کابل سیکرٹریٹ میں خاصی چہل پہل تھی۔طالبان قیادت سیکرٹریٹ کی بلڈنگ میں موجود ایک کانفرنس روم میں جمع ہو رہی تھی،جہاں کچھ عرصہ قبل امریکی آشیر باد سے قائم حکومت کے ارکان بیٹھتے تھے۔مغربی لباس زیب تن کیے لوگ آج کانفرنس روم میں موجود نہیں تھے۔بلکہ ان کی جگہ داڑھی والے بیٹھے ہوئے تھے،جن میں سے کچھ کی داڑھیاں سفید اور کچھ کی کالی تھیں۔اجلاس شروع ہونے سے قبل طالبان رہنماؤں کی آپس میں ہلکی پھلکی گفتگو بھی جاری تھی۔طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیخ الحدیث مولوی عبدالحکیم حقانی،نئے چیف آف آرمی سٹاف قاری فصیح الدین،افغانستان کے مشرقی زون کے سربراہ شیخ انوار الحق کانفرنس روم میں پہنچے،تو سرگوشیاں دم توڑ گئیں اور گہرا سناٹا چھا گیا۔نشست کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ شیخ الحدیث مولوی عبدالحکیم حقانی اور قاری فصیح الدین نے مختصر خطاب میں خدا کا شکر اداکیا۔ قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور ڈپٹی وزیر داخلہ مولوی نور جلال بھی تشریف فرما تھے۔یہ سراج الدین حقانی اسی جلال الدین حقانی کے صاحبزادے ہیں، جن کی وائٹ ہاؤس میں صدر ریگن کے ساتھ تصویر کو دنیا آج تک نہیں بھولی ۔حقانی نیٹ ورک سے امریکا کی جان جاتی ہے اور بھارت کو بھی خوب مرچیں لگتی ہیں۔ پاکستان کے لیے ان کی محبت، ان کے جذبات دنیا میں کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ تقریب کے شرکاء سے قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا تعارف مولوی عبدالحکیم حقانی نے کروایا۔اس کالم میں طالبان قیادت کے اجلاس کا تذکرہ اس لیے کیا کیونکہ سراج الدین حقانی نے جو تقریر کی اس میں ساری دنیا اور بالخصوص پاکستانیوں کے لیے بہت سے نصیحت آموز نکات پوشیدہ تھے۔ان کی گفتگوہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کی مدد کی۔ان کے کلمات سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان کی فتح میں خدا کی رضا کیسے شامل ہوئی۔ طالبان نے بیس برس میں پتھروں ، غلیلوں اور چھوٹے چھوٹے ہتھیاروں سے اْس طاقت کو شکست دی جسے یہ گھمنڈ تھا کہ پوری دنیا میں اس کا سکہ چلتا ہے۔ سراج الدین حقانی جب تقریر کے لیے اٹھے،تو انہوں نے اللہ کا نام لے کر تھوڑا توقف کیا۔ چہرہ سرخ تھا، تقریب میں موجود شرکاء ان کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے پانی کو دیکھ سکتے تھے جو شکرانے کے آنسو تھے۔ یہ خدا کے سامنے عاجزی کا اظہار تھا،لجاجت تھی۔لیکن ان کی آواز بارعب تھی،جو اس بات کی غمازی تھا کہ عاجزی و لجاجت خدا کے لیے ہے جب کہ دشمنوں کے لیے ان کے عزائم اب بھی پہلے والے ہیں۔سراج الدین حقانی نے سب سے پہلے مجاہدین،افغان عوام سمیت اسلامی دنیاکو عظیم فتح کی مبارک باد دی۔انہوں نے کہا کہ آئیے ان شہدا کے لیے دعا کریں جن کی قربانیوں کے باعث انہیں یہ دن نصیب ہوا۔ دعا کے بعد سراج الدین حقانی نے کہا، اللہ نے آج ہمیں وہ فتح عطا کی ہے جس کے لیے لاکھوں نے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔ سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ ہمیں صرف الفاظ نہیں بلکہ اپنے عمل سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔ اورعملی طور پر شکر گزار ہونے کا مطلب ہے کہ ہم نظام حکومت اس طریقے سے چلائیں جیسے رب تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اگر ہم نے احکام الہیٰ کی خلاف ورزی کی تو خدشہ ہے کہ کہیں یہ نعمت ہم سے چھن نہ جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقتدار کسی کا حق نہیں بلکہ امانت خداوندی ہے جو قابل لوگوں کوسونپی جاتی ہے۔ خدا کے سامنے اپنے عجز کا اظہار کرتے ہوئے ملا سراج الدین حقانی نے کہا کہ میں خود کو اس ذمہ داری کے قابل تو نہیں سمجھتا،لیکن جن رہنماؤں نے مجھے یہ خدائی امانت سونپی ہے میں اس کے لیے خدا سے مدد مانگتا ہوں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب بھی گفتگو کے دوران اللہ کا نام آتا تو وہاں موجود لوگوں کی نظریں جھک جاتیں۔ ہر چہرے پر لجاجت اور عاجزی تھی۔ کمرے میں جاتے ہی آپ کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ ان لوگوں کی محفل ہے جو جنگ جیت کہ آئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی غمازی ہو رہی تھی کہ یہ لوگ خوف خدا سے کانپ رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھتے ہیں۔ یہ وہ ہاتھ ہیں جو ظالم کو کاٹنے کے لیے اللہ نے بنائے ہیں، یہ وہ ہاتھ ہیں جو یہ عزم لیے بیٹھے ہیں کہ مظلوم کو اس کا حق دِلا کر رہیں گے۔ تقریب کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا میں آپ سے اب بھی ویسا ہی تعاون چاہتا ہوں جیسے آپ لوگوں نے جہاد کے دنوں میں کیا۔ اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم غیر ملکی غاصبوں سے قبضہ چھڑا کر اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے تھے،جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے حوالے کیا۔ہم اپنے پڑوس اور باقی دنیا کے ساتھ مثبت تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ نہ ہم کسی کے معاملات میں مداخلت کریں گے، نہ کسی کو کرنے دیں گے۔ افغان عوام کو اطمینان دلاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی مدد سے یہاں پہنچے ہیں اور اگلے معاملات بھی آپ کے تعاون سے چلائیں گے۔ ہم آپ کی خدمت، ترقی اور زندگی کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ افغان عوام کے حوالے سے جب ملا سراج الدین حقانی بات کر رہے تھے تو وہاں موجود ہر شخص کے چہرے پر یہ تاثرات بآسانی دیکھے جا سکتے تھے کہ وہ اپنی عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ملا سراج الدین حقانی نے مجاہدین کو احکامات دیتے ہوئے کہا کہ وہ طالبان رہنماؤں کی اطاعت کریں۔ مادی چیزوں اور عہدوں سے دھوکا نہ کھائیں۔ انہوں نے دوبارہ تنبہیہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ عوام پر حکمران نہیں بلکہ ان کے خادم ہیں۔ لہٰذا آپ کے کسی بھی عمل سے عوام کو تکلیف نہیں پہنچنی چاہئے۔ اور اگرہم تک ایسی کوئی شکایت پہنچی تو پھر ایسے عہدیدار کو شریعت کے مطابق سزا دی جائے گی۔ اس بات کے دوران تقریب میں موجود ہر شخص کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔ تاثرات بتا رہے تھے جیسے ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے متفکر ہے۔ آخر میں ملا سراج الدین حقانی نے عام معافی کے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی سیاسی چال نہیں بلکہ شرعی قانون تھا۔ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ آپ کے ذہنوں سے کسی شخص سے بدلہ لینے کی سوچ نکل جائے۔ سراج الدین حقانی کے الفاظ میں آج ہمارے لیے بھی دعوت فکر ہے۔شاید ہمیں بھی اپنا محاسبہ کرنا ہوگا ، اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا پڑے گا۔ سیکھنا ہوگا سراج الدین حقانی کے ان الفاظ سے۔کس قدر سادگی سے یہ تقریب منعقد کی گئی۔ جس میں کسی قسم کی کوئی نمائش نہیں تھی، طاقت کا اظہار نہیں تھا، کوئی گھمنڈ نہیں تھا۔ اگر ہم بھی یہ سیکھ لیں، سادگی اپنا لیں اور صرف اللہ کی رضا ہمارا مشن ہوتو ہمیں نہ فرانس سے ڈرنے کی ضرورت ہے، نہ امریکا ہمیں دھمکا سکتا ہے۔ ناموس رسالتﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں بھی وہی جذبہ پیدا کر دے جو طالبان کے دل میں ہے تو یقین کریں دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی: کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں