کل رات موبائل پہ متحدہ عرب امارات کی الفجیرہ پورٹ کے ایک اہم ذمہ دار کی طرف سے مجھے ایک اہم پیغام وصول ہوا۔ پیغام کے مطابق پورٹ ال فجیرہ پہ نامعلوم سمت سے آنے والے میزائلوں نے پانچ تیل بردار ٹینکر تباہ کردیئے تھے جن میں سے دو امارات کے جبکہ دو سعودی عرب کے تھے اور پانچواں بھی ایک سعودی کمپنی کی ملکیت تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ تین ایسے آئل ٹینکروں کو نشانہ بنایا گیا تھا جن پہ سعودی عرب کا پرچم لہرا رہا تھا۔ایران امریکہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں یہ ایک بڑی خبر تھی۔ گو کہ یہ واقعہ اتوار کی صبح ہو چکا تھا لیکن اس خبر کو اماراتی اور سعودی میڈیا چھپاتا رہا ۔ لبنان کی نیوز ایجنسی المادین جس کا تعلق حزب اللہ سے ہے یہ خبر واقعہ ہوتے ہی لیک کر چکی تھی۔آج امارات نے بھی اس کی تصدیق کردی۔ الفجیرہ پورٹ اپنے جائے وقوع کے باعث تزویراتی طور پہ نہایت اہم سمجھی جاتی ہے۔ متحدہ عرب امارت کی یہ واحد مشرقی بندرگاہ ہے اور تمام اماراتی ممالک سے تین سو کلومیٹر کے اندر قابل رسائی ہے۔اس سے بھی اہم بات اس کی سیاسی پوزیشن ہے۔ الفجیرہ پورٹ دراصل اسی کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے دوران اس وقت بنایا گیا تھا جب ایران کی طرف سے آبنائے ہرمز کو بارودی سرنگیں لگا کر بند کردیا گیا تھا اور یہاں سے گزرنے واے آئل ٹینکروں کو ایرانی فوج نشانہ بنا رہی تھی۔امریکہ نے اس وقت خلیج میں داخلے کے منتظر لائن لگائے کوئی اآئل ٹینکروں کو ایرانی حملے سے بچانے کے لئے ایران کے خلاف آپریشن ارنسٹ ول لانچ کیا تو الفجیرہ پہ ہی یہ آئل ٹیکنر لنگرانداز ہوئے۔بعد ازاں ایران کی طرف سے امریکی اور عالمی پابندیوں کے ردعمل کے طور پہ بارہا آبنائے ہزمز کو بند کرنے کی دھمکیوں کے پیش نظر الفجیرہ کو باقاعدہ پورٹ بنا دیا گیا ۔یہیں خلیج عما ن میںابو ظبی سے الفجیرہ تک تیل کی ترسیل کے لئے پائپ لائن بھی ڈالی گئی جو الحبشہ۔فجیرہ پائپ لائن کہلاتی ہے۔ یہ پائپ لائن کامیابی کے ساتھ آبنائے ہرمز کو بائی پاس کرتی ہے۔ اس کی گنجائش اور اہمیت کا اندازہ اس سے لگالیجیے کہ یہ متحدہ عرب امارات کے تین چوتھائی تیل کی ترسیل کو ممکن بناتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ امارات کا تیل بغیر ایرانی مداخلت کے رواں دواں رہتا ہے یعنی دیگر ممالک کو باحفاظت برامد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ الفجیرہ پورٹ دنیا کا سب سے بڑا تیل کا ذخیرہ کرنے کی گنجائش رکھنے والا پورٹ ہے جو چود ہ ملین بیرل بنتا ہے۔ اس کے علاوہ اس پورٹ کی نفسیاتی اہمیت یہی ہے کہ ہر قسم کے حالات میں یہ محفوظ طور پہ کام کرنے اور تیل کی ترسیل میں ایرا ن کی طرف سے کسی بھی رکاوٹ سے آزاد ہے۔اس پورٹ پہ حملہ جو کسی بھی طرف سے ہوسکتا ہے دراصل اس اعتماد کو نشانہ بنانا ہے جو ایران عراق جنگ کے بعد سے اس پورٹ کو حاصل ہے۔ ایران امریکہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں اس واقعہ کے اثرات دور رس ہوسکتے ہیں۔عین اس وقت جب دونوں ممالک ایک تنے ہوئے رسے پہ کھڑے ایک دوسرے کو گھور رہے ہیںیہ نائن الیون جیسا کوئی واقعہ ہوسکتا ہے۔ اس سے چند دن قبل ایران کی طرف سے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی کے بعد امریکہ نے اپنا بحری بیڑہ ابراہم لنکن کیریر اسٹرائک گروپ خلیج فارس میں آبنائے ہرمز کی طرف روانہ کردیا تھا ۔ اس کے دو دن بعد یو ایس ایس آرلنگٹن بحری بیڑہ جو میزائل دفاعی نظام سے لیس تھا خلیج میں ابراہم لنکن بحری بیڑے کی کمک کو روانہ کردیا۔ اس سے قبل قطر میں العدید بیس جو امریکی فضائیہ کا مستقل مستقر ہے، بی باون طیارے اتار دیے گئے۔ان تما م جنگی تیاریوں کو امریکی پابندیوں کا شکار ایران جس کی معیشت بری طرح روبہ زوال ہے،ہمیشہ کی طرح پرکاہ کے برابر اہمیت نہیں دی اور اسے ایک ایرانی میزائل کی مار قرار دیا۔یہ تمام واقعات اس وقت رونما ہوئے جب ایران کے ساتھ مشترکہ جوہری معاہدے سے امریکہ کے یکطرفہ طور پہ نکل جانے کا ایک سال پورا ہوا اور اایران نے جوابا اعلان کیا کہ وہ دو ماہ کے اندر اندر انتہائی افزودہ یورینیم کی پیداوار شروع کردے گا اور افزودہ یورینیم کے ذخائر بھی رکھے گا البتہ اسے کسی ملک کو فروخت نہیں کرے گا۔ اس اعلان کے بعد یورپ اور چین نے جو امریکی دھمکیوں اور پابندیوں کے باعث مخمصے کا شکار تھے دوبارہ جوہری معاہدے کی حمایت کا اعلان کردیا تاکہ ایران کو جوہری پروگرام پہ عمل درامد سے روکا جاسکے اوراس پہ عائد اقتصادی پابندیاں اٹھائی جائیں۔ان اقتصادی پابندیوں سے بظاہر تو ایران کی معیشت واقعی رو بہ زوال نظر آتی ہے لیکن ایرانی تیل کی فروخت کسی نہ کسی بہانے جاری رہی ہے۔ایران سے روزانہ سرکاری طور پہ تیرہ لاکھ بیرل تیل برامد کیا جاتا ہے جبکہ غیر سرکاری یعنی پوشیدہ طور پہ کتنا تیل برامد ہوتا ہے اس کا حساب مشکل ہے کیونکہ مبینہ طور پہ ایرانی تیل بردار جہاز دن میں اسے سو بار اپنا ریسپونڈر ٹریکر بند کردیتے ہیں یوں یہ پتا لگانا مشکل ہے کہ ان پہ کیا لدا ہوا ہے اور کہاں لے جایا جارہا ہے۔گزشتہ سال ایران کو جب وہ جزوی پابندیوں کی زد میں تھا ،ایران کی تیل کی آمدنی اس کی کل آمدن کا چھیالیس فیصد رہی۔اب نئی آنے والی پابندیاں صرف تیل کی فروخت پہ نہیں ہونگی بلکہ سونے اور دھاتوں کی فروخت پہ بھی ہونگی۔ بظاہر یہ ایران کی معیشت کو جکڑ دینے والی پابندیاں نظر آتی ہیں لیکن ایران کی طرف سے جوہری پروگرام پہ عمل درامد کی دھمکی نے پہلے سے متذبذب چین اور یورپ کو جوہری معاہدے پہ اکسایا ہے ۔ ممکن ہے اب کی بار یہ معاہدہ امریکہ کے بغیر ہو۔اگر ایسا ہوا تو فارسی بولنے والے ایک بار پھر تیل بیچیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اوپر جو میں نے بظاہر طرفین کی طرف سے جنگی تیاریو ں کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں ہے جو ماضی میں نہ ہوتی رہی ہو یا اس بار غیر معمولی ہو۔یعنی خلیج فارس میں ابراہم لنکن بحری بیڑہ کوئی پہلی بار نہیں گیا نہ ہی قطر میں موجود العدید ائیر بیس پہ پہلی بار بی باون طیارے اترے ہیں۔ہاں جنہیں یہ شک ہے کہ ایران آبنائے ہرمز بند نہیں کرسکتا ان کے سامنے الفجیرہ پورٹ کی مثال موجود ہے جو بنا ہی اس لئے تھا کہ اسی کی دہائی میں ایران نے آبنائے ہرمز بند کررکھی تھی۔جو ایران اس وقت اس قابل تھا وہ آج کہاں کھڑا ہے یہ اندازہ لگانا کسی کے لئے مشکل نہیں ہے۔ مسئلہ صرف مشرق وسطی ہے جہاں ایران کو باقاعدہ راستہ دیا گیا اور اس نے حزب اللہ کے ذریعے قدم جما لیے۔اب وہ وہاں سے نکلنا نہیں چاہ رہا تو کوئی زبردستی ہے کیا؟ہاں ایک نائن الیون ہوسکتا ہے جس کا ملبہ اس بار افغانستان کی بجائے ایران پہ گرایا جاسکتا ہے۔ الفجیرہ پورٹ واقعہ اسی کی ایک جھلک معلوم ہوتا ہے۔