افغان طالبان خطے کی وہ سیاسی حقیقت ہیں جسے امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹونے کا مان لیا اور اُن سے باعزت و محفوظ واپسی کی ضمانت کے ساتھ فوجی انخلا کا سلسلہ جاری ہے‘9/11کے بعد امریکہ چار درجن کے قریب اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو دنیا بھر کے تجزیہ کاروں نے اسے ہاتھی اور چیونٹی کا مقابلہ قرار دیا‘ جس پر ہمارے جیسے بنیاد پرستوں کا ماتھا ٹھنکا کہ انہیں اصحاب فیل(ہاتھی والوں) کا انجام یاد تھا‘ اب حالت یہ ہے کہ طالبان امریکہ کی ہم پلّہ قوت ہیں ۔ایک بیان امریکہ جاری کرتا ہے تو جواب طالبان کی طرف سے آتا ہے اور طالبان کا کوئی چھوٹا موٹا لیڈر یا ترجمان بولتا ہے تو اس کا جواب وائٹ ہائوس‘ پینٹگان کا ترجمان یا امریکی وزیر خارجہ کو دینا پڑتا ہے‘ افغان طالبان نے اپنی حیثیت بیس سالہ جنگ سے منوائی ہے یہ صرف اسلحے بارود کا مقابلہ نہ تھا‘ اعصابی اور نفسیاتی جنگ تھی جو طالبان نے جیتی۔ غالباً 2002ء یا 2003ء میں مجھے سینئر صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ کابل جانے کا موقع ملا ‘اس موقع پر میں نے دو تین کالموں میں اپنے تاثرات بیان کئے‘ انہی میں سے ایک کالم قند مکرّر کے طور پر پیش خدمت ہے‘ یہ حامد کرزئی کا دور صدارت تھا اور افغانستان کے علاوہ پاکستان میں بھی طالبان کا ذکرشجر ممنوعہ۔‘‘ ’’کابل میں نجی مکانوں کی تعمیر اور مرمت کے کوئی آثار نظر نہیں آتے البتہ سرکاری عمارتوں کی تزئین و آرائش ہو رہی ہے۔ باہر سے جو تھوڑے بہت ڈالر آ رہے ہیں وہ وزیروں ‘ سرکاری عہدیداروں اور سکیورٹی ایجنسیوں کی تنخواہوں پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ طالبان کے دور میں عوام تفریح سے محروم تھے کوئی سینما‘ نہ پارکوں میں چہل پہل اور نہ کوئی دوسری آئوٹ ڈور تفریح‘ لیکن اب عوام ہے چارے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ بہت سے فیشن ایبل گھرانوں کی خواتین بھی نہ چاہنے کے باوجود برقعہ پہن کر گھر سے باہر قدم رکھتی ہیں کیونکہ حسین چہرے شمالی اتحاد والوں کی کمزوری ہیں اور جس خاتون پر ہاتھ ڈال دیں وہ عزت بچا کر گھر واپس نہیں آ سکتی۔‘‘ ’’طالبان کے بارے میں یہاں طرح طرح کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔ بہادر‘ جفا کش‘ پرعزم ‘ انسان دوست اور ایثار و قربانی کے پیکر۔ ایک سفارت کار نے بتایا کہ احمد شاہ مسعود جیسے جری‘ جنگی حکمت عملی کے ماہر اور چالاک کمانڈر کو وادی پنج شیر تک محدود کر دینا صرف طالبان کے بس کی بات تھی حالانکہ امریکہ ‘ فرانس‘ ایران ‘ ترکمانستان اور بھارت اس کی پشت پر تھے۔ سالانگ سرنگ سے آگے روس کے تعمیر کردہ آہنی پلوں کو جس طرح احمد شاہ مسعود نے مسمار کیا اور لوہے ‘پتھر کی دیواریں تعمیر کیں تاکہ طالبان کا راستہ روکا جا سکے اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جری کمانڈر ان گدڑی پوش درویشوں سے کس قدر خوفزدہ تھا۔’’میں تصور کرسکتا ہوں کہ احمد شاہ مسعود اور اس کے تمام ساتھی کمانڈروں‘ سپاہیوں نے چھ سال تک راتیں جاگ کر گزاری ہوں گی‘‘ ایک سفارت کار کا تبصرہ تھا۔‘‘ ’’احمد شاہ مسعود کے ڈسٹرکٹ کمانڈر انور ڈنگر وہ رات نہیں بھول سکتے جب ٹینکوں‘ مشین گنوں کے حفاظتی حصار کے باوجود چھ نوجوان طالبان رات گئے اس کے بیڈ روم تک پہنچے اور اسے ہتھیار ڈالنے یا موت کو گلے لگانے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا۔‘‘ جو لوگ ٹینکوں‘ مشین گنوں‘ مسلح محافظوں کا گھیرا توڑ کر میرے بیڈ روم تک پہنچ سکتے ہیں ان سے لڑنا‘ جھگڑنا‘ بحث کرنا فضول تھا اس لئے میں نے اپنے آپ کو ان کے حوالے کر دیا۔ یہ واقعی مافوق الفطرت لوگ تھے‘ ‘انور ڈنگر اعتراف کرتا ہے۔‘‘ کابل میں طالبان کو ’’ننگے پائوں‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ منفی تیس چالیس سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں یہ لوگ برف پوش چٹانوں پر ننگے پائوں چل کر عوام کی مدد کو پہنچتے‘ انہیں تحفظ کے لئے اشیائے خورو نوش فراہم کرتے اور ان سے عاجزی و انکساری کے ساتھ التجا کرتے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی سرخروئی اور کامیابی کی دعا کریں کیونکہ اگر وہ فرائض میں غفلت کے مرتکب ہوئے اور عوام کی توقعات پر پورے نہ اترے تو روز قیامت سخت پرسش ہو گی۔ ان ’’ننگے پائوں‘‘ طالبان کے نامہ اعمال میں درج گناہوں اور جرائم کی تفصیل یوںبیان کی جاتی ہے۔(1)۔ یہ لوگ قانون کے نفاذ میں سخت گیر تھے کسی سے رورعایت‘سفارش اور چشم پوشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔(2) فلم بینی‘ ناچ گانے‘ مرغ لڑانے اور خوبرو لڑکوں کو ساتھ لے کر گھومنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ خواتین کو برقعہ‘ شرعی حجاب کے بغیر گھومنے پھرنے کی آزادی نہیں تھی۔(3) داڑھی منڈھوانے والوں کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے۔‘‘ ’’خواتین کی تعلیم ‘ ملازمت اور ان ڈور سرگرمیوں کے حوالے سے جو منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ وہ سراسر جھوٹ ہے۔ جب امریکی صدر کے ایلچی بل رچرڈسن کابل آئے اور خواتین کی تعلیم کے حوالے سے طالبان کو مطعون کرنے کی کوشش کی تو طالبان کے وزیر تعلیم ملا متقی نے ان پر واضح کیا کہ ہم نہ تو خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں اور نہ ان کی ملازمت کے۔ لیکن ہمارے ہاں وسائل کی کمی ہے‘ ابھی تک ہم اس قابل نہیں ہو سکے کہ لڑکوں کی تعلیم کے خاطر خواہ انتظامات کر سکیں کیونکہ مخصوص موسمی حالات اور شمالی اتحاد کی طرف سے مسلسل ریشہ دوانیوں کی وجہ سے بچوں اور بچیوں کے لئے محفوظ تعلیمی اداروں کی موجودگی ضروری ہے۔اقوام متحدہ یا کوئی دوسرا ادارہ ہمیں وسائل فراہم کرے ہم ملک میں سات خواتین یونیورسٹیاں قائم کرنے کا پروگرام بنا چکے ہیں۔ ہم اپنی بچیوں کو پڑھانا شرعی اور اسلامی فرض سمجھتے ہیں لیکن اس کے لئے وسائل بھی تو ہونے چاہئیں۔؟‘‘ ’’کرزئی حکومت میں روس‘ بھارت اور ایران کا اثرورسوخ سب سے زیادہ ہے کیونکہ شمالی اتحاد بنیادی طور پر انہی ممالک کے دم قدم سے قائم رہا۔ پاکستان اس وقت کابل میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ملک ہے جو حال نئی دہلی میں ہمارے سفارت خانے کا ہے کم و بیش وہی کابل میں ہے مگر ہم اصلاح احوال کی کوئی سنجیدہ اور شعوری کوشش بھی نہیں کر رہے۔ کابل سے تہران ایرانی ایئر لائنز کا کرایہ ایک سو دس ڈالر ہے جبکہ یہ تین گھنٹے کی فلائٹ ہے اس کے برعکس اسلام آباد سے کابل کا کرایہ دو سو دس ڈالر مقرر کیا گیا ہے اور وہ بھی یکطرفہ۔ دو طرفہ تعلقات سیاسی اور سفارتی بنیادوں پر فروغ دینے کی بجائے تجارتی اور کاروباری نقطہ نظر سے آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کابل کی سڑکوں پر بھارتی TATAکمپنی کی بسیں رواں دواں نظر آتی ہیں جو بھارتی حکومت نے بطور تحفہ بھجوائی ہیں۔ ایرانی پٹرول سولہ سترہ روپے فی لٹر دستیاب ہے اور یہی تیل پاکستان سمگل ہو کر بکتا ہے۔ بھارتی فلمیں اور کیسٹیں بھی مانگ کے مطابق بازار میں موجود ہیں۔ریستورانوں اور پارکوں میں رونق بڑھ رہی ہے اور گلیوں بازاروں میں اکا دکا فیشن ایبل نوجوان بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے جینز پہن رکھی ہوتی ہے۔ ایک آدھ خاتون بغیر برقعے کے بھی نظر آتی۔ سکول کھل گئے ہیں اور ان میں بچے بچیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کابل یونیورسٹی میں جہاں کبھی پانچ چھ ہزار طالب علم ہوتے تھے اب ڈیڑھ سو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دریائے کابل ایک گندے نالے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے جس کے تعفن سے اردگرد کی آبادی سخت پریشان ہے۔ ویسے بھی یہ دریا برائے نام ہے کیونکہ اس کی چوڑائی لاہور کے عام گندے نالوں سے زیادہ نہیں۔ شہر لاہور میں بہنے والی نہر دریائے کابل کے مقابلے میں سمندر لگتی ہے۔‘‘