افغانستان کے حوالے سے سب سے اہم سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ وہاں طالبان کی پوزیشن کے بارے میں ہے۔ افغانستان میں قائم طالبان حکومت کس قدر مضبوط اور مستحکم ہے؟ اسے کیا خطرات لاحق ہیں؟ کیا طالبان مخالف اتحاد حکومت گرا کر خود قابض ہوسکتا ہے؟ طالبان کے ہمسایہ ممالک کا کیا رویہ ہے؟کیا طالبان کثیر القومی یا Inclusive حکومت بنائیں گے ؟طالبان کے اندر کس قدر اختلافات یا تنازعات موجود ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے کابل میں قیام کے دوران ان سوالات کے جواب پانے کی ہرممکن کوشش کی۔ طالبان رہنمائوں سے انٹرویوز، غیر رسمی گفتگو، گپ شپ ، طالبان سے مختلف رائے رکھنے والے رہنمائوں سے انٹرویوز، افغان میڈیا اور طالبان مخالف صحافیوں سے گفتگو ، عام شہریوں سے ہونے والی گپ شپ میں اندازہ لگانے کی کوشش کرتے رہے۔ کابل میں سفارت کاروں سے بھی گفتگو ہوئی، نام نہ لینے کی شرط پر انہوں نے بہت کچھ کھل کر بتایا۔پاکستان میں موجود حاضر اور ریٹائر سفارت کاروں سے بھی شیئرنگ چلتی رہتی ہے۔ ایک نکتے پر ہر کوئی متفق تھا کہ آج افغانستان میں طالبان کی بہت مضبوط اور مستحکم حکومت قائم ہے، جس کے گرنے یا اکھاڑ پھینکے جانے کا کوئی سنجیدہ خطرہ موجود نہیں۔ طالبان مخالف کمزور اور منتشر ہیں۔ جو لوگ سابق حکومت کا حصہ رہے، وہ بہت بدنام ، کرپٹ اور عوام میں جگہ نہیں رکھتے۔ لوگ ان سے متنفر اور بدظن ہیں۔ افغانستان ایک پھیلا ہوا ملک ہے، جس کے کئی حصے ہیں، ایک دوسرے سے مختلف ڈائنامکس رکھنے والے۔ انہیں اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے۔ نقشہ پر دیکھیں تو اوپریعنی شمال کی طرف افغانستان کے اہم صوبے بدخشاں ، بلخ ، تخار، قندوز،شبرغان ، فاریاب وغیرہ ہیں۔ شمال اس لئے اہم ہے کہ وہاں پر افغانستان کی سرحد اپنے تین پڑوسی ممالک تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان سے ملتی ہے۔ تاجکستان کے ساتھ افغان صوبوں بدخشاں(صوبائی دارالحکومت فیض آباد)، تخار(دارالحکومت طلقان)، قندوز (قندوز)کی سرحد جبکہ ازبکستان کے ساتھ صوبہ بلخ جس کا دارالحکومت مزار شریف کا تاریخی شہر ہے ، ملتا ہے، شبرغان صوبہ بھی ملحق ہے، یہی رشید دوستم کا آبائی علاقہ جوزجان ہے، جبکہ شمال مغرب میں ترکمانستان کے ساتھ فریاب، بدغیس وغیرہ ہیں۔ افغانستان کے مغرب میں ایران ہے، جس کے ساتھ مشہور افغان شہر ہرات، فرح اورجنوب مغرب میں نمروزہے۔ پاکستان کے ساتھ مشرقی اور جنوبی افغانستان ملتا ہے۔ جنوب میں قندھار،ہلمندوغیرہ جو بلوچستان کے ساتھ لگتے ہیں جبکہ ننگرہار، خوست، کنڑ، نورستان وغیرہ کے صوبے پاکستان کے خیبر پختون کے ساتھ واقع ہیں۔ سنٹرل افغانستان میں ہزارہ جات کے علاقے بامیان،دائے کنڈی،غور، غزنی وغیرہ ہیں۔ کابل کے ساتھ لغمان، پروان، لوگر وغیرہ کے صوبے ہیں۔بدخشان، تخار کے شمالی صوبوں سے نیچے بغلان، سمنگان، پنجشیر وغیرہ کے صوبے ہیں۔ طالبان کی پہلی حکومت میں کچھ علاقے پورے دور میں طالبان کے ہاتھ نہیں آ سکے تھے۔ ان میں وادی پنجشیر شامل ہے، جہاں مشہور تاجک کمانڈر احمد شاہ مسعود نے اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ اس کی بڑی وجہ پنجشیر کی جغرافیائی پوزیشن ہے جہاں تنگ دروں کی وجہ سے باہر سے حملہ آور کے لئے اندر آنا آسان نہیں۔