند سلاسل کیا گیا ہے۔ گزشتہ پندرہ ایام سے اس نے تاریخ کا سب سے ہولناک کرفیو مقبوضہ کشمیر میں نافذ کر رکھا ہے مگر کوئی اسے پوچھتا نہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے خوش گفتار وزیر خارجہ نے پہلے مظفر آباد کی پریس کانفرنس میں ’’حقیقت پسندی‘‘ کے نام پر خوب نا امیدی پھیلائی تا ہم سلامتی کونسل کا مشاورتی اجلاس منعقد ہو گیا۔ اس مشاورتی اجلاس کا کریڈٹ چین اور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کی شبانہ روز محنت اور بھاگ دوڑ کو جاتا ہے۔ ان دونوں کا ہی شکریہ واجب تھا۔ ان میں سے شاہ صاحب نے ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا تو غالباً شکریہ ادا نہیں کیا اور باقی نہ جانے کس کس کا شکریہ ادا کرتے رہے جو ہم پر واجب بھی نہ تھا۔ اور بقول افتخار عارف وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے قوم حکومت کے ایکشن پلان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ دنیا کے بڑے ملکوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج جانی چاہئیں۔ جناب! ہم بجائیں گے تو خطرے کی گھنٹیاں بجیں گی۔ ہم کم از کم او آئی سی کا سربراہ اجلاس بلائیں اور اپنے عرب بھائیوں کو قائل کریں کہ وہ بھارت پر زور دے کر فی الفور کشمیر میں کرفیو اٹھوا کے اور بھارت کا ہاتھ ظلم سے روکیں۔ بھارت کی اکانومی عربوں کے ہاتھ میں ہے۔ آج پاکستان کے اندر ہی نہیں پاکستان سے باہر بھی ہر پاکستانی اور ہر کشمیری دل گرفتہ ہے اور حکومت پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ بتائے کہ قحط کی دہلیز پر کھڑے مقید و محصور کشمیریوں کے لیے قوم کو کیا کرنا ہے؟ مگر تکلیف وہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت ایک محدود سا بلکہ بہت ہی محدود سا برائے نام احتجاج کر رہی ہے جسے ’’من حیث القوم احتجاج‘‘ ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے علاوہ حکومت شجر کاری، احتساب اور دیگر کاموں میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ یہی حال اپوزیشن کا ہے۔ سب سے زیادہ حیرت جماعت اسلامی پر ہے کہ کشمیر کاز کی پاکستان میں اوپن اونر شپ جماعت کے پاس تھی مگر جماعت نے 5فروری جیسی کوئی کال نہ قوم کو دی ہے اور نہ ہی حکومت اور اپوزیشن کو مشاورت کے لیے دعوت دی ہے۔ جماعت وہ کام کرے کہ جو حکومت کر سکی ہے نہ اپوزیشن جماعت، حکومت، اپوزیشن اور دیگر جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے۔ ڈاکٹر غلام نبی فائی کشمیری نژاد امریکی ہیں۔ وہ ممتاز اسکالر ہیں۔ ان کا ایک پیغام مجھ تک پہنچاہے کہ پاکستان ستمبر کے تیسرے ہفتے میں منعقد ہونے والے جنرل اسمبلی اجلاس کے لیے بھرپور تیاری کرے اور وہاں مسئلہ کشمیر کی حمایت کے لیے کم از کم بارہ پندرہ اہم ملکوں کو آمادہ کرے جو وہاں اپنی طرف سے بھی مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کریں۔ انسانی حقوق کی کشمیر میں پامالی کو اجاگر کریں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے حکومت پاکستان کے لیے مشورہ بھی دیا ہے کہ دیگر ممالک کے تعاون کے ساتھ اقوام متحدہ کو کشمیر میں مداخلت پر آمادہ کرے۔ عالمی سفارتی محاذ پر حکومت کی طرف سے کوئی بھرپور مہم دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا کشمیر کے لیے خون کا آخری خطرہ بہانے والوں نے ایک کروڑ مظلوم کشمیریوں کو گجرات کے قصاب کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حکومت کیا کرے؟اس کا جواب گزشتہ روز وزیر اعظم ہائوس میں تلاوت کی جانے والی سورۃ النساء کی 75ویں آیت میں دے دیا گیا ہے اور بڑا ہی درست جواب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’اور تمہیں کیا ہوا کہ نہ لڑو اللہ کی راہ میں اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اسی بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی دے دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے دے‘‘۔ کشمیریوں کو انصاف دلانے کے لیے دیکھئے حکومت ان آیات پر کیسے عملدرآمد کرتی ہے۔‘‘