جس دن سے پاکستانی وزیرِ اعظم نے کسی سچے اور کھرے مسلمان کی سی غیرتِ ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکا کے زعیم صحافی کے منھ پہ Absolutely Not کا دو لفظی طمانچہ مارا ہے، اس دن سے ہماری سوسائٹی کا سب سے اہم سوال یہ بن چکا ہے کہ کیا عمران خان کو خطرہ ہے؟ اس سوال کا سیدھا اور سادہ سا جواب تو یہی ہے کہ جی جناب بالکل خطرہ ہے، شدید خطرہ ہے، قدم قدم پرخطرہ ہے! بعض لوگوں کے نزدیک عمران خان کو امریکا سے خطرہ ہے، جی ہاں! اس میں کوئی شک نہیں، ٹھیک ٹھاک خطرہ ہے ، پورے پاکستان کو اس مطلبی دوست سے خطرہ ہے، مولانا حالی نے ایسے دوستوں کی بابت ہی کہا تھا: دوست اک عالَم کے پر مطلب کے دوست ایسے یاروں سے حذر ، یارو حذر! اصل بات یہ کہ یہ خطرہ کوئی آج کی بات نہیں بلکہ یہ تو پہلے دن سے ہے ، جاننے والے تو یہ بھی جانتے ہیں کہ جو اس دوست کے جتنا قریب ہوگا، اس کے لیے خطرہ اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا۔ اگر نہیں یقین تو منٹو کے آج سے ستر سال پہلے انکل سام کے نام لکھے خطوط پڑھ کے دیکھ لیں، جو اِسی دوست کی مکاری، عیاری کا کچا چٹھا بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں چند ٹکوں کی خاطراستعمال ہو جانے والے قلم کاروں، وڈیروں اور سیاست دانوں کی واضح نشان دہی کرتے ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہر دور میں، بِکنے اور بَکنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ ابھی تو اس امریکی چرکٹے کا وہ بیان بھی پرانا نہیں ہوا جس میں چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے بدنامی کا ٹیکہ پوری قوم کے ماتھے پہ لگاتے ہوئے اس مشٹنڈے نے سرِعام کہا تھا کہ ان پاکستانیوں کی اوقات ہی کیا، یہ تو چند ٹکوں کے عوض اپنی ماں تک بیچ دیتے ہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ عمران خان کو موذی بھارت اور مکار اسرائیل سے بھی ہر دم خطرہ ہے۔ مضبوط اور خوشحال پاکستان ان دونوں بدبختوں کے وارے میں نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ یہ ہمارے وہ کھلے دشمن ہیں، جو کسی عالمی اخلاقیات کی بنا پر ہم پر حملہ آور ہونے سے گریزاں نہیں بلکہ یہ محض اپنے چچا ’غوری‘، پھوپھا ’شاہین‘ اور تایا ’غزنوی‘ کے احترام میں دَڑ وَٹے ہوئے ہیں، اس کے باوجود ہمہ وقت کسی مناسب موقع کی تلاش میں بھی ہیں۔ ان کو مزید اوقات میں رکھنے کے لیے ہمارے موجودہ وزیرِ اعظم کے دبنگ اور دو ٹوک رویے کے ساتھ ان کا خدا پر پختہ ایمان بھی ہے، شاعر نے کہا تھا: ارادے جن کے پختہ ہوں، نظر جن کی خدا پر ہو تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے ان سب خطروں کے باوجود موجودہ صورتِ حال میں نہ صرف عمران خان بلکہ خود پاکستان کو اصل خطرہ اس سسٹم سے ہے، جس میں گھسے پِٹے ضوابط اور پسماندہ ذہنیت کی مجبوری کی بنا پر معقولیت کی بجائے ’’الیکٹ ایبلز‘‘ سے رجوع کرنا پڑتا ہے، ہر پانچ سال بعد الیکشن کا وہی بد مزہ ڈھونگ رچانا پڑتا ہے، جہاں شاعرِ مشرق کے اس نہایت واضح مشورے : گریز از طرزِ جمہوری غلامِ پختہ کارے شَو کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انساں نمی آید کے باوجود گُنوں سے زیادہ گنتی کا جادو چلتا ہے۔ اس سسٹم میں لوگ کسی قابلیت کی بجائے وراثت، بدمعاشی، دھونس اور دھن کی بنا پر بڑے ایوانوں میں پہنچتے ہیں اور پورا عرصہ قانون بنانے کی بجائے خود قارون بنتے چلے جاتے ہیں۔ اسی روایتی عیاشی کی بنا پر آج یہ نئے انتخابی نظام کی کھلم کھلا مخالفت کرنے پہ تُلے ہوئے ہیں۔ عمران خان کو ایسے حمزہ شہبازوں سے خطرہ ہے کہ جن سے منی ٹریل مانگی جائے، تو ان کو یاد آتا کہ ان کے اکاؤنٹ میں پیسے تو کسی غیبی طاقت نے ڈال دیے ہیں۔ عمران خان کو ان جھوٹے کرداروں سے بھی خطرہ ہے ، جن کی لندن تو کیا دنیا کے کسی کونے میں کوئی جائیداد نہیں۔ عمران خان کو اتنا خطرہ ہمارے سابق آقا برطانیہ سے نہیں جتنا اُن کی چھتر چھاؤں میں بیٹھے بیوپاریوں سے ہے، جو خرید و فروخت کا نہایت وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ پھر عمران کو ایسی قبیح بیماریوں سے بھی خطرہ ہے، جن کا کسی مقامی ہسپتال میں علاج ہی ممکن نہیں! عمران خان کو ان فنکاروں سے بھی خطرہ ہے، جو اپنی ہر لکھی ہوئی تقریر، ہر سیاسی جلسے میں ’آج بھی بھٹو زندہ ہے‘ کا جوشیلا نعرہ لگانے کے باوجود،ہر سال بی بی اور بھٹو کی برسی منانا اور قبروں پہ چادر چڑھانابھی نہیں بھولتے۔ حکیم جی کہتے ہیں کہ برخودار بلاول ، عزیزہ مریم اورنگ زیب کہ جنھیں تقریر کے دوران کیا جانے والا غصہ، ہنسی، کھانسی حتیٰ کہ آواز کا اتار چڑھاؤ بھی سکرپٹ میں لکھا ملتا ہے۔ انھیں چیختے دھاڑتے دیکھ کے مجھے وہ ترک کہاوت یاد آ جاتی ہے، جس میں ایسے لوگوں کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ تم آگ ہوتے تو اپنی ہی بھنویں جلا لیتے۔ عمران کو خطرہ اس بیوروکریسی سے ہے، جو سٹیٹ کی بجائے فوٹو سٹیٹ پہ ایمان رکھتی ہے، عمران کو اس پولیس سے بھی خطرہ ہونا چاہیے، جس کے گز گز پہ گوالمنڈی کی مہر لگی ہے۔ عمران کو سب سے بڑا خطرہ اس جہالت سے ہے، جسے آج تک قائم ہی اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس کے ذریعے ملک میں ؤنے والی ہر تبدیلی کا مذاق اڑایا جائے، روشنی سے انکار کیا جائے اور ’جو ہے، جیسا ہے‘ پہ اِصرار کیا جائے۔ حد تو یہ ہے کہ عمران کو ایسے کمزور ترین نصاف سے بھی خطرہ ہے جو اپنے ہاتھوں میں پکڑی شراب کو شہد میں تبدیل ہونے سے نہ روک سکے! تیس پینتیس سال ادھر کی بات ہے جب ہم نئے نئے کالج میں داخل ہوئے تھے تو دیواروں پہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے بغل بچوں کے طور پر کام کرنے والی طلبہ یونینوں کی جانب سے پارٹیوں کے نعرے اور لارے لکھے ہوتے تھے، جن میں ایک نعرہ جو ہمیں سچ کے قریب دکھائی دیتا تھا، وہ یہ تھا: خطرہ ہے مکاروں کو/ نیلی پیلی کاروں کو / چوروں کو غداروں کو لیکن تین دھائیوں میں اقدار اس قدر بدل چکی ہیں کہ اب اس نعرے کو یوں پڑھا جا سکتا ہے: خطرہ ہے مکاروں سے/ نیلی پیلی کاروں سے / چوروں سے غداروں سے