تب ازبک ،تاجک، ہزارہ کمانڈروں پر مشتمل شمال اتحاد نے خاصا عرصہ مزار شریف( بلخ) اور تخار ، بدخشاں وغیرہ پر اپنا کنٹرول رکھا اور پڑوسی ممالک تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان وغیرہ سے انہیں مدد ملتی رہی۔ بھارت تب کھل کر شمالی اتحاد کو سپورٹ کر رہا تھا اوربعض سنٹرل ایشیائی ممالک میں اس نے اپنے ملٹری بیس بھی بنا رکھے ہیں۔ طالبان نے اپنے آخری سال میں مزار شریف پر کنٹرول کر لیا تھا، مگر پنجشیر تب بھی ان کے پاس نہیں آیا۔ تب یہ کہا جاتا تھا کہ پچانوے فیصد افغانستان طالبان کے کنٹرول میں ہے، مگر جو پانچ فیصد شمالی اتحاد کے پاس تھا، اس سے ان کی مزاحمتی تحریک بہرحال جاری رہی۔ آج طالبان افغانستان کے سو فیصد علاقوں پر قابض ہیں۔ یہ سب سے بڑا فرق ہے۔ پچھلے سال اگست میں طالبان جنگجوئوں نے کمال مہارت اور سرعت کے ساتھ سب سے پہلے شمال کے پڑوسی ممالک کی سرحد کے ساتھ موجود صوبوں اور اہم بارڈر کراسنگ پر قبضہ کیا تھا، بدخشان، بلخ، تخار ، قندوز کے صوبے ابتدائی دنوں میں طالبان کے ہاتھ آ گئے جبکہ پنجشیر پر بھی انہوں نے کابل لینے کے دو تین ہفتوں کے اندر ہی قبضہ کر لیا اور احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اور امراللہ صالح وغیرہ کو تاجکستان فرار ہوجانا پڑا۔ اردو محاورے کے مطابق طالبان کے پہلے دور اور آج میں بڑا فرق یہ ہے کہ پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ شمالی اتحاد کے کمانڈروں کو طویل عرصہ حکومت کرنے کا موقعہ ملا۔دوستم ، عطا محمد نور، امراللہ صالح اور ہرات کے اسماعیل خان وغیرہ نے برسوں حکومت کی مگر کرپشن اور نااہلی کی خوفناک داستانوں کے سوا کچھ نہیں چھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی آج مزاحمت کی باتوں کو کوئی سیریس لینے کو تیار نہیں۔ اشرف غنی تو ملک سے فرار ہوگئے تھے، سابق صدر حامد کرزئی کابل میں اپنے محل نما گھر میں مقیم ہیں، عبداللہ عبداللہ بھی کابل میں ہیں۔ ان لیڈروں کو مگر کوئی خاص اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ کم وبیش یہی صورتحال گلبدین حکمت یار کی ہے۔حکمت یارپر ویسے الگ سے کالم لکھوں گا، ان شااللہ ۔ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے این آر ایف (National Resistance Front)کے نام سے ایک مزاحمتی تحریک شروع کر رکھی ہے، مگر اسے خاطر خواہ پزیرائی یا کامیابی نہیں ہوئی۔ افغانستان میں طالبان نے موسم بہار کے حملوں Spring Offensive کا ٹرینڈ قائم کیا تھا۔ طالبان جنگجو اپریل سے افغانستان کے مختلف علاقوں میں زور دار حملے کرتے اور نیٹو افواج کو بھاری نقصان پہنچاتے ۔ یہ حملے اپریل سے ستمبر یا کہیںکہیں اکتوبر تک جاری رہتے۔ دراصل افغانستان میں موسم شدید ہے اور بہت سے علاقوں میں اکتوبر ، نومبر سے شدید سردی اور برف باری شروع ہوجاتی ہے ، موسم لڑائی کے لئے سازگار نہیں رہتا۔ اس سال احمد مسعود کے این آر ایف نے سپرنگ آفینسو کا اعلان کیا، انہوںنے صوبہ بغلان کے ضلع اندریاب اور پنجشیر میں چند کارروائیاں کیں، مگر ان سے بات بنی نہیں، طالبان فائٹنگ فورس نے بھرپور او رتیز جواب دیا اور اندریاب اور پنجشیر میں مزاحمت کو کچل کر رکھ دیا، این آر ایف کے تین اہم کمانڈر بھی مارے گئے، بہت سے حملہ آور بھی ہلاک ہوئے۔اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر چل رہی ہے جس میں الزام لگایا گیا کہ طالبان نے این آر ایف کے قیدیوں کو قتل کر دیا۔ طالبان حکومت نے اس کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیاہے اور وعدہ کیا ہے کہ اگر ویڈیو نئی اور درست ہوئی تو کارروائی کریں گے۔ میں نے ٹوئٹر پر احمد مسعود کی فارسی زبان میں ویڈیو انگریزی سب ٹائٹلز کے ساتھ سنی اور اس کا طویل بیان بھی پڑھا۔ اس میں وہ اپنے مرنے والے جنگجوئوں کی شان میں قصیدہ پڑھ رہا تھا کہ انہوں نے اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کے ساتھ آخری سانس اور آخری گولی کے ساتھ مقابلہ کیا وغیرہ وغیرہ۔ مرنے والوں کے ساتھ ہمدردی ہے، مگر سچی بات ہے کہ یہ بیان پڑھ اور سن کر سمجھ آ گئی کہ انہاں دے وَس دی گل نہیں(ان کے بس کی بات نہیں)۔جب مزاحمتی کمانڈر اپنی مظلومیت کا رونا روئے اور کم تعداد گنوائے تو یہ اس کی شکست خوردگی کا اعتراف ہے ۔ ایک بڑا فرق تو احمد شاہ مسعود کے تجربے کا ہے، اس نے روس کے خلاف برسوں جنگ لڑی تھی، طویل رگڑا سہا اور وہ تجربہ کار تھا۔ احمد مسعوداس کا بیٹا ہے، مگر وہ نہیں۔ اس نے مغرب سے ملٹری ایجوکیشن تو حاصل کی، مگر اسے تجربہ نہیں اور نہ ہی آج نوے کے عشرے والے حالات ہیں۔ افغانستان کے پڑوسیوں میں سے ایک ازبکستان نے بھرپور انداز میں طالبان حکومت کا ساتھ دیا ہے اور وہ کسی بھی طور مزاحمتی تحریک کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہا،حالانکہ ماضی میں یہ طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کا ساتھی تھا۔ ایران بھی اس بار طالبان کے خلاف نہیں ہے ۔ ترکمانستان کا رویہ بھی غیر جانبدارانہ سا ہے اور ان کی خواہش ہے کہ تاپی گیس پائپ لائن کو ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا تک جائے گی، اس پر کام ہو۔ تاجکستان کا رویہ کشیدگی والا ہے، این آر ایف کو مبینہ طور پروہاں سے مدد مل رہی ہے، مگر تاجکستان کی ایسی پوزیشن نہیں کہ وہ فیصلہ کن کردار ادا کر سکے۔ دلچسپ معاملہ ترکی کا ہے، طالبان کے ساتھ تعلقات بھی ٹھیک ہیں، مگر کہا جاتا ہے کہ دوستم کو اس نے پناہ دے رکھی ہے، ماضی میں بھی ترکی بدنام زمانہ ازبک وارلارڈ رشید دوستم کا سرپرست رہاہے۔ نوے کے عشرے میں بھارت کھل کر شمالی اتحاد کے ساتھ تھا کہ اس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا۔ اب بھارت نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری افغانستان میں کر رکھی ہے اور اسے اندازہ ہے کہ طالبان حکومت کو گرانا ممکن نہیں۔ انڈیا خاموشی سے اپنا سفارت خانہ کھول چکا ہے اور قومی امکانات ہیں کہ وہ اپنے ڈویلپمنٹ پراجیکٹس بھی مکمل کر۔ طالبان حکومت کو اس پر اعتراض نہیں، انہوں نے کہا ہے کہ وہ ماضی کی حکومت کے ترقیاتی پراجیکٹس کے معاہدوں کا احترام کریں گے۔ البتہ طالبان کسی بھی طرح پاکستان مخالف سرگرمیوں میں بھارت کے ساتھی نہیں بن سکتے۔ اس لئے بظاہر طالبان ہی افغانستان میں آل ان آل ہیں۔ داعش ایک (مڈل رینج) تھریٹ ضرور ہے، مگر وہ حکومت گرانے یا پلٹانے کا نہیں البتہ دہشت گردی کے حوالے سے تھوڑا بہت ہوسکتا ہے۔ دیگر پہلوئوں پر اگلی نشست میں۔ (جاری ہے )