افغانستان کے دارالحکومت کابل میں گذشتہ بدھ شہر بھر میں پولیس کی گشت میں اضافہ دیکھا گیا، جس کا مقصد امن و امان کی بحالی اور نقل و حمل کو محفوظ بنانا تھا۔ اس شہر میں گذشتہ دو ماہ میں جرائم میں اضافہ دیکھا ہے۔ایک نوجوان طالب علم علی سینا کو گذشتہ ہفتے مغربی کابل میں اپنے گھر کے قریب گلی میں چھریوں کے وار کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حملہ آور بظاہر موبائل فون اور لیپ ٹاپ چوری کرنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے علی سینا کی جان ہی لے لی۔ طالب علم کے قتل نے کابل کے لوگوں کو غم سے مغلوب کر دیا جو پہلے ہی بڑھتی ہوئی مسلح ڈکیتیوں کی زد میں تھے۔ گذشتہ ماہ پورے شہر میں اس طرح کی متعدد ہلاکتیں رونما ہوئیں۔ سٹریٹ کرائم میں اضافے نے لوگوں کو خوف زدہ کر رکھا ہے جب کہ میڈیا نے چوروں سے نمٹنے میں پولیس کی عدم دلچسپی اور کمزوری پر کڑی تنقید کی۔جس کے بعد وزارت داخلہ عوامی دباؤ میں آگئی اور افغان حکومت نے بھی متنبہ کیا کہ کابل میں عدم تحفظ کو ختم کیا جانا چاہیے۔ دوسری جانب کابل کے شہریوں نے بھی شہر کی ابتر صورت حال کی طرف سکیورٹی اداروں کی توجہ مبذول کروانے کے لیے سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی اور ’کابل محفوظ نہیں ہے‘ کا ہیش ٹیگ لانچ کرکے انہوں نے کابل کی سکیورٹی پر احتجاج کیا۔اس دباؤ نے وزارت داخلہ کو بدھ کو کابل میں تمام عملے کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کرنے پر مجبور کیا، جس میں دارالحکومت میں جرائم کو کم کرنے کے لیے ایک نیا حفاظتی منصوبہ تشکیل دیا گیا۔ اس منصوبے کا ایک حصہ پورے کابل میں گشت بڑھانا بھی ہے۔ خوش قسمتی سے اس گشت کی پہلی ہی رات متعدد مبینہ مسلح راہزن گرفتار ہوئے۔لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کابل میں مسلح ڈکیتیاں اور اس جیسے دیگر جرائم کیوں اور کیسے بڑھ گئے ہیں۔عام طور پر نہ صرف کابل بلکہ بیشتر بڑے شہروں میں بھی سرد موسم میں چوری، تاوان اور غنڈہ گردی جیسے جرائم بڑھ جاتے ہیں۔ اس اضافے کی سب سے بڑی وجہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی غربت قرار دی جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ دو پیسوں کے لیے کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ افغانستان میں بڑی تعداد میں لوگوں کو ایک سال کام ملتا ہے اور دوسرے میں نہیں یعنی سال کے ایک سیزن میں کام ہوتا ہے اور دوسرے میں نہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں زیادہ لوگوں کی معیشت اور آمدن کاشت کاری سے وابستہ ہے، موسمِ سرما عام طور پر بیروزگاری کا موسم ہوتا ہے۔ دوسری طرف سرد موسم کے باعث بعض حصوں میں سکول اور یونیورسٹیاں بند ہوتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں پیسوں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں وہ نوجوان جن کے پاس کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہوتا، جرائم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ رات کے وقت بیشتر ڈکیتیاں چھریوں یا ہینڈ گن کی مدد سے کی جاتی ہیں۔ یہ جرائم پیشہ ور چور اور مجرم نہیں بلکہ نوجوان اس وقت تک کرتے ہیں جب تک انہیں ملازمت نہیں مل جاتی۔ بڑے شہروں میں جیب کٹنے، بیگ چھینے اور موبائل فون کی چوریاں سب سے زیادہ عام ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ موبائل فون یا بیگ کی چوری کے الزام میں گرفتار ہونے والے اکثر افراد حراست میں زیادہ وقت نہیں گزارتے کیونکہ حکومت کے پاس ایسے لوگوں کی دیکھ بھال کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ اس کے نتیجے میں جرائم کی شدت اور مدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر معاملات میں ڈاکو شکار کو نقصان پہنچائے بغیر اشیا چوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چھریوں اور ہینڈگنوں کا استعمال شکار کو ڈرانے کے لیے کیا جاتا ہے اور اس طرح کے واقعات میں کوئی شاذ و نادر ہی زخمی ہوتا ہے، لیکن جہاں کوئی شخص مزاحمت کرتا ہے یا جوابی حملہ کرتا ہے تو زیادہ سنگین چوٹ آنے کا زیادہ امکان رہتا ہے اور بعض اوقات موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔رات کی گشت اور چوکیوں میں اضافے جیسے منصوبے سٹریٹ کرائم کو کم کرنے پر کچھ خاص اثر ڈالتے نظر نہیں آتے۔ طویل مدتی، پائیدار حل کے لیے معاشرتی اور ثقافتی سیاق و سباق کی ضرورت ہوتی ہے۔ نسل در نسل 40 سال کی جنگ نے بڑی تعداد میں بچوں کو اپنے کنبے یا والدین کے بغیر چھوڑ دیا ہے۔ معاشرے کی اخلاقیات کمزور ہو گئی ہیں اور بچ جانے والے خاندانوں میں خاندانی ادارے کی اخلاقی بنیادیں، وابستگیاں اور فریم ورک کمزور ہوگئے ہیں۔اب ایک خطرناک چاقو ہر نوجوان کے پاس پایا جاسکتا ہے، جب کہ بڑے گروہوں سے جڑے چند نوجوان آتشیں اسلحے سے بھی لیس ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دہشت گردی، بے روزگاری، بے گھری، معاشی عدم استحکام، سلامتی کا فقدان اور غربت بھی جرائم کے پھیلاؤ کی بنیادی وجوہات ہیں۔موسم سرما میں کابل میں جرائم کا رجحان بڑھا ہے، جس کی بڑی وجہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی غربت قرار دی جاتی ہے۔افغانستان کی انتیس ملین سے زائد کی مجموعی آبادی میں سے نصف سے زائد شہری دو ہزار سولہ اور دو ہزار سترہ کے مالی سال کے دوران خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ یہ بات ایک نئی سرکاری رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خط غربت سے نیچے رہتے ہوئے زندگی گزارنے پر مجبور قریب پندرہ ملین افغان باشندے اپنی تعداد میں ملک کی مجموعی آبادی کے پچپن فیصد کے برابر بنتے ہیں۔ دو ہزار گیارہ اور دو ہزار بارہ کے مالی سال میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افغان شہریوں کی تعداد ملکی آبادی کا اڑتیس فیصد بنتی تھی، جس میں نئی رپورٹ کے مطابق اب سترہ فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے اور اب غربت کے شکار افغان شہریوں کی تعداد اکثریت میں ہو گئی ہے۔ورلڈ بینک کے افغانستان کے لیے ڈائریکٹر کے مطابق اس رپورٹ کا ایک خاص اور باعث تشویش پہلو یہ ہے کہ یہ افغانستان میں سلامتی کی ذمے داریاں سن دو ہزار چودہ میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو سے ملکی فورسز کو منتقل ہونے کے بعد پہلی بار مرتب کی گئی ہے اور یہ حالات کے کہیں زیادہ پریشان کن رخ اختیار کر جانے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اتنے بڑے حصے کا انتہائی غربت کا شکار ہونا اس لیے بھی باعث تشویش اور فوری اصلاح کا متقاضی ہے کیونکہ جنگ زدہ افغانستان کی آبادی کا اڑتالیس فیصد یا قریب نصف حصہ ایسا ہے، جو پندرہ برس سے کم عمر کے بچوں پر مشتمل ہے۔ (بشکریہ انڈیپنڈنٹ